ام الجرائم، عدم تحفظ

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 14 ستمبر 2019
barq@email.com

[email protected]

کہیں پہلے کسی کالم میں ہم نے ’’جرائم‘‘کے موضوع پرخیال آرائی کی تھی۔خیال آرائی اس لیے کہ ہم نہ تو دانا دانشور نہ ماہرین ہیں اور نہ خردمند۔اس لیے ہماری ہرزہ سرائیوں کو ’’خیال آرائیاں‘‘کہاجاسکتاہے کیونکہ بہتے دریا کا رخ موڑنے کی کوشش خیال آرائیاں ہی ہوسکتی ہے بلکہ اگر خیال آرائیوں کو فارسی کی بجائے اردو کا جامہ پہنادیا جائے تو ’’آرائیوں‘‘کے خیالات بن جاتے ہیں۔

اور ’’آرائیں‘‘ گرچہ آج کل ایک خاص قوم بھی ہے لیکن بنیادی طور پر کسانوں یعنی زمین داروں خاک زادوں یا عوام کالانعام سب کے سب’’آرائیں‘‘ہوتے ہیں اور ’’آرائیوں‘‘کی کون سنتاہے۔وہ فلمی لطیفہ تو آپ کویاد ہوگا کہ ایک دبنگ بیوی کو اس کے ’’ڈبو‘‘شوہر نے کہا کہ ’’میری بات سنو‘‘۔بیوی نے انتہائی دبنگ لہجے میں مسٹر ’’ڈبو‘‘سے کہا۔کہ اس سے پہلے کبھی میں نے تمہاری کوئی بات سنی ہے ؟۔

’’ڈبو‘‘نے حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ’’نہیں‘‘اس پردبنگ جواب ملا۔کہ پھر آج کیوں سنوں؟۔لیکن کوئی سنے یا نہ سنے ہمارا دل بھی تو’’ککر‘‘ہوتاہے کہیں نہ کہیں تو بھڑاس نکالنا ہوتا ہے۔جرائم کے سلسلے میں ہم نے یہ کہاتھا کہ عام آدمی پرسکون زندگی جینا چاہتاہے اور وہ جرم کرکے خود کو بے سکون ہرگز نہیں کرنا چاہتا۔لیکن جب معاشرہ اور نظام اپنے بے پناہ استحصال سے اس کی زندگی اجیرن کردیتے ہیں اور اس کے لیے اور کوئی راستہ کوئی آپشن کوئی چارہ نہیں چھوڑتے تو تنگ آمد بجنگ آمد۔حضرت شیخ سعدی نے بھی کہاہے کہ

نہ دیدی کہ چوں گریبہ عاجزشود

برآردبہ چنگال چشم بلنگ

یعنی دیکھتے نہیں جب ’’بلی‘‘مجبور ہوجاتی ہے تو اپنے قاتل بھیڑیے کی آنکھ پر پنجہ مارکرنکال لیتی ہے کہ یہی اس کے بس میں ہوتاہے آنکھ نکلنے سے بھیڑیا مرتا نہیں پھر بھی ’’بلی‘‘کو ماردیتاہے کیونکہ بلی۔بلی ہوتی ہے اور عوام الناس عوام الناس ہوتے ہیں صرف’’بھیڑیے نظام‘‘کو پنجہ مارکر تھوڑا سا نقصان پہنچاسکتے ہیں۔

لیکن جرائم کا ایک اور پہلو بھی ہے یہ وضاحت پہلے سن لیجیے کہ یہاں ہم صرف ان جرائم کی بات کرتے ہیں جو عوام الناس سے سرزد ہوتے ہیں ان اعلیٰ،شریفانہ اور مروجہ جرائم کا ذکر نہیں کررہے ہیں جو اشرافیہ کرتی ہے لیکن بچاؤ کے لیے ان جرائم کو اپنے خودساختہ قانون سے بچائے رکھتی ہے یا ان قوانین کے چٹوں بٹوں کے ذریعے بڑی بڑی فیسوں کے ذریعے ’’قانونی جرائم‘‘کا  ارتکاب کھلے عام کرتے ہیں۔آج کل اگر ہم دیکھیں سنیں پڑھیں تو ایسا کوئی منہ نہیں ایسا کوئی قلم نہیں ایسی کوئی زبان نہیں جو معاشرے اور نظام میں ’’کرپشن‘‘کا رونا نہ رو رہے ہوں، بہت کرپشن ہے یہاں کرپشن ہے وہاں کرپشن ہے۔ یہ کرپشن ہے وہ کرپشن ہے یعنی

ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں

تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں

یہاں تک حکومت کے سارے قانون نافذ کرنے، کرپشن ختم کرنے اور عدل وانصاف قائم کرنے والے ادارے بھی

ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرہوئے

’’اس‘‘کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے

لیکن کبھی کسی نے سوچا تک نہیں ہوگا کہ اس بے پناہ،ہمہ گیر اور فاتح عالم کرپشن کی اصل وجہ پوچھے سوچے یا معلوم کرے بس ایک بے محاباشور ہے کرپشن کرپشن کرپشن۔ آخر کیوں پاکستان میں اس کا اتنا زور کیوں ہے کیا یہی کی مٹی میں کوئی خرابی ہے، پانی میں کوئی نقص ہے یا لوگوں میں کچھ خاص بات ہے۔

ایسا کچھ نہیں ہے پاکستانی بھی عام انسان ہیں بلکہ زیادہ تر اچھے مسلمان اور نیک بھی ہیں دیانت کے معنی بھی جانتے ہیں اور کرپشن کا مفہوم بھی سمجھتے ہیں اور یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کرپشن حرام خوری اور حرام کمائی اچھی چیز نہیں ہے۔تو پھر آخر کیوں؟کہ ہر سطح پر یہاں تک کہ دین وایمان۔خدا اور رسول اور قرآن کو بھی نہیں چھوڑ رہے ہیں، ان کو بھی کرپشن کا ذریعہ بنالیتے ہیں۔

ایسا کیوں ہے کہ ہرکسی کو ہر طریقے پر کمانے اور جمع کرنے کا ’’ہوکا‘‘لگا ہوا یا ’’جل پری‘‘چڑھی ہے کہ جتنا پانی پیتے جاتے ہیں پیاس بڑھتی جاتی ہے۔آخر کیوں بلکہ سو بار کیوں؟قیامت سے پہلے یہ نفسا نفسی کا عالم کیوں؟چلیے بتادیتے ہیں اس سب کچھ کے پیچھے صرف ایک لفظ کارفرما ہے’’عدم تحفظ‘‘۔ کسی کو بھی اپنے کسی بھی معاملے میں ’’تحفظ‘‘کا اطمینان حاصل نہیں۔اگر کل میں مرگیا تو میرے بال بچوں کا کیا ہوگا، معذور ہوا لاعلاج یا مہنگی بیماری میں، میں یا میرا کوئی اپنا مبتلا ہوگیا۔اگر کسی’’زبردست‘‘کا شکار ہوا اگر اپنے حلقے میں کمزور ہوا تو۔

کیا ہوگا کون ہے جو میری مدد کرے گا؟ کوئی نہیں یہاں تک کہ اگر دن دیہاڑے کوئی آپ کو یا آپ کے کسی اپنے کو قتل کرڈالے آپ کی کسی خاتون کی بے عزتی کرے یا کھلے عام بے حرمت کرے۔تو کوئی نہیں ہے جو آپ کی مدد کو آئے۔ شور بہت مچے گا بیانات بہت آئیں گے دعوے بہت ہوں گے لیکن آپ کو لگی ہوئی آگ پر کوئی چلو بھر پانی بھی نہیں ڈالے گا۔اور جیسا کہ پچھلے کالم میں ہم نے عرض کیاتھا کہ عوام کی عزت ومال کی حفاظت کی فکر،تعلیم کی ذمے داری نان ونفقہ روزگار وغیرہ کی فراہمی، حکومت وقت کی ذمے داری ہے لیکن کوئی ’’حکومت‘‘ہوتوتب نا۔ یہاں توگینگ وار ہے۔

کہتے ہیں بہلول دانا سے ہارون الرشید نے پوچھا کہ چور کا ہاتھ کاٹنے کی سزا دینی چاہیے یا نہیں۔بہلول نے کہا اگر چور نے چوری’’مستی‘‘میں کی ہے تو اس کا ہاتھ کاٹنا چاہیے اور اگر نیستی اور مجبوری میں کی ہے تو حاکم وقت کا ’’سر‘‘کاٹنا چاہیے۔ اس ہمہ گیر نفسا نفسی بے چارگی اور گینگ وار میں اور کیا ہوگا، یہی ہوگا کہ ہرکوئی ہر طرف سے مایوس ہوکر خود کو زیادہ سے زیادہ ’’مضبوط‘‘ کرے، چاہے کسی بھی طریقے سے ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔