ماضی سے مختلف پاکستان

ناصر الدین محمود  جمعرات 4 جولائی 2013

قومی انتخابات سے محض چند دنوں قبل جب سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف پاکستان آئے اور اپنی طے شدہ سیاسی سرگرمیوںکا آغازکیا تو مختلف حلقوں کی جانب سے ان کے خلاف احتجاجی آوازیں بلند ہونی شروع ہو گئیں۔ تاہم، میاں محمد نواز شریف نے ان کے حوالے سے کسی رائے کے اظہار سے گریز کیا۔ وقت گزرتا رہا، یہاں تک کہ ٹی وی ٹاک شوز اور اخباری مضامین میں یہ الزامات لگائے جانے لگے کہ عالمی قوتوں اور ضامنوں نے نواز شریف کو پرویز مشرف کے خلاف کسی کارروائی حتیٰ کہ لب کشائی تک سے روک دیا ہے۔

وقت کے ساتھ الزامات میں اضافہ ہوتا گیا بالآخر میاں نواز شریف نے مشرف کے بارے میں اپنے سابقہ مؤقف کا اعادہ کیا تو الزامات لگانے کا سلسلہ رکا۔ انتخابی مہم کے دوران میاں صاحب کی تقریروں کا موضوع کرپشن، توانائی بحران اور بدامنی میں اضافہ، خراب طرز حکمرانی، بے قابو ہوتی غربت ، مہنگائی اور بیروزگاری جیسے مسائل رہے کیونکہ وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے کہ عوام کے حق حکمرانی کا تحفظ اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو مقدم ضرور رکھنا ہوگا لیکن ملک کو جو سنگین بحران و مسائل درپیش ہیں ان کے حل کو بھی اولین ترجیح حاصل ہونی چاہیے۔ چنانچہ حکومت سازی کے فوری بعد حکومتی اخراجات میں نمایاں کمی، بے لگام کرپشن پر قابو پانے اور توانائی کے بدترین بحران کے فوری اور مستقل حل کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کے لیے سنجیدہ کوششوں کا آغاز کردیا گیا۔

حکومت بننے کے فوری بعد وفاقی بجٹ کا مرحلہ آیا تو نئی جمہوری حکومت نے توانائی بحران میں فوری کمی کے لیے ہنگامی نوعیت کے اقدامات کیے اورگردشی قرضوں کا خاتمہ، توانائی کے حصول کے نئے منصوبوں کے علاوہ ایک ہزار ارب روپے سے زائد رقم ملک میں ترقیاتی اخراجات کے لیے مختص کی گئی۔ ان اقدامات کو دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ نئی جمہوری حکومت قومی مسائل کے حل کی جانب پوری توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ معمول کے عمل کے دوران سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق ڈکٹیٹر کے حوالے سے ماضی سے زیر التوا ایک مقدمہ پر وفاقی حکومت سے اس کا مؤقف طلب کیا جس پر وفاقی حکومت نے نہ صرف اعلیٰ عدلیہ کو اپنے موقف سے آگاہ کرنے پر اکتفا کیا بلکہ قومی سطح کے اس اہم مقدمے پر عوام کی اجتماعی دانش کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ بھی کیا اور اس انتہائی حساس نوعیت کے مقدمے پر پوری قوم کا اتفاق رائے پیدا کرنے کی مخلصانہ کوشش بھی کی۔

یہی وجہ تھی کہ بجٹ سیشن کے دوران کشیدگی کے ماحول کے باوجود جب وزیر اعظم نے اس مقدمے پر پارلیمنٹ کے سامنے اپنی حکومت کا اصولی موقف پیش کیا تو پارلیمنٹ نے تقریباً یک زبان ہوکر ڈکٹیٹر کے خلاف حکومتی موقف کی بھرپور تائید کرنے کا اعلان کیا۔ پارلیمنٹ میں سے کہیں کہیں کچھ نحیف سی آوازیں سابق ڈکٹیٹر کے حق میں بھی سنائی دیں۔ یہ کہا گیا کہ اس فیصلے کے نتیجے میں پنڈورا بکس کھل جائے گا، آمروں کا ساتھ دینے والوں کو بھی کٹہرے میں لایا جائے اور اس عمل کا آغاز 1956ء سے کیا جائے وغیرہ۔

حکومت نے اس انتہائی اہم مقدمے کے حوالے سے اٹارنی جنرل منیر اے ملک کے ذریعے سپریم کورٹ کو اپنے موقف سے آگاہ کیا۔ معمول کی آئینی اور قانونی کارروائی حکومت کی کارکردگی کی راہ میں کوئی رکاوٹ ثابت نہیں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کے قیام کے بعد ایک ماہ کے قلیل عرصے میں گردشی قرضوں کی مد میں 3 سو ارب سے زائد کی ادائیگی کردی گئی۔ جس سے ملک بھر میں لوڈ شیڈنگ کے دورانیہ میں کمی واقع ہونی شروع ہوجائے گی۔

حکومت اپنے تعین کردہ اہداف کے حصول کے لیے سرگرم عمل ہے تاہم، سابقہ حکومت کے دور کے زیر التوأ مقدمات بھی اس امر کے متقاضی ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ کی بھرپور معاونت کرکے اپنی آئینی، قانونی اور قومی ذمے داری کی ادائیگی بھی کی جاتی رہے۔ اسی دوران سپریم کورٹ میں این آر او عملدرآمد کیس کے حوالے سے جب سپریم کورٹ نے اس مقدمہ کی بابت وفاقی حکومت کا موقف جاننا چاہا تواٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا کہ سابق حکومت کی جانب سے سوئیزرلینڈکے حکام کو ایک دوسرا خط بھی لکھا گیا ہے۔

جس پر سپریم کورٹ نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔ دوسری جانب قائد حزب اختلاف کی جانب سے یہ کہا یہ جارہاہے کہ حکومت نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا اوراس کی جانب سے دوبارہ انتقامی کارروائیاں شروع کردی گئی ہیں۔ خط کے مسئلے پرسپریم کورٹ میں کسی شہری کی جانب سے توہین عدالت کی درخواست بھی دائر کی جاچکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسے بھی حکومت کی انتقامی کارروائی قرار دیاجائے گا؟

اصل صورتحال یہ ہے کہ نئی جمہوری حکومت اس وقت خود کو کسی بھی بڑے مسئلے میں الجھانے سے گریزاں ہے۔ اس کی پوری توجہ پیچیدہ مسائل کے حل پر مرکوز ہے وہ اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے، عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری کے اصول پر سختی سے کار بند ہے۔ اگر اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے وفاقی حکومت سے ماضی کے کسی زیر التوا مقدمہ پر اس کا موقف معلوم کیا جاتا ہے اور وفاقی حکومت غیرجانبدار رہتے ہوئے پوری دیانتداری کے ساتھ آئین اور قانون کی مرضی و منشا کے مطابق اپنے مؤقف کا اظہار کرتی ہے تو اسے حکومت کی انتقامی کارروائی قرار دینا سراسرناانصافی ہے۔

نئی جمہوری حکومت کی ترجیحات میں انتقامی کارروائیوں میں ملوث ہوکر وقت ضایع کرنا ہرگز نہیں ہے۔ یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ اگر اعلیٰ عدلیہ کسی زیر التوا مقدمہ یا کسی نئے مقدمے میں کوئی احکامات جاری کرتی ہے اور حکومت اس کی من و عن تعمیل کرتی ہے تو اسے حکومت کی انتقامی کارروائی قراردینا نامناسب طرز عمل ہو گا۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف کے درمیان ہونے والی ملاقات میں برطانیہ کی جانب سے توانائی، تعلیم اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعاون بڑھانے کے اعلان کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم کو 3 ارب پاؤنڈ (تقریباً 450 ارب پاکستانی روپے ) تک بڑھانے کا بھی اعلان کیا گیا ہے جس سے معیشت کی بحالی کے حوالے سے حکومت کی سنجیدگی کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ نومنتخب وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے چین کا انتخاب کیا ہے۔ چین کے بارے میں یہ ایک عام تاثر ہے کہ چین کسی ملک کو امداد کے لیے بڑی رقوم فراہم نہیں کرتا بلکہ اس ملک کی ترقی کے لیے تجارتی اور صنعتی منصوبے فراہم کرتا ہے۔ نئی جمہوری حکومت کو بھی اچھی طرح ادراک ہے کہ ایڈ کی بجائے ٹریڈ کی پالیسی ہی پائیدار معاشی ترقی کا ذریعہ ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ امر ایک حقیقت ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کے مقدمات یا بعض دوسرے عوامل، ملک کے جمہوری استحکام اور معاشی بحالی کے عمل پر اثر انداز نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ پاکستان جمہوری تسلسل کے ایک نئے دور میں داخل ہو چکا ہے۔ یہ ماضی سے مختلف ایک پاکستان ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔