کراچی شہرِ بحران

عبداللطیف ابو شامل  جمعرات 5 ستمبر 2013
لوڈ شیڈنگ،ٹارگیٹ کلنگ،اغواء برائے تاوان،بھتا خوری کے ساتھ’’ آبی دہشت گردی‘‘ کابھی شکار
 فوٹو: محمد نعمان/ ایکسپریس

لوڈ شیڈنگ،ٹارگیٹ کلنگ،اغواء برائے تاوان،بھتا خوری کے ساتھ’’ آبی دہشت گردی‘‘ کابھی شکار فوٹو: محمد نعمان/ ایکسپریس

کراچی پاکستان کا معاشی قلعہ اور سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا شہر ہے ۔

لیکن اسے شہر کہنا اس کی تو ہین لگتا ہے ، کچھ لوگ اسے جنگل کہتے ہیں لیکن جنگل قوانین فطرت پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ کراچی کے شہری عذاب زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور ان کی فریاد سننے والا کوئی نہیں۔ شدید ترین عدم تحفظ کے شکار کراچی کے باسی ہر پل بری خبریں سننے کے عادی ہوچکے ہیں۔ کراچی میں مختلف گروہوں کے درمیانشہر پر قبضے کی جنگ عروج پر ہے، جس کا نشانہ معصوم شہری ہیں۔ بارہ سے پندرہ افراد کا روزانہ قتل کوئی بات ہی نہیں رہی، ٹارگیٹ کلنگ ،اغوا برائے تاوان اور بھتا خوری جرائم پیشہ افراد کے لیے منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔

دستی بموں اور راکٹوں سے حملے ہوتے رہتے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اور انتظامیہ سوائے زبانی جمع خرچ اور نمایشی اقدامات کے سوا کچھ نہیں کرتے، روشنیوں کا شہر اور عروس البلاد کراچی طویل عرصے سے بدترین لوڈشیڈنگ کا شکار ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ چوں کہ سی این جی پر منتقل ہوچکی ہے اور سی این جی کے آئے روز ناغوں نے شہریوں کو شہری بدترین حالات سے دوچار کردیا ہے۔ حادثات کے باوجودبسوں اور ویگنوں کی چھتوں پر سوارہوکر سفر کرنا شہریوں کی مجبوری بن گئی ہے۔کراچی میں زندگی اجیرن ہوگئی ہے ۔

مختلف جگہ بننے والے فلائی اوورز پر کام تعطل کا شکار ہے ۔ ٹریفک جام ہونے سے مسافروں سے لوٹ مار کے واقعات اب معمول کے واقعات میں شمار ہوتے ہیں ، شہری لٹنے کے بعد اپنی جان بچنے پرشکر بجالاتے ہیں ۔ گزشتہ دنوں جامعہ کراچی کی بس جس میں طلباء و طالبات سوار تھیں ۔ بنارس پل پر روک کر لوٹ مار کی گئی اور ان سے موبائل فون ، نقدی اور اہم کاغذات چھین لیے گئے ۔ جس وقت یہ واقعہ پیش آیا پولیس والے قریب ایک ٹھیلے پر ناشتہ کر رہے تھے ۔ طلباء کے احتجاج پر نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ، طلباء نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ لوٹ مار کرنے والوں کو پولیس کی پشت پناہی حاصل تھی ۔ عام شہریوں کا بھی یہی خیال ہے کہ جرائم پیشہ افراد کے ساتھ پولیس ملی ہوئی ہے، جو جگہ جگہ صرف موٹر سائیکل سواروں کو روکتی اور اپنی جیبیں گرم کرتی نظر آتی ہے ۔

شہر ی ایک دوسرے سے خوف زدہ اور اپنے سائے سے بھی ڈرنے لگے ہیں ۔ شدید عدم تحفظ کی وجہ سے پرائیویٹ سیکورٹی کمپنیاں بنانا ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے، جہاں غیر تربیت یافتہ سیکوریٹی گارڈز بذات خود ایک سیکورٹی رسک ہیں ۔ اس ساری صورت حال میں شہری نفسیاتی امراض کا شکار ہورہے ہیں ۔ کراچی میں گزشتہ دنوں ہونے والی تحقیق میں جو اخبار میں چھپ چکی ہے، بتایا گیا ہے کہ کراچی کی پچانوے فی صد آبادی مختلف نفسیاتی امراض کا شکار ہے ۔ یہ ساری صورت حال تو اپنی جگہ ،کراچی کے باسی آبی دہشت گردی کا بھی شکار ہیں ۔

بلدیاتی نظام چوپٹ ہوگیا ہے، قلت آب کی وجہ سے ہونے والے ہنگاموں کی وجہ سے روز شہر کا کوئی نہ کوئی حصہ متاثر ہوتا ہے۔جس سے ٹریفک جام ہو جاتا ہے۔ واٹر اینڈ سیوریج بورڈ بجلی کی عدم فراہمی کا رونا روتا رہتا ہے۔ سرکاری اعداد شمار کے مطابق تقریباً دوکروڑ آبادی والے شہر کراچی میں پانی کی طلب ایک ہزار ملین گیلن یومیہ اور فراہمی سات سو ملین گیلن یومیہ ہے۔ جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے ،اورنگی پائلیٹ پراجیکٹس کی تحقیق کے مطابق پانی کی کمی کے اعداد و شمار بڑھا کر پیش کیے جاتے ہیں،تاکہ شہر میں پانی کی فروخت کا کاروبار جاری رکھا جاسکے۔

کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے ٹیکنیکل ڈائریکٹر محمد افتخار کے مطابق شہر میں غیر قانونی ہائیڈرنیٹ اور پانی کی چوری عروج پر ہے اورپانی کے غیر قانونی کنیکشن کے خلاف کارروائی کے دوران ایسی فیکٹریوں کا بھی پتا چلا جہاں انتہائی غیر صحت مند ماحول میں بوتلوں میں پانی بھر کر اسے منرل واٹر کے نام سے فروخت کیا جا رہا تھا۔

ذرایع کا کہنا ہے کہ ’’شہر کے چھوٹے چھوٹے علاقوں میں گھروں میں اس طرح کی فیکٹریاں قائم کی گئیں ہیں جہاں نہ ہی پانی کو جراثیم سے پاک کرنے کے لیے کسی قسم کے اقدامات کیے جاتے ہیں اور نہ ہی اس میں اضافی معدنیا ت شامل کیے جاتے ہیں۔

حال ہی میں ملک بھر میں بوتلوں میں بند پانی کے حوالے سے ہونے والی تحقیق سے یہ بات سامنے آچکی ہے کہ منرل واٹر کے نام پر فروخت ہونے والا چالیس فیصد پانی غیر محفوظ ہے۔ محمد افتخار کے مطابق بعض فیکٹریوںمیں بورنگ کا پانی بوتلوں میں بھر کرمنرل واٹر کے نام سے فروخت کیا جا رہا ہے۔

حالیہ تحقیق کے مطابق نوے مختلف کمپنیوں کے نمونے حاصل کیے گئے جن میں سے 36میں اسہال اور ہیضہ کا سبب بننے والے مختلف جراثیم پائے گئے۔اسی حوالے سے ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ آلودہ پینے سے ہیپاٹائی ٹس، ٹائیفائیڈ اور دستوں کی بیماری ہوجاتی ہے ۔

پاکستان کاؤنسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورس کے مطابق پانی آلودہ ہونے کا اہم سبب نکاسی اور فراہمی آب کی لائنوں کا مل جانااور صنعتی فضلے کی دریائوں یا ندی نالوں میں نکاسی شامل ہے۔

کراچی کا شمار ان شہروں میں ہوتا ہے جہاں فضلے کی نکاسی اور پینے کے پانی کی لائنیں قریب قریب یاایک ساتھ بچھائی جاتی ہیں، ماضی میں بھی یہ دونوں لائینیں آپس میں مل چکی ہیں جس کے باعث بڑی تعداد میں گیسٹرو کے کیسز سامنے آئے تھے۔ اگر گھر کے نلکے سے صاف اور محفوظ پانی دستیاب ہو تو اس سے لوگوں کی جیب پر بوجھ کم ہوگا ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کراچی کے شہریوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا بیڑہ اٹھائے گا کون؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔