بحضور محترم وزیرِاعظم پاکستان

دلاور حسین  پير 16 ستمبر 2019
محترم وزیراعظم آپ نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ ان کی زندگی میں تاریخ ساز انقلاب لائیں گے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

محترم وزیراعظم آپ نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ ان کی زندگی میں تاریخ ساز انقلاب لائیں گے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

حضور! موجودہ ملکی سیاسی و معاشی صورتِ حال کے باعث ایک ایسا معاشرتی ڈھانچہ پروان چڑھ رہا ہے، جس میں مایوسی، غیر یقینی اور ناامیدی جیسے منفی رویے جنم لے رہے ہیں۔ ہر جگہ معاشی زبوں حالی، جبرواستبداد، ناانصافی اور بے روزگاری دیکھنے کو ملتی ہے۔ انصافی حکومت کے ہوتے ہوئے سارا معاشرہ معاشی و سیاسی ناانصافی کی لپیٹ میں ہے۔ خودغرض اور نااہل لوگ زندگی اور حکومت کے مزے لوٹ رہے ہیں، جبکہ صاحبِ علم لوگ خونِ جگر پی کر گزر اوقات کررہے ہیں۔ اہل لوگوں کو ناکارہ بنادیا گیا ہے، جبکہ احمقوں کی گردنوں میں سونے کے ہار ہیں۔

بقول آپ کے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکمران اور عوام محمود و ایاز کی طرح ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے۔ تاہم اس کے برعکس حکمران اور عوام دو مختلف رویوں کی نمائندگی کررہے ہیں۔ عوام کہتے ہیں کہ شاہ اور شاہ کے درباریوں نے اپنے وجود کی خاطر عوام کا وجود خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ملک کو سلطنت بنادیا گیا ہے۔ عسکریت دان اور عسکریت پسند سیاسی گھوڑے عوام پر مسلط کیے جاچکے ہیں۔ اگر ہے تو ملک، سلطنت، اور جھوٹ ہے۔ نہیں ہے تو سچ نہیں، معنویت نہیں، ٹھوس پالیسی نہیں، عوام کا وجود نہیں۔ آپ کے اردگرد موجود احباب کو نہ تو عوام سے کوئی غرض، نہ ملکی مسائل میں کوئی دلچسپی ہے۔

عوام، عوام کا پیسہ اور عوامی ادارے، سب موقع پرست اور ابن الوقت سیاسی گھوڑوں کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں۔ عوام کا کہنا ہے کہ ملکی سیاسی نظام نے پہلے کنٹرولڈ جمہوریت کا لبادہ اوڑھا اور اب بالواسطہ آمریت کا جامہ پہن چکی ہے۔ پاکستان ریاستِ مدینہ کے بجائے سلطنت کی مانند حکمرانوں کی ذاتی ملکیت بن چکا ہے۔ حکام اور شہریوں کے درمیاں رشتے ناتے پھیکے پڑ چکے ہیں۔ حکمرانی کےلیے یہ اصول قائم ہوا ہے کہ اصل ہدف اپنے مفادات کا تحفظ ہے جنہیں ہر حال میں حاصل کیا جانا ہے، چاہے اس راستے کو اپنانے کےلیے تمام جمہوری و اخلاقی اقدار قربان کرنا پڑیں۔

جبکہ اس کے مقابلے میں عوام ہیں، جو گلی گلی اپنی بے بسی کا نوحہ پڑھتے اور حکمرانوں کی بے حسی کا ماتم کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

محترم عوامی وزیراعظم صاحب! آپ نے 2018 کے عام انتخابات کی مہم کے دوران عوام کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا۔ وہ معاہدہ یہ تھا کہ عوام آپ کو منتخب کریں، آپ ان کی زندگی میں تاریخ ساز انقلاب لائیں گے۔ عوام نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا، جبکہ آپ اپنے وعدے سے کلی طور پر منحرف اور انکاری ہوچکے ہیں۔ آپ کی ٹیم کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزیاں بھرپور طریقے سے جاری ہیں۔ نہ گڈ گورننس، نہ روزگار، نہ معاشی خوشحالی، نہ مستحکم خارجہ پالیسی، نہ اظہارِ رائے کی آزادی، نہ انصاف، البتہ اگر ہیں تو صرف انصافی ہی انصافی ہیں۔

آپ کی کامیابی خاص اہمیت کی حامل اس لیے تھی کہ آپ کو نہ تو مقتدر قوتوں کی مخالفت کا سامنا تھا، نہ مضبوط اپوزیشن کا۔ اور یہ پہلو گزشہ سب وزرائے اعظم کی نسبت منفرد تھا۔ اب اصلاحات متعارف کروانا، حکومتی ساکھ کو بچانا اور عوامی مفادات کی حفاظت کرنے کی بھاری ذمے داری آپ کی تھی، صرف آپ کی۔ اس ذمے داری کا تقاضا تھا کہ آپ کے ہر کھلاڑی کی انفرادی کارکردگی اور حکومت کی اجتماعی ساکھ کا بندوبست کیا جاتا۔ عوام نے آپ کو آسانیاں پیدا کرنے، نہ کہ مشکلات پیدا کرنے کےلیے منتخب کیا تھا۔ آپ تو خاتم المسائل بن کر آئے تھے، اس کے برعکس آپ امّ المسائل ثابت ہوئے ہیں۔

عوام کے سامنے یہ سوال ہے کہ عدل وانصاف، معاشی خوشحالی اور گڈ گورننس کی بنیاد پر کیے گئے معاہدے کی تجدید کیسے ممکن ہو؟ یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ اس غیر یقینی کی صورتِ حال میں ڈٹ جانے کے بجائے گوشہ نشینی اور خاموشی کی روایت کو توڑ کر عوامی منشور کو ملکی سطح پر نافذ کرنے کےلیے تحریک کس طرح چلائی جائے؟

وزیراعظم صاحب! عوام پوچھ رہے ہیں کہ اپوزیشن کو ٹھکانے لگانا اور یکطرفہ طرزِ حکمرانی کو پروان چڑھانا کیا یہ جمہوری روایات سے انحراف نہیں؟ کیا اس کا مداوا نہ ہونا چاہیے؟ کیا عوام یوں ہی عذاب کا شکار رہیں؟ کیا وزرا کی کارکردگی کا معیار صرف سوشل اور قومی میڈیا پر بیان بازی اور گالیاں بکنا ہے؟ کیا حکومتی جماعت کے علاوہ کسی اور سیاسی جماعت سے تعلق رکھنا جرم قرار دے دیا گیا ہے؟ کب تک میڈیا سے حکومتی نااہلی کی اشاعت کےلیے خاموشی اختیار کروائی جائے گی؟ کیا اپنے حق کےلیے کوشش نہ کی جائے؟ کیا عوام ریاستِ پاکستان کے شہری ہونے کے باوجود اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھیں؟

عوام پوچھتے ہیں کہ آپ ہی بتلائیے ان حالات میں ان کا کیا ردِعمل ہونا چاہیے؟

اس پسِ منظر اور بے روزگاری نے عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ ان کا انتخاب غلط تھا۔ اب عوام کے سامنے بس ایک ہی راستہ ہے، یہ وہ راستہ ہے جو متقاضی ہے کہ عوام اپنے حقوق کی جنگ سڑکوں پر لڑیں۔ اس راستے کو اپنانے کےلیے کسی مددگار، اسلحہ، دولت اور سازو سامان کی ضرورت نہیں ہوگی وزیراعظم صاحب۔ اس سے پہلے کے عوام اس راستے کو اپناتے سڑکوں پر ہوں آپ کو اپنے طرزِ حکمرانی اور رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

دلاور حسین

دلاور حسین

بلاگر تاریخ میں ایم فل کی ڈگری کے حامل ہیں اور قائداعظم یونیورسٹی، اسلام آباد میں پڑھا بھی رہے ہیں۔ انھیں ٹویٹر ہینڈل @HussanDilawar اور فیس بُک آئی ڈی Dilawar Hussain پر فالو کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔