تربیت ِاطفال

ملک محبوب  جمعـء 12 اکتوبر 2018
رسول کریمؐ کا ارشاد مبارک ہے: ’’ باپ اپنی اولاد کو جو کچھ دیتا ہے، اس میں سے بہترین عطیہ اچھی تعلیم و تربیت ہے۔‘‘ فوٹو: فائل

رسول کریمؐ کا ارشاد مبارک ہے: ’’ باپ اپنی اولاد کو جو کچھ دیتا ہے، اس میں سے بہترین عطیہ اچھی تعلیم و تربیت ہے۔‘‘ فوٹو: فائل

کسی بھی معاشرے کی بقاء کے لیے اخلاقی رویے بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔

قرآن پاک کی سورہ الحُجرات میں مسلمانوں کو اْن برائیوں سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے جو اجتماعی زندگی میں فساد برپا کرتی ہیں اور جن کی وجہ سے آپس کے تعلقات خراب ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک دوسرے کا مذاق اڑانا، ایک دوسرے پر طعن کرنا، ایک دوسرے کے بُرے نام رکھنا، بدگمانی کرنا، دوسروں کے حالات کو کریدنا، لوگوں کی پیٹھ پیچھے اْن کی برائیاں کرنا وغیرہ۔

تاریخ کا مسلسل تجربہ اس بات پر شاہد ہے کہ اللہ کا قانون اخلاق جو انبیاء کے ذریعے سے دیا گیا اور جس کے مطابق انسانی اعمال کی بازپْرس جو آخرت میں ہونی ہے سراسر مبنی بر حقیقت ہے، کیوں کہ جس قوم نے بھی اس قانون سے بے نیاز ہو کر اپنے آپ کو غیر ذمے دار اور غیر جواب دہ سمجھتے ہوئے دنیا میں اپنا رویہ متعین کیا ہے وہ آخر کار سیدھی تباہی کی طرف گئی ہے۔

رسول کریمؐ کے ارشاد مبارک کا مفہوم ہے: ’’ باپ اپنی اولاد کو جو کچھ دیتا ہے اس میں سے بہترین عطیہ اچھی تعلیم و تربیت ہے۔‘‘ انسان کو اچھا اخلاق اور تقوٰی جہنم سے بچاسکتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد پر بہت زور دیا گیا ہے، جن میں خدمتِ خلق، حسن اخلاق، سماجی انصاف و مساوات، شرم و حیا، بْخل سے اجتناب، احسان یعنی فیاضانہ معاملہ و درگزر، میانہ روی، امرباالمعروف و نہی عن المنکر اور ایفائے عہد شامل ہیں۔

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مفہوم ہے: ’’ اللہ عدل و احسان اور صلۂ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی، بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے۔‘‘

اس کی تفسیر میں تفہیم القرآن جلد دوم میں مولانا مودودی فرماتے ہیں: صلۂ رحمی جو رشتے داروں کے معاملے میں احسان کی ایک خاص صورت متعین کرتی ہے اس کا مطلب صرف یہی نہیں ہے کہ آدمی اپنے رشتے داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے اور خوشی و غمی میں ان کا شریک حال ہو اور جائز حدود کے اندر ان کا حامی و مددگار بنے۔ بل کہ اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ ہر صاحب استطاعت شخص اپنے مال پر صرف اپنی ذات اور اپنے بال بچوں ہی کے حقوق نہ سمجھے بل کہ اپنے رشتے داروں کے حقوق بھی تسلیم کرے۔

شریعت الہی خاندان کے خوش حال افراد کو اس امر کا ذمے دار قرار دیتی ہے کہ وہ اپنے خاندان کے لوگوں کو بھوکا ننگا نہ چھوڑیں۔ اس کی نگاہ میں ایک معاشرے کی اس سے بدتر کوئی حالت نہیں ہے کہ اس کے اندر ایک شخص عیش کر رہا ہو اور اس کے خاندان میں اس کے اپنے بھائی بند روٹی کپڑے تک کو محتاج ہوں۔ وہ خاندان کو معاشرے کا ایک اہم عنصر ِ ترکیبی قرار دیتی ہے اور یہ اصول پیش کرتی ہے کہ ہر خاندان کے خوش حال افراد پر پہلا حق اْن کے اپنے غریب رشتے داروں کا ہے اور پھر دوسروں کے حقوق اْن پر عاید ہوتے ہیں۔

یہی بات ہے جس کو نبیؐ نے اپنے مختلف ارشادات میں وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ چناں چہ متعدد احادیث میں اس کی تصریح ہے کہ آدمی کے اولین حق دار اس کے والدین، اس کے بیوی بچے اور اس کے بہن بھائی ہیں پھر وہ جو ان کے بعد قریب تر ہوں اور پھر وہ جو ان کے بعد قریب تر ہوں۔

اسی اصول کی بناء پر حضرت عمرؓ نے ایک یتیم بچے کے چچازاد بھائیوں کو پابند کیا کہ وہ اس کی پرورش کے ذمے دار بنیں۔ اور ایک دوسرے یتیم کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ اگر اس کا بعید ترین رشتے دار بھی موجود ہوتا تو میں اس پر اس کی پرورش لازم کر دیتا۔ اندازہ کیجیے کہ جس معاشرے کا ہر واحدہ (خاندانی اکائی) اس طرح اپنے افراد کو سنبھال لے تو اس میں معاشی لحاظ سے کتنی خوش حالی، معاشرتی حیثیت سے کتنی حلاوت اور اخلاقی اعتبار سے کتنی پاکیزگی و بلندی پیدا ہوجائے گی۔

یونانی فلسفی سقراط نے اخلاقی اوصاف پر زور دیا ہے وہ کہتا ہے کہ اچھے ہنرمند ، اچھے کاری گر اور مختلف شعبوں کے ماہرین تب ہی کسی معاشرے کی ترقی کا باعث بن سکتے ہیں جب کہ وہ اچھے انسان بھی ہوں۔ اُس کے مطابق جس انسان میں احساس فرض، ہم دردی، ایثار، خلوص، بے لوثی، انصاف اور ذاتی مفاد پر اجتماعی مفاد کو فوقیت دینے کا جذبہ نہ ہو، وہ فرد چاہے جتنا بڑا عالم، سائنس دان، ماہر اقتصادیات اور ماہر امور خارجہ، منتظم، سیاست دان، ادیب، ہنر مند اور فنکار ہو وہ معاشرے کے لیے بے کار ہے۔

رُوسو کہتا ہے کہ جس معاشرے میں ہر شعبے کے ماہرین ہوں لیکن اْن میں اچھے انسانوں والے اوصاف نہ ہوں تو سمجھ لیجیے کہ اْس معاشرے میں کچھ بھی نہیں ہے۔ موجودہ دور میں اچھے اوصاف اور بہترین اخلاق کے حامل افراد پر ہی ترقی کی مضبوط بنیادوں کا انحصار ہے۔ اس لیے ہمیں نسل ِ نو کی اخلاقی تربیت پر پوری ہم دردی اور توجہ سے اپنی ذمے داری پوری کرنا ضروری ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ انسان ٹانگوں پر نہیں کردار و اخلاقیات پر کھڑے ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بچہ اپنے والدین کی کچھ خصوصیات لے کر پیدا ہوتا ہے لیکن بلوغت کی عمر کو پہنچنے تک اردگرد کے ماحول کے اثرات اس پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

آج کل سوشل میڈیا سے بھی بچے کے کورے ذہن پر اثرات نقش ہوتے ہیں اگرچہ اس پر مثبت معلومات بھی ہوتی ہیں لیکن بعض چیزیں منفی اثرات کی بھی حامل ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ عرصہ پہلے بلیو وہیل گیمز جیسے منفی رجحانات نے کتنے ہی ناپختہ ذہن بچوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ اسی طرح حال ہی میں ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں ایک شخص کو چیئر لفٹ پر چیخ و پکار کرتا ہوا دکھایا گیا ہے جسے بعض ٹی وی چینلز نے بھی دکھایا ہے۔ اگر ساتھ ہی یہ بھی وضاحت کر دی جاتی کہ یہ ایک لاشعوری خوف ہے اور ماہرین نفسیات اس بیماری کا علاج کر سکتے ہیں تو بہت سے لوگوں کو حقیقت سے آگاہی ہوجاتی اور لوگ آئندہ کسی کا مذاق نہ اڑاتے۔ بعض اوقات ہم جن باتوں پر ہنستے ہیں مہذب دنیا ان پر افسردہ ہو جاتی ہے۔

چند دن پہلے خبروں میں بتایا گیا ہے کہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی دنیا کے سب سے بڑے نام بل گیٹس نے مشورہ دیا ہے کہ اپنے بچوں کو محدود حد تک ہی موبائل فون اور ایپس کے استعمال کی اجازت دی جائے۔ اور اسی طرح فیس بک کے بانی نے بھی بچوں کو دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل کود کی تاکید کی ہے اور موبائل فون اور فیس بک کا عادی ہونے سے منع کیا ہے، جب کہ ہمارے اکثر بچے انتہائی درجے تک اس کے عادی ہوکر کتابوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمیں اس پر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ ذہنی پاکیزگی ایک بہت بڑی دولت اور کام یابی کی کْنجی ہے۔ والدین اور اساتذہ پر بھاری ذمے داری عاید ہوتی ہے کہ وہ تعلیم کے ساتھ بچوں کی تربیت پر بھی خصوصی توجہ دیں تاکہ اْن میں ہر پہلو سے اخلاق فاضلہ کی جھلک نمایاں ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔