منی پاکستان لاقانونیت خطرے کی گھنٹی

منی پاکستان میں دہشت گردی اور لاقانونیت کا شیش ناگ تاحال کچلا نہیں جاسکا ۔گزشتہ 5 برس میں ان دہشت ناک قوتوں نے...


Editorial June 10, 2013
گزشتہ 5 برس میں منی پاکستان کے ہر شہری سے جی بھر کے انتقام لیا گیا۔ فوٹو: اے ایف پی

منی پاکستان میں دہشت گردی اور لاقانونیت کا شیش ناگ تاحال کچلا نہیں جاسکا ۔گزشتہ 5 برس میں ان دہشت ناک قوتوں نے منی پاکستان کے ہر شہری سے جی بھر کے انتقام لیا ۔ سب سے تکلیف دہ پہلو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی ہے ۔اصل میں کراچی کو معاشی اور لسانی عوامل کے ماورا دیگر سیاسی اور عالمی قوتوں کے مفادات کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ کراچی کے بد خواہ بہت سارے ہیں ، صورتحال کو نظر انداز کیا گیا تو انارکی اور لاقانونیت سول وار کا روپ دھار سکتی ہے ۔

شہر کی نبض بظاہر ٹوٹتی دکھائی دیتی ہے اور مکروہ عزائم رکھنے والی قوتوں نے ملک کے اقتصادی حب کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکیاں پہلے ہی دے رکھی ہیں۔ لیاری سمیت منی پاکستان کے تقریباً پورے سماجی شیرازے کو بکھیرنے کی مجرمانہ کوششوں میں پھر سے شدت آمیزی ایک بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے ۔ ارباب اختیار نے شہر میں بے لگام ٹارگٹ کلرز اور گینگ وار کارندوں کے خلاف کارروائی میں جو تساہل برتا ہے اس سے سیاسی مصلحت سے زیادہ کراچی کو آگ اور خون کا اندھا کنواں بنانے کی ایک گھناؤنی سازش کی بو آتی ہے ۔

یہ حقیقت ہے کہ لیاری میں گینگ وار کے2 گروپوں کے درمیان مسلح تصادم کے نتیجے میں فائرنگ ، راکٹ اوردستی بم حملوں کے نتیجے میں2بچیوں سمیت 12افراد کی ہلاکت اور خواتین سمیت28سے زائد کا زخمی ہونا معمولی واقعہ نہیں۔ ادھر کراچی کے دیگر علاقوں میں بھی ٹارگٹ کلرز بے لگام ہوگئے ہیں جس کے باعث مختلف علاقوں میں فائرنگ اورتشدد کے واقعات میں3پولیس اہلکاروں سمیت مزید8افرادہلاک اور 10 زخمی ہوگئے ۔ چھوٹے چھوٹے مجرمانہ گروہ آپس میں مل کر ایک خوفناک ریاست مخالف طاقت بننے کے نشے میں مست ہیں۔کراچی کو قانون کی حکمرانی چاہیے۔

حکومت سندھ کو اس کا فوری نوٹس لینا چاہیے ۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کو صورتحال کی بریفنگ کی ضرورت نہیں ہے وہ حالات سے خوب واقف ہیں۔ اس لیے ایکشن لینے میں تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں ۔ اس ضمن میں سپریم کورٹ کی کراچی بدامنی کیس اور سندھ ہوئی کورٹ کی رولنگ ،فیصلوں اور مختلف ریمارکس اس امر کے آئینہ دار ہیں کہ عدلیہ نے کراچی کی صورتحال کو بڑی درد مندی اور دل سوزی کے ساتھ حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور حکم دے دیا تھا کہ وہ ان مجرمانہ گروپوںکو قانون کی زنجیریں پہنادیں۔مگر دہشت گردوں کو طالبان،القاعدہ اور مختلف کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے کے الزام میں گرفتار تو کیا گیا مگر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔یوں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طالبان سمیت کئی گروپوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں پسائی اور ناکامی کو خطرے کی گھنٹی کہنا غلط نہیں ہوگا ۔

منظم مافیاؤں ، فاٹا اورسوات سمیت دیگر علاقوں سے کراچی میں اپنی کمیں گاہیں بنانے والوںنے گینگ وار کارندوں اور شہر میںبھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز سے گٹھ جوڑ کرلیا اور گزشتہ چند روز میں جس دیدہ دلیری سے شہریوں کو یرغمال بنا کر ظالمانہ طریقے سے لیاری میں گینگ وار کے نام پر قتل و غارت کا نیا ہولناک سلسلہ سر اٹھارہا ہے وہ سول وار کی وارننگ ہے ۔ لیاری میں روپوش غفار ذکری گروپ کی مبینہ واپسی اور گینگ وار کارندوں کے ٹھکانوں کا محاصرہ کرنے کے نتیجہ میںہفتہ اور اتوار کی شب سے شروع ہونے والی قتل و غارت کسی طرح بند ہونے کا نام نہیں لیتی۔علاقے کے مکینوں کا کہنا ہے کہ کچھی پرامن برادری ہے اسے دانستہ اکسا یا جا رہا ہے ۔

حقائق سنگین صورتحال کی چغلی کھارہے ہیں ، اندیشہ اس امر کا ہے کہ بم دھماکوں، راکٹ باری، دیگر جدید ہتھیاروں اور دستی بموں کے حملوں سے راتوں رات لیاری میدان جنگ میں بدل دیا گیا جب کہ پولیس اور رینجرز کی سستی پر عوام مشتعل ہیں ۔ ان کو شکایت ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اہلکار تصادم اور ہلاکتوں کے کافی دیر بعد وقوعہ اور متاثرہ علاقے میں داخل ہوتی ہیںاور کارکردگی دکھانے کیلیے چند افراد کو حراست میں لے کر عارضی امن قائم کرکے چلے جاتے ہیں۔

یہ طرز عمل گزشتہ 5 برس سے جاری رہے جس کے اندوہ ناک نتائج پوری کراچی کو اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں۔ حکام آنکھیں کھولیں ۔ کراچی کے ٹارگٹ کلرز کی ایک لمبی فہرست اخبارات میں اب تک چھپ چکی ہے تاہم کسی ٹارگٹ کلرز یا بھتہ خور اور گینگ وار لارڈ کی کوئی تصویر اور اس کے جرائم کی تفصیل میڈیا کے سامنے نہیں لائی گئی،جب کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ جو ملزمان اب تک پکڑے گئے ہیں وہ صیغہ راز میں رکھے نہ جائیں ۔ان کے خلاف چالان عدالتوں میں جلد پیش ہوں ۔آخر منی پاکستان میں قتل و خون کا بازار گرم رکھنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں دیر کس بات کی ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں