نواز شریف کا مدبرانہ فیصلہ…

ناصر الدین محمود  جمعرات 6 جون 2013

قابل تحسین امر ہے کہ انتخابات میں واضح کامیابی حاصل ہو جانے کے باوجود بھی میاں نواز شریف کے طرز فکر میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ وہ آج بھی قومی یکجہتی کے حصول کے ضمن میں اتنے ہی متفکر ہیں کہ جتنے انتخابات سے قبل تھے۔ ماضی میں، وہ کبھی ناراض بلوچ رہنمائوں کو پاکستان کے جغرافیہ میں رہتے ہوئے، ظلم و زیادتی اور ناانصافی کے خلاف سیاسی جدوجہد پر آمادہ کر رہے تھے تو کبھی سندھی قوم پرستوں کے خلاف ماضی میں روا رکھے گئے ظالمانہ طرز عمل کے خاتمے کی یقین دہانی کروا کر انھیں ملک میں حقیقی جمہوریت کے قیام اور اس کے استحکام کے لیے جدوجہد کرنے پر راضی کرتے نظر آتے تھے۔

آج انتخابات میں کامیابی حاصل ہونے کے بعد بھی وہ سب سے دامن چھڑا کر اقتدار کی راہ داریوں کے اسیر ہونے کے بجائے پاکستان میں بسنے والی تمام وفاقی اکائیوں کو ساتھ لے کر چلنے کے خواہش مند نظر آتے ہیں۔ بلوچستان اسمبلی میں آزاد ارکان کی مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کے بعد اب مسلم لیگ (ن) صوبے کی سب سے بڑی جماعت بن چکی ہے۔ پارلیمانی سیاست میں عددی برتری کے حصول کے بعد اب بلوچستان میں حکومت سازی مسلم لیگ (ن) کا قانونی اور اخلاقی حق تھا۔ مزید برآں ان کی جماعت کے مرکزی سینئر نائب صدر اور صوبائی صدر بھی وزارت اعلیٰ کے مضبوط امیدوار تھے جو کہ بلوچستان کے مخصوص اور روایتی طرز سیاست کے حوالے سے ایک مضبوط خاندانی پس منظر رکھتے ہیں اور اپنے قبیلوں کے سردار بھی ہیں۔

صوبہ بلوچستان میں آج تک سرداروں کی حکمرانی قائم رہی ہے اور یہ صوبہ جمہوری ادوار میں بھی سرداری نظام میں جکڑا رہا ہے۔ ان تمام تر حقیقتوں کے باوجود میاں محمد نواز شریف نے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے لیے غریب و متوسط درجہ کا پس منظر رکھنے والے ایک ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ فرد ڈاکٹر عبدالمالک کو منتخب کیا ہے کہ جس کا ماضی متعدد مرتبہ پارلیمنٹ کا حصہ ہونے کے باوجود معاشرے میں رواج پا جانے والے آلودہ سیاسی کلچر میں بالکل محفوظ رہا ہے۔ وہ پاکستان میں ہمیشہ زیر عتاب رہنے والی بائیں بازو کے انقلابی نظریات کی حامل سوچ کے مالک معتبر اور منجھے ہوئے سیاستدان ہیں۔ ان کی اب تک کی زندگی ملک کے غریب محنت کش عوام کی فلاح و بہبود کی عملی جدوجہد میں گزری ہے۔

وہ زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم ملک کے مظلوم عوام کے بہتر مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے سیاست کی کٹھن راہوں کے مسافر رہے ہیں اور یہ دشوار گزار راستہ انھوں نے خود منتخب کیا ہے کیونکہ انھیں یقین ہے کہ جمہوری جدوجہد کی بدولت سماجی اور معاشی انصاف حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے کسی مسلح جدوجہد کی ضرورت نہیں۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ طبقاتی نظام کے خلاف برسر پیکار رہے ہیں۔ وہ معاشرے سے جہالت، بیماری، غربت اور بیروزگاری سمیت دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے علمبردار ہیں۔

ان کا انتخاب میاں محمد نواز شریف کی تبدیل شدہ نظریاتی کیفیت کا مظہر ہے۔ وہ ملک کے بڑے سرمایہ دار گھرانے کے سربراہ ہیں جنھیں سرمایہ داروں کا نمایندہ بھی تصور کیا جاتا ہے، انھوں نے انقلابی نظریات کے حامل مزدور دوست فرد کو ایسے حالات میں وزیر اعلیٰ کے منصب کے لیے چنا کہ جب مسلم لیگ (ن) کو صوبہ بلوچستان میں حکومت سازی کے حوالے سے کوئی مجبوری بھی لاحق نہیں ہے۔ آج بلوچستان جن سیاسی حالات سے دوچار ہے اس میں شک و شبہ سے بالاتر اس ہی طرح کی قابل احترام بلوچ شخصیت کا انتخاب یقیناً قومی خدمت سے کم نہیں ہے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا صوبے کی نئی مخلوط حکومت میں وزیر اعلیٰ بننا جہاں ملک اور صوبہ بلوچستان کے لیے نیک شگون ہو گا، وہیں بلوچستان کی علیحدگی کی جدوجہد کرنے والے ناراض رہنمائوں کے دل میں نرم گوشہ پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔ ان کا تعلق مکران ڈویژن کے علاقے کیچ سے ہے اور وہ وہیں سے صوبائی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے ہیں۔ یہ وہ علاقہ ہے جسے اس وقت بلوچ علیحدگی پسندوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ ان کی جانب سے شدید مزاحمت کے خطرات کے باوجود نیشنل پارٹی نے کمزوری کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے پاکستان کے قومی دھارے میں شامل ہو کر اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہد کو جاری رکھا اور حالیہ انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے اس حقیقت کو آشکار کر دیا کہ اس علاقے کے غریب محنت کش عوام، وفاق پاکستان میں رہنا چاہتے ہیں۔

یہی وہ اسباب و عوامل ہیں جنھیں پیش نظر رکھ کر میاں نواز شریف نے ڈاکٹر عبدالمالک کا انتخاب کیا ہو گا۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ طبقاتی طور پر خود بھی غریب متوسط گھرانے کے فرد ہیں اور بلوچ عوام کے مسائل کا خوب ادراک رکھتے ہیں۔ لہٰذا ان کے وزیر اعلیٰ بننے سے مزاحمت کاروں کے ساتھ زیادہ بہتر انداز میں بامقصد مذاکرات کر کے کئی عشروں سے جاری مسلح جدوجہد کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ بلوچستان میں بے پناہ قدرتی وسائل موجود ہیں۔ بلوچستان میں اگر امن اور استحکام ہو گا تو ان وسائل کا براہ راست فائدہ بھی بلوچستان کو حاصل ہو گا۔

قومی یکجہتی کے فروغ اور جمہوری کلچر کے استحکام کے لیے میاں نواز شریف کے اقدامات محض بلوچستان تک ہی محدود نہیں ہیں۔ انھیں خیبر پختونخوا اسمبلی میں مولانا فضل الرحمان کی حمایت حاصل ہو جانے کے نتیجے میں عددی اکثریت حاصل ہو چکی تھی اور وہاں بھی حکومت بنانا ان کے لیے دشوار نہیں تھا لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ صحت مند سیاسی روایت کو جنم دیتے ہوئے میثاق جمہوریت میں طے کیے گئے اصولوں کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا میں اکثریت حاصل کرنے والی تحریک انصاف کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا۔ اور یہ موقع فراہم کیا کہ وہ آسانی کے ساتھ صوبہ میں حکومت قائم کر سکے۔ اس اصولی طرز عمل کو ’’فرینڈلی‘‘ طرز سیاست کا طعنہ دے کر میاں نواز شریف پر تنقید کرنے کے بجائے اسے نئے جمہوری کلچر کی ضرورت اور استحکام کے ضمن میں کیا جانے والا مدبرانہ فیصلہ سمجھ کر تعریف کی جانی چاہیے۔ اب یہی کوشش تمام قومی سیاسی جماعتوں کی بھی ہونی چاہیے کہ وہ بھی ایسا طرز عمل اختیار کریں جس سے ملک میں جمہوری کلچر مزید مستحکم ہو کیونکہ مستحکم جمہوریت میںہی پاکستان کے عوام کی خوشحالی کا راز پوشیدہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔