خونِ مسلم

عبدالقادر حسن  ہفتہ 14 ستمبر 2019
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

دنیا اس قدر سمٹ گئی ہے کہ حالات و واقعات تحریری ہی نہیں تصویری صورت میں بھی وقوع پذیر ہوتے ہی سوشل میڈیا کے ذریعے چار دانگ عالم میں پھیل جاتے ہیں۔

آج تک دنیا میں ہم مسلمانوں کے لیے ان حالات و واقعات میں خوشخبریاں کم ہی ہوتی ہیں بلکہ ہماری خونریزی کی رنگینیاں ہماری کئی سر زمینوں کو سرخ کر رہی ہیں۔ کشمیر اور فلسطین کے بعد افغانستان ، چیچنیا اور عراق وغیرہ کے علاوہ خود پاکستان کی زمین بھی اس خونریزی سے محفوظ نہیں رہی اور خونِ مسلم بے گناہ بہتا جا رہا ہے اور زمین کو رنگین کررہا ہے۔

ٹیلیویژن کے خبر ناموں میں ہم دیکھتے رہے کہ کشمیر میںبھارتی سپاہی بازار میں چل رہا ہے کہ وہ یکایک مڑ کر ایک طرف دیکھتا ہے اور پھر اس کی گولی سے کوئی کشمیری زمین پر لوٹ رہا ہوتا ہے اور اس کے بعد اس کی میت پر کشمیری مائیں ، بہنیں اور بھائی باپ روتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ آج کل کشمیر کی صورتحال تو اس سے بھی بد تر بتائی جارہی ہے کشمیریوں کو گولیوں کے علاوہ کرفیو نافذ کر کے بھوک پیاس اور دواؤں کی قلت سے ان کی نسل کشی کی کوشش کی جارہی ہے۔

عراق میں تو ایسے بھیانک اور جدید ہتھیار بھی استعمال ہوئے جو کشتوں کے پشتے لگا دیتے ہیں اور ان کے استعمال کے بعد امریکا نے انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی سے اپنی اطلاعات کے غلط ہونے کا اعتراف کر کے بے گناہ مسلمانوں کے قتل پر جھوٹی موٹی معافی بھی مانگ لی۔

افغانستان کی اگر بات کی جائے تو اپنے وقت کی دوسپر طاقتوں نے گزشتہ چالیس برس سے اس سرزمین کو تختہ مشق بنایا ہوا ہے اور ان مجاہدوں پر روئے زمانہ کوئی ایسا ہتھیار نہیں جو نہ آزمایا گیا ہو مگر آفرین ہے ان بہادر اور سخت جان افغانوں پر جنہوں نے ہر ظلم برداشت کیا مگر باطل کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا اور بالآخر باطل ہی افغانستان میںذلیل و رسوا ہوا۔ پاکستان میں بھی کئی مسلمان وہ شر پسند ہوں یا ان کے دشمن زندگی سے محروم کر دیے جاتے ہیں۔

مسلمانوں کے قتل کے یہ چند میدان ہیںجو مسلسل گرم رہتے ہیں ورنہ ہر روز کہیں نہ کہیں دوسری جگہوں سے بھی مسلمانوں کے قتل کی خبریں آجاتی ہیں اور ان کو ان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے قتل کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی بلا تامل اور بلاخوف و خطر قتل کی یہ مثالیں تاریخ میں صرف باقاعدہ جنگوں میں ہی ملتی ہیں جن میں مسلمان اور ان کے دشمن دونوں کا خون بہتا ہے۔

جنگوں کے علاوہ ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی کسی کو محض اس لیے قتل کر دے کہ وہ مسلمان ہے جو اسے ناپسند ہے۔ میں نے مسلمانوں کی خونریزی کے جن مقامات کا ذکر کیا ہے یہاں قتل و خونریزی کا سلسلہ مسلمانوں نے نہیں ان پر ان کے حملہ آوروں نے شروع کیا ہے۔ ’’دہشت گرد‘‘ مسلمانوں نے کہیں بھی پہلی گولی چلائی نہیں پہلی گولی کھائی ضرور ہے۔

قتل مسلم کا یہ سلسلہ اتنا پرانا ہو چکا ہے کہ پڑھنے والے یہ سوچیں گے کہ کون سی ایسی نئی بات ہو گئی ہے کہ میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں۔ کوئی نئی بات نہیںہوئی بلکہ میں نے گزشتہ ایک دو روز میں کشمیر کے کونے کھدروں سے نکل کرآنے والی چند وڈیوز دیکھی ہیں جس میں ہندو سپاہیوں کے چہروں پر نفرت کی ایک نہایت مکروہ جھلک تھی اور ایک بے رحم سی مسکراہٹ بھی۔ بس یہی نفرت اور سفاکی کی جھلک تھی۔

جس نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ کیا خون مسلم اب اس قدر ارزاں ہو گیا ہے اور کیا بے گناہ مسلمانوں کے قاتلوں کو روکنے والا کوئی ہاتھ باقی نہیں رہا ، کیا دوسرے مسلمانوں کے دست و بازو شل ہو گئے ہیں یا ان کے اندر سے حمیت ختم ہو گئی ہے۔

آخر کیا ہے کہ پوری دنیا کے مسلمانوں کی آنکھوں کے سامنے یہ سب کچھ ہو رہا ہے نوجوان قتل اور بچے بھوک سے بلک بلک کر اپنے مالک کو پکار رہے ہیں عورتوں کی عزتیں نہ پہلے محفوظ تھیں اور نہ اب محفوظ ہیں ۔یہ سب دیکھ اور سن کر آنکھیں پتھرا رہی ہیں مگر مسلم امت کے وجود میں کوئی حرکت بلکہ جھرجھری سی بھی نہیں اٹھتی جیسے کیڑے مکوڑوں کے مرجانے کاکوئی انسان نوٹس ہی نہیں لیتا۔

کشمیری مائیں جو اپنے لباس اور شکل و شباہت سے دور سے پہچانی جاتی ہیں کہ یہ کون ہیں جب اپنے جگرگوشوں کا ماتم کرتے دکھائی دیتی ہیں تو یہ کون مانتا ہے کہ کشمیر میں باہر کے دہشت گرد یہ سب کچھ کر رہے ہیں، کیا مسلم اُمہ کویہ دُختران کشمیر ان باہر کے دہشت گردوں کا ماتم کرتے دکھائی دیتی ہیں۔

ایک مدت کے بعد ہماری وزارت خارجہ نے کشمیر کے مسئلے پر دنیا کو جھنجھوڑا ہے اور اپنا موقف کامیابی سے دنیا تک پہنچایا ہے جس کے مثبت اثرات برآمد ہو رہے ہیں ۔بھارت کی کشمیر میںغنڈہ گردی کی دنیا بھر میں مذمت کی جارہی ہے ۔پاکستان نے کشمیریوں کی آواز دنیا بھر میں بلند کر کے بھارتی مظالم کو بے نقاب کیا ہے ۔

کشمیری مسلمان اگر کسی کی طرف دیکھ رہے ہیں تو وہ پاکستان ہے جس سے ان کو مدد کی توقع ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس مشکل وقت میں پاکستان واحد اسلامی ریاست ہے جو ان کی ہم آواز ہے۔ مسلمانوں کا زوال اور انحطاط صرف یہ نہیں کہ ان کے پاس جدید ہتھیار نہیں اور سائنسی مہارتیں نہیں ان کا اصل زوال یہ ہے کہ ان کے دلوں میں ایمان کی حرارت نہیں اور ان کی ان جراتوں کی داد دینے کو جی چاہتا ہے کہ وہ اس نازک موقع پر اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کرنے کی بجائے مسلمانوں کے قاتلوں سے الٹا معاملہ بندیاں کر رہے ہیں۔

اگر مسلمانوں کے قاتلوں سے بدلہ نہیں لے سکتے اگر مظلوم مسلمانوں کی حمایت نہیں کر سکتے ان کی جان نہیں بچا سکتے تو خاموش تو رہ سکتے ہیں ۔ کیا مظلوم مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی ضروری ہے ۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ کشمیر کے کٹھ پتلی لیڈروں پر بھی سات دہائیوں کے بعد بھارتی ہندو کی اصلیت بے نقاب ہوئی ہے۔ کشمیریوں کی اصل نمائندگی معمر سید علی گیلانی کر رہے ہیں وہ اس ضعیف العمری میں بھی ڈٹے ہوئے ہیں کشمیری بہادری کے ساتھ بھارتی بربریت کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

ان کی نسلیں بھارتی درندوں سے مقابلہ کرتے ہوئے جوان ہوئی ہیں ان کے لیے شہادت کی موت ایک انعام ہے اگر ایک لاکھ کشمیری نوجوان جانیں دے چکے ہیں تو کئی لاکھ باقی ہیں۔ ہم مسئلہ کشمیر کے ایک فریق ہیں اور اگر اصلی کشمیری حریت پسند ہم سے کوئی توقع رکھتے ہیں تو یہ ان کا حق اور ہمارا ایک فریق ہونے کے ناتے فرض ہے ان پر کوئی احسان نہیں ہے اور ہمیں یہ فرض نبھانا ہو گا۔

ضروری تصحیح۔گزشتہ کالم شہید بیٹے میں کیپٹن قاضی جواد شہید کی جگہ سہواً کیپٹن جواد چیمہ شہیدلکھا گیا ۔ قارئین تصحیح کر لیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔