دفاع اور قرضوں کی ادائیگی، اگلے بجٹ میں 4 ہزار ارب مختص کیے جانے کا امکان

شہباز رانا  منگل 4 جون 2019
ساڑھے 5سو ٹریلین روپے محاصل اکٹھے کرنے کا ہدف،بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 7.8 فیصد یا 3.4 ٹریلین سے زائد رہیگا، ذرائع۔ فوٹو: فائل

ساڑھے 5سو ٹریلین روپے محاصل اکٹھے کرنے کا ہدف،بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 7.8 فیصد یا 3.4 ٹریلین سے زائد رہیگا، ذرائع۔ فوٹو: فائل

 اسلام آباد:  آئی ایم ایف کے دباؤ پر شرح سود میں اضافے اور کمرشل بینکوں سے قرضوں کی شرائط کے بعد اگلے وفاقی بجٹ میں دفاع اورقرضوں کی ادائیگی کیلیے 4ہزار ارب روپے مختص کیے جانے کا امکان ہے۔

وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق اگلے بجٹ میں دفاعی اخراجات کا تخمینہ 1.270 ٹریلین روپے لگایا گیا ہے جو رواں مالی سال کے بجٹ سے 170 ارب روپے زیادہ ہے ۔اس میں ملٹری پنشن،دفاعی نوعیت کے اخراجات اور سپیشل ملٹری پیکجز شامل نہیں۔اگلے بجٹ کا خسارہ جی ڈی پی کا 7.8 فیصد یا 3.4 ٹریلین سے زائد رہنے کا تخمینہ ہے۔

ابھی یہ واضح نہیں کہ وفاقی حکومت اگلا بجٹ ڈالر کا ایکسینچ ریٹ 150 روپے فی ڈالر سامنے رکھ تیار کرتی ہے یا کہ 171 روپے فی ڈالر جو کہ آئی ایم ایف کے فریم ورک کے تحت روپے کا ایکسچینچ ریٹ ہے ڈالر کے مقابلے میں روپے کے ایکسچینج ریٹ کا بھی ملک کے ذمے واجب الادا قرضوں اور دفاعی اخراجات پر اثر پڑے گا۔

اگلے مالی سال کے بجٹ کا مجموعی حجم 6.8 ٹریلین روپے ہوگا جو رواں مالی سال کے بجٹ کے مقابلے میں 25 فیصد زیادہ ہے۔ یہ سب مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کی اس یقین دہانی کے باوجود ہے کہ بجٹ میں کفایت شعاری کو ملحوظ رکھا جائیگا۔

بجٹ کا سب سے بڑا حصہ قرضوں کی ادائیگی کیلئے مختص ہوگا۔یہ رقم ان ٹیکسوں سے بھی زیادہ ہوگی جو حکومت اگلے بجٹ میں عوام پر لگانے جارہی ہے ۔حکومت نے ایف بی آر کو اگلے بجٹ میں ساڑھے پانچ سو ٹریلین روپے محاصل اکٹھے کرنے کا ہدف دینے کا فیصلہ کیا ہے ان میں چار ٹریلین صرف دفاع اور قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہوجائیں گے۔

ملک کے ذمے اندرونی قرضے ڈھائی ٹریلین روپے جبکہ بیرونی قرضے 320 ارب روپے ہیں جو روپے کی قدرگرنے کی وجہ سے اگلے سال 15 فیصد مزید بڑھ جائیں گے۔

آئی ایم ایف کی طرف سے اسٹیٹ بینک کے بجائے کمرشل بینکوں سے قرضے لینے کی شرط سے حکومت پر مزید دباؤ پڑے گا کیونکہ کمرشل بینک سٹیٹ بینک سے قرضے لیکر حکومت کو دینگے اور یوں سود کی دوہری ادائیگی کرنا پڑےگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔