مسلم دنیا میں سیاسی عدم استحکام کیوں؟

جبار قریشی  پير 5 اگست 2019
 jabbar01@gmail.com

[email protected]

مسلم دنیا سیاسی عدم استحکام کا شکارکیوں؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے ہمیں تاریخ کے اوراق میں جانا ہوگا۔ انسانی تاریخ میں سب سے پہلے جو ریاستیں قائم ہوئیں وہ قبائلی نوعیت کی تھیں پانچ ہزار سال قبل مسیح جب خاندانی رشتوں کی بنیاد پر کئی خاندان آپس میں متحد ہوگئے تو انھوں نے قبیلے کی شکل اختیار کرلی۔

ہر قبیلہ اپنے میں ایک بہترین شخص کو اپنا سردار بنا لیتا تھا جس کا کام قبیلے میں امن قائم کرنا، لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانا اور جنگوں کے موقع پر ان کی رہنمائی کرنا ہوتا تھا۔ ہر شخص کا فرض تھا کہ وہ اپنے سردار کا حکم مانے اس طریقے سے حکومت کی ابتدا ہوئی اور یوں ریاست کی بنیاد پڑی۔

قبائلی ریاستوں کی تاریخ کے بعد ہمیں شہنشاہیتوں کا ذکر ملتا ہے جو دریائے نیل، دجلہ و فرات، گنگا جمنا جیسے دریاؤں اور وادیوں پر قائم ہوئیں یہ بڑے زرخیز علاقوں کی مالک تھیں مثلاً مصر، ہندوستان، ایران، عراق اور چین میں بڑی بڑی شہنشاہیتیں طویل عرصے قائم رہیں یہ کمزور قبائل پر طاقتور قبائل کے غلبے کا نتیجہ تھیں البتہ قبائلی ریاستوں کے مقابلے میں زیادہ وسیع اور علاقائی طور پر زیادہ منظم تھیں۔

قدیم یونان چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم تھا ان ریاستوں میں ایک ریاست مقدونیہ کے نام سے جانی جاتی تھی اس کا حکمران سکندر اعظم تھا۔ اس نے پورے یونان پر قبضہ کرکے ایک عظیم سلطنت کی بنیاد ڈالی جس کا دائرہ مصر، ایران اور ہندوستان تک وسیع تھا۔ بعد میں یہ سلطنت زوال پذیر ہوکر رومی سلطنت کا حصہ بنی۔ قدیم یونان کی طرح اطالیہ (اٹلی) میں مختلف شہری ریاستیں تھیں ان میں سب سے مشہور ریاست ’’روم کی شہری ریاست‘‘ تھی اس شہری ریاست نے یورپ، ایشیا اور افریقہ کے بہت سے ممالک پر قبضہ کرکے ایک وسیع سلطنت کی بنیاد رکھی جسے رومی سلطنت کا نام دیا جاتا ہے۔

اسلامی دنیا میں تقریباً ایک ہزار سال تک خلافت کا نظام قائم رہا۔ اسلامی اصطلاح میں خلافت سے مراد ایسی طرز حکومت ہے جو اسلامی اصولوں اور قوانین کے مطابق قائم کی جاتی ہے۔اس حوالے سے تاریخ اسلام میں کل چھ خلافتیں قائم ہوئیں خلافت راشدہ جس کا مرکز مدینہ تھا، خلافت بنو امیہ (دمشق)، خلافت عباسیہ (بغداد)، خلافت بنو امیہ (اسپین)، خلافت بنو فاطمی(مصر)، خلافت عثمانیہ (استنبول) شامل ہیں۔ خلافت راشدہ اپنے مثالی طرز حکومت کے حوالے سے دنیا بالخصوص مسلمانوں کے لیے رول ماڈل اور مشعل راہ ہے اس کے بعد جو خلافتیں نافذ رہیں اس میں موروثیت اور ملوکیت کا عنصر داخل ہو گیا اس لیے ان کو رول ماڈل قرار نہیں دیا جاسکتا۔

ریاست کے ابتدائی نظریات پر ہمیں مذہب کی گہری چھاپ نظر آتی ہے اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ابتدائی ریاستیں مذہبی ریاستیں تھیں مذہب کے فروغ کے عنصرکے ساتھ ان کی توسیع پسندانہ مہم میں جہاں معاشی اور اقتصادی عوامل کارفرما نظر آتے ہیں وہاں اس میں نسلی عصبیت کا عنصر بھی کارفرما نظر آتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کبھی عبرانی عروج حاصل کرتے ہیں تو کبھی اہل فارس، کبھی عربوں کو عروج حاصل ہوتا ہے تو کبھی ترکوں کوکبھی منگول بالادست نظر آتے ہیں تو کبھی یورپی اقوام۔ یہ حکومتیں حقیقی طور پر متحد نہ تھیں غیر مستحکم تھیں ان میں موروثیت اور ملوکیت کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے۔ جب کبھی حکومتیں کمزور ہوتی تھیں تو یہ زبردست خانہ جنگی کا شکار ہوجاتی تھیں۔

بالآخر ان خانہ جنگیوں کی وجہ سے ان کا خاتمہ ہوگیا۔ان سلطنتوں اور ریاستوں کے خاتمے کے بعد دنیا کے مختلف حصوں میں علاقائی قومی ریاستوں نے جنم لیا۔ مثلاً ہندوستان میں ہم دیکھتے ہیں کہ غزنوی، غوری، خاندان غلاماں، خلجی، تغلق، لودھی اور مغل خاندانوں کی حکومت رہی۔ اسی طرح یورپ میں بھی علاقائی قومی ریاستیں وجود میں آئیں۔ مشرقی ریاستوں میں حکمرانی کے لیے موروثی عنصر شامل تھا، اس کے برعکس یہاں عمائدین شہر کے اتفاق رائے سے بادشاہ کا انتخاب ہوتا تھا۔

ریاست کی ساری زمین بادشاہ کی تصورکی جاتی تھی بادشاہ نظم و نسق چلانے کے لیے یہ زمین اپنے جنگجو سالار، عزیز و اقارب اور دوستوں میں تقسیم کردیتا تھا، اس طرح جاگیرداری نظام وجود میں آگیا۔ جاگیرداری نظام میں معیشت کا سارا انحصار زرعی زمین اور پیداوار پر تھا۔ جو ہاری اور غلاموں (جو عموماً جنگی قیدی ہوتے تھے) کے ذریعے حاصل کی جاتی تھی یہ لوگ زرعی پیداوار کا بڑا حصہ ریاست کے نمایندوں کے حوالے کرنے کے پابند تھے۔ اس عمل کے نتیجے میں دو طبقات وجود میں آئے ایک امرا اور دوسرا ہاری اور زرعی غلام۔ سیاسی حقوق، تعلیم اور دیگر شعبہ زندگی صرف ایک طبقہ یعنی امرا تک محدود تھی۔

سائنسی ایجادات اور مشینوں کے استعمال کی بدولت صنعت اور تجارت کی بے پناہ ترقی نے دولت کے دھارے کا رخ جاگیردار کے بجائے سرمایہ دار طبقے کی جانب موڑ دیا جس سے جاگیرداری نظام پر کاری ضرب لگی۔ مشینوں کے استعمال کی بدولت افرادی قوت کی ضرورت نہیں رہی یوں غلامی کا خاتمہ ہوگیا۔ صنعت و حرفت اور تجارت کی ترقی کے نتیجے میں ایک نیا طبقہ ’’محنت کش‘‘ وجود میں آیا جو ہاری اور غلام طبقے سے زیادہ باشعور اور موثر تھا۔

محنت کش طبقے کو یہ شعور نشاۃ ثانیہ (نئی زندگی) کی تحریک کے نتیجے میں حاصل ہوا تھا۔ اس محنت کش طبقے نے سیاسی حقوق اور آزادی کے لیے آواز بلند کرنی شروع کردی اس کے نتیجے میں یورپ میں آمریت کا خاتمہ ہوا۔ انگلستان میں جمہوری اداروں کی نشوونما پر امن طریقوں سے جب کہ فرانس میں یہ تبدیلی خونی انقلاب کے ذریعے عمل میں آئی۔

سرمایہ داری نظام کے فروغ کا باعث یورپ کے سرمایہ دار طبقے کو پیداوار میں اضافے کے نتیجے میں نئی منڈی کی ضرورت پیش آئی یورپی ممالک نے اس مقصد کو پانے کے لیے دنیا کے مختلف حصوں میں تجارتی کمپنیوں کے نام پر اپنی نوآبادیاتی کالونیاں قائم کیں اس طرح دنیا کے مختلف حصوں پر قابض ہوگئے یورپی ممالک کی اپنی اپنی نوآبادیاتی کالونیوں کی توسیع پسندانہ مہم کے نتیجے میں ایک دوسرے سے نفرت اور تصادم کو فروغ دیا جس کے نتیجے میں جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوم واقع ہوئی ان جنگوں کی تباہی اور ہولناکیوں نے یورپی ممالک کی نہ صرف معیشت کو کمزور کیا بلکہ ان کی سیاسی مضبوط مرکزیت کو بھی متاثر کیا جس کے نتیجے میں دنیا کے مختلف ممالک میں نوآبادیات کے خلاف آزادی کی تحریکوں نے جنم لیا اور وہ کامیابی سے ہمکنار ہوئیں، اس کے نتیجے میں دنیا کے مختلف حصوں میں کئی آزاد اور خودمختارریاستیں وجود میں آئیں۔

انقلاب فرانس کی روشنی میں سیاسی نظریات کے حوالے سے یہ بات واضح ہوچکی تھی کہ حکومت کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں کی فلاح و بہبود ہے اور یہ مقصد جمہوریت کے تحت ہی حاصل کیا جاسکتا ہے یہ وہ نظریہ تھا جس کے تحت مختلف ملکوں کے عوام آمریت کے خلاف صف آرا ہوئے اور یوں دنیا کے مختلف خطوں میں جمہوری حکومتوں کا قیام عمل میں آیا۔

دنیا کے مختلف ممالک میں یہ نظام کامیابی سے جاری ہے اس نظام کی بدولت ان ممالک میں نہ صرف سیاسی استحکام ہے بلکہ اس کی بدولت وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم دنیا کے بیشتر ممالک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہیں اس کی بنیادی وجہ جمہوری نظام سے لاتعلقی ہے۔ یہ مسلم ممالک جب تک جمہوری نظام کو فروغ نہیں دیں گے سیاسی عدم استحکام کا شکار رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔