قبائلی اضلاع کی نشستوں میں اضافہ، اہم پیش رفت

ایڈیٹوریل  بدھ 15 مئ 2019
اب ضرورت قبائلی اضلاع میں ترقی واستحکام کے بڑے ماسٹر پلان کی ہے۔ فوٹو: فائل

اب ضرورت قبائلی اضلاع میں ترقی واستحکام کے بڑے ماسٹر پلان کی ہے۔ فوٹو: فائل

قومی اسمبلی میں قبائلی اضلاع (سابقہ فاٹا) میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے کے لیے 26 ویں آئینی ترمیم کا بل متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ جس کے بعد ان اضلاع میں قومی اسمبلی کی نشستیں6سے بڑھ کر12اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں16سے بڑھ کر 24ہو جائیں گی ۔

قبائلی اضلاع کی نشستوں میں اضافہ کے لیے آئینی بل کی منظوری بلاشبہ ایک اہم پیش رفت ہے۔ ملک کی سپریم پارلیمنٹ کی بالادستی پر نہ صرف مہر تصدیق ثبت ہوئی ہے بلکہ اراکین پارلیمنٹ نے قوم و ملک کو درپیش ایک امتحانی صورتحال میں سابقہ فاٹا کی قلب ماہیت اور دہشتگردی سے تباہ ہونے والے قبائلی خطے کے عوام کو پہلی بار حقیقت مسرتوں سے دوچار کیا ہے۔

سیاست دان کشیدگی اور محاذ آرائی کی پیچیدگیوں کے باوجود قبائلی علاقوں کی ترقی اور اس کے عوام کی خوشحالی کے ایجنڈے پر ہمیشہ متفق رہے تھے مگر بعض سیاسی و مذہبی قائدین کا کہنا تھا کہ سابقہ فاٹا کی اصلاحات ،انضمام اور نوآبادیاتی دور کے کالے قوانین کی تنسیخ کے معاملات انتہائی حساس ہیں لہٰذا پختون عوام اور سیاسی جماعتوں کے خدشات اور تحفظات کا ازالہ کیے بغیر اتنا بڑا قدم نہ اٹھایا جائے، تاہم یہ سیاست دانوں کی عملیت پسندی تھی کہ انھوں نے ایوان میں مکمل اتفاق رائے سے قبائلی نشستوں میں اضافہ کا تاریخ ساز اقدام کیا، حکومت کی خصوصی دلچسپی بھی قابل تعریف ہے۔

دریں اثنا گورنر خیبرپختونخوا کے بلدیاتی ایکٹ پر دستخط کے بعد نیا بلدیاتی نظام صوبے میں نافذ کردیا گیا ہے جب کہ موجودہ بلدیاتی ادارے اپنی آئینی مدت کرتے ہوئے 30 اگست کو ختم ہو جائیں گے۔ نئے بلدیاتی نظام میں اضلاع کی سطح کا سیٹ اپ اور ضلع ناظم کا عہدہ ختم کردیاگیا ہے اور تحصیل ناظمین کو اختیارات دیے گئے ہیں۔ ناظم کا عہدہ چیئرمین جب کہ نائب ناظم کا عہدہ کنوینر میں تبدیل کردیاگیا ہے۔

نئے نظام کے تحت یکسانیت برقراررکھنے کے لیے صوبائی حکومت پالیسی فریم ورک دے گی۔ نئے نظام کے تحت ٹاؤنز بھی ختم ہو جائیں گے۔ نچلی سطح پر دیہی علاقوں میں ویلج اور شہری علاقوں میں نیبرہڈ کونسلیں قائم ہوں گی ، شہری حکومتوں کے چیئرمین میئر کہلائیں گے۔

تحصیل لوکل گورنمنٹ چیئرمین ،تحصیل لوکل گورنمنٹ اور تحصیل لوکل ایڈمنسٹریشن پر مشتمل ہوگی جس کی انتظامی اتھارٹی چیئرمین کے پاس ہوگی، نیبرہڈ اور ویلج کونسلوں کے چیئرمین تحصیل کونسلوں کے ارکان ہونگے ،ہر ویلج اور نیبرہڈ کونسل 7 ارکان پر مشتمل ہوگی جس میں تین جنرل ارکان شامل ہونگے اور پیدائش،فوتگی اور شادی وطلاق سے متعلق رجسٹریشن بھی نچلی سطح پر ہی ہوگی،تحصیل چیئرمین بجٹ پیش کرنے کا پابند ہوگی۔

35 اضلاع میں 4203 مقامی کونسلیں قائم ہونگی جن میں 3624 ویلج اور579 نیبرہڈ کونسلیں شامل ہونگی۔واضح رہے قومی اسمبلی کی تاریخ میں پہلی بار پرائیویٹ ممبر بل پر آئینی ترمیم متفقہ طور پر منظور کی گئی۔ آئینی ترمیمی بل کے حق میں 288 ارکان نے ووٹ دیا جب کہ کسی رکن نے بل کی مخالفت نہیں کی۔ بل لانے کی تحریک رکن اسمبلی محسن داوڑ کی طرف سے پیش کی گئی۔

بل کے نفاذ کے بعد الیکشن کم از کم ایک سال اور زیادہ سے زیادہ18ماہ کے دوران کروائے جائیں گے۔ بل کی منظوری کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی نے اتفاق رائے سے آئینی ترمیم کی منظوری پر قوم کو مبارکباد دی۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے آئینی بل لانے کا اعزاز بھی پی ایم ٹی کے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کے حصہ میں آیا، پی ایم ٹی کو قومی دھارے میں لانے کی کوششوں کو تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز نے سراہا ، ان کے اصولی موقف کو فہمیدہ اور ملک کے سنجیدہ سیاسی اور مقتدر حلقوں نے بھی پذیرائی بخشی۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ سابق فاٹا کے عوام نے بہت مشکلات کا سامنا کیا ۔ملک کا کوئی صوبہ ہو یا اس کا کوئی حصہ‘ کم ترقی یافتہ علاقوں کو ترقی کے دھارے میں شامل کرنے سے احساس محرومی دور ہوگا۔ان علاقوں کی قومی اورصوبائی اسمبلی کی نشستیں بڑھا رہے ہیں ،اس پرتمام سیاسی جماعتوں کا اتفاق رائے خوش آئند ہے۔ان علاقوں کے عوام کی آواز اب ہرجگہ سنی  جائے گی اور ان میں یہ احساس پیدا ہوگا کہ ان کے مسائل حل کیے جا رہے ہیں۔

پیرکے روز قومی اسمبلی میں صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے از سرنو تعین کے لیے آئینی (ترمیمی) بل 2019 ء پر بحث سمیٹتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ آج مجھے بہت خوشی ہوئی ہے کہ فاٹا کے حوالے سے اس اہم آئینی ترمیم کی پورا ایوان حمایت کر رہا ہے۔ اس سے قبائلی علاقے کے لوگوں کو یہ احساس ہوگا کہ قوم ان کے ساتھ کھڑی ہے۔

دہشتگردی کے خلاف جنگ کے دوران قبائلی علاقوں میں جس طرح تباہی ہوئی ہے اوریہاں جس طرح کے مسائل سامنے آئے ہیں پوری قوم چاہتی ہے کہ یہ مسائل حل ہوں اور ان لوگوں کی آواز سنی جائے۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ تمام صوبوں سے یہ کہنا چاہیں گے کہ قومی مالیاتی کمیشن میں سے سابق فاٹا کے علاقوں کو 3 فیصد اضافی حصہ دیا جائے۔

مجھے معلوم ہے کہ معاشی مشکلات کی وجہ سے صوبوں کو بعض خدشات موجود ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ فاٹا میں جو تباہی ہوئی ہے اس تباہی کا ازالہ خیبرپختونخوا کا صوبہ اپنے فنڈ سے نہیں کر سکتا۔ اس میں باقی صوبوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ وہاں پر بنیادی ڈھانچے اور دیگر مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات کیے جاسکیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ مشرقی پاکستان کا سانحہ ایک بڑا واقعہ ہے جس کی بنیادی وجہ احساس محرومی تھا۔ ملک دشمن قوتیں اسی کی بنیاد پر ملک کو نقصان پہنچاتی ہیں۔پاکستان کے تمام علاقوں کی یکساں ترقی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ دل خوش کن پیش رفت ہے کہ قبائلی اضلاع کو قومی دھارے میں لانے کی خواہش آج قومی ضرورت بن چکی ہے اور پارلیمنٹیرینز نے اپنے پختون بھائیوں کے آئینی حقوق کی جدوجہد میں ان کا بھرپور ساتھ دیا ہے، ن لیگ کے رہنماء شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ فاٹا انضمام کا اثر پورے ملک پر ہو گا۔ آج ہم نے پی ٹی ایم کو احساس دلایا ہے کہ آپ بھی ملک کا حصہ ہیں۔

پیپلزپارٹی کے رہنماء پرویز اشرف نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ فاٹا اصلاحات کے لیے اقدامات اٹھائے، قبائلی عوام نے پاکستان اور تکمیل پاکستان میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے دہشت گردی کی جنگ میں زخم کھاکر پاکستان کا تحفظ یقینی بنایا۔ وفاقی وزیر آئی ٹی خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ آج ایک تاریخی دن ہے، فاٹا کے عوام کو قومی دھارے میں لاکر ان کے ہنر سے مستفید ہونا چاہیے۔اے این پی کے امیر حیدرہوتی نے کہا سابق فاٹا کو امن اور عزت، وسائل سے بھی پہلے دینا ہوں گے۔

جے یوآئی کے مولانا عبد الواسع نے کہا کہ سابق فاٹا کے حوالے سے پورے ایوان کا اتفاق رائے بہت خوش آئند ہے، بی این پی مینگل کے آغا حسن بلوچ نے کہا بلوچستان کی نشستوں کے حوالے سے بل لا رہے ہیں اس پر ہمیں حمایت درکار ہو گی۔ وفاقی وزیر مذہبی امور ڈاکٹر نورالحق قادری نے کہا کہ پارلیمان کا آج کا یہ تاریخی اقدام قبائیلیوں کے زخموں پر مرہم رکھے گا۔

اب ضرورت قبائلی اضلاع میں ترقی واستحکام کے بڑے ماسٹر پلان کی ہے۔خیبر پختونخوا حکومت وفاق کی اعانت سے قبائلی علاقوں کے عوام کو قومی دھارے می شامل کرنے سیاستدانوں نے دور اندیشی اور قومی یکجہتی کی نئی مثال قائم کی اور امید کی جانی چاہیے کہ سابقہ فاٹا کے عوام ملک کے دیگر علاقوں کی طرح قومی ترقی و تعمیر کے عمل میں شامل ہونگے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔