- چوتھا ٹی20؛ رضوان کی پلئینگ الیون میں شرکت مشکوک
- ایرانی صدر کا دورہ اور علاقائی تعاون کی اہمیت
- آئی ایم ایف قسط پیر تک مل جائیگی، جون تک زرمبادلہ ذخائر 10 ارب ڈالر ہوجائینگے، وزیر خزانہ
- حکومت رواں مالی سال کے قرض اہداف حاصل کرنے میں ناکام
- وزیراعظم شہباز شریف کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری
- شیخ رشید کے بلو رانی والے الفاظ ایف آئی آر میں کہاں ہیں؟ اسلام آباد ہائیکورٹ
- بورڈ کا قابلِ ستائش اقدام؛ بےسہارا و یتیم بچوں کو میچ دیکھانے کی دعوت
- امریکا نے بھارت میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو شرمناک قرار دیدیا
- پاکستان کی مکئی کی برآمدات میں غیر معمولی اضافہ
- ایلیٹ فورس کا ہیڈ کانسٹیبل گرفتار، پونے دو کلو چرس برآمد
- لیجنڈز کرکٹ لیگ فکسنگ اسکینڈل کی زد میں آگئی
- انجرڈ رضوان قومی ٹیم کے پریکٹس سیشن میں شامل نہ ہوسکے
- آئی پی ایل، چھوٹی باؤنڈریز نے ریکارڈز کا انبار لگا دیئے
- اسٹاک ایکسچینج؛ ملکی تاریخ میں پہلی بار 72 ہزار پوائنٹس کی سطح عبور
- شاداب کو ٹیم کے اسٹرائیک ریٹ کی فکر ستانے لگی
- لکی مروت؛ شادی کی تقریب میں فائرنگ سے 6 افراد جاں بحق
- اٹلی: آدھی رات کو آئسکریم کھانے پر پابندی کا بِل پیش
- ملک بھر میں مکمل پنک مون کا نظارہ
- چیمپئیز ٹرافی 2025؛ بھارتی میڈیا پاکستان مخالف مخالف مہم چلانے میں سرگرم
- عبداللہ غازی مزار کے پاس تیز رفتار کار فٹ پاتھ پر سوئے افراد پر چڑھ دوڑی
چین کے پاکستانی بیوروکریسی سے تحفظات
پاکستان کی عالمی تنہائی نظر آرہی ہے۔ مسئلہ کشمیر پر ہم وہ عالمی حمایت نہیں حاصل کر سکے جس کی توقع تھی۔ بھارت کی خارجہ پالیسی ہم سے مضبوط نظر آئی ہے۔ ہوسٹن میں ڈونلڈ ٹرمپ اور مودی کے مشترکہ جلسہ نے ٹرمپ کی ثالثی کے غبارے میں سے بھی ہوا نکال دی ہے۔
عرب دنیا کے حالات بھی سب کے سامنے ہیں۔ باقی دنیا کے معاملات بھی سب کے سامنے ہیں۔ ایسے میں چین کی اہمیت مزید ابھر کر سامنے آگئی ہے۔ اب تک جتنی بھی سفارتی کامیابی ملی ہے، اس میں چین کا کلیدی کردار ہے۔ تا ہم چین بے شک ہمارا ساتھ دے رہا ہے لیکن وہ ہم سے کسی حد تک ناراض بھی ہے۔ سی پیک کے معاملات میں سست روی ناراضی کا باعث ہے۔
موجودہ حکومت اب تک سی پیک کے حوالے سے اپنی پالیسی واضع نہیں کرسکی ہے۔ کسی کو معلوم نہیں کہ ہم سی پیک کو آگے چلانا بھی چاہتے ہیں یا نہیں۔کیا امریکا کے ساتھ نئے ہنی مون میں ہم زیادہ آگے نہیں نکل چکے۔ چین کے تحفظات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔
گزشتہ روز کراچی میں چینی قونصل جنرل نے ا یک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سی پیک حکومت نہیں بیوروکریسی کی وجہ سے سست روی کا شکار ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ چین کی جانب سے ایسے تحفظات کا برملا اظہار کیا گیا ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں ایک موقع پر سی پیک کے منصوبوں پر چین نے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ اس ضمن میں چینی سفیر نے اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان سے آن ریکارڈ ملاقات بھی کی تھی۔
اس ملاقات کے بعد چیف جسٹس پاکستان نے ملک کے چاروں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کا ایک اجلاس بلایا تھا۔ جس میں سی پیک کے حوالے سے زیرسماعت مقدمات پر غور کیا گیا اور ان مقدمات کو جلد از جلد نبٹانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کے بعد ہی سپریم کورٹ میں اورنج لائن کا آٹھ ماہ سے محفوظ فیصلہ بھی جاری کیا گیااور اورنج لائن کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور ہو سکیں۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اورنج لائن آج تک چل نہیں سکی ہے۔ اس ضمن میں موجودہ حکومت سپریم کورٹ میں متعدد ڈیڈ لائنز دے چکی ہے۔ لیکن عمل درآمدنہیں ہو سکا ہے۔
ہمیں سمجھنا ہوگا کہ چین میں ایک الگ نظام حکومت ہے۔ چینی حکومت کے لیے یہ بات باقابل فہم ہے کہ کس طرح پرجیکٹ تاخیر کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کے لیے یہ بھی بات بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ کس طرح دو ممالک کے درمیان طے ہونے والوں منصوبوں پر حکم امتناعی آجاتے ہیں۔ لیکن پاکستان کے نظام حکومت میں یہ ممکن ہے۔ شائد اس کی چین کو سمجھ آگئی ہے۔ا س ضمن مین حکومت کس قدر بے بس ہوتی ہے اس کی بھی چین کو سمجھ آگئی تھی، انھیں گزشتہ حکومت کی بے بسی کا اندازہ تھا۔ سوال یہ ہے کہ عدالتی رکاوٹیں تو دور ہوگئی ہیں۔ لیکن اب بیوروکریسی کی حائل رکاوٹوں کو کیسے دور کیا جائے گا۔
بے شک پاکستان میں بیوروکریسی ایک ادارہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ بیوروکریسی میں مسائل کے لیے حل کے لیے کس سے کیا بات کی جائے اس پر ابہام موجود ہے۔ چینی سفارتکار سے پہلے وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید بھی اسی قسم کے جذبات کا اظہار کر چکے ہیں۔ ان کا بھی یہی موقف ہے کہ بیوروکریسی کی وجہ سے سی پیک اور دیگر بڑے منصوبے تاخیر کا شکار ہیں۔ شیخ رشید برملا کہ رہے ہیں کہ افسر شاہی نے قلم چھوڑ ہڑتال کی ہوئی ہے۔
جس کی وجہ سے کوئی کام بھی نہیں ہو سکتا۔ سب رکے ہوئے ہیں۔ میری حکومت وقت سے درخواست ہے کہ وہ وہ چینی تحفظات کو سنجیدہ لے۔ چینی سفارتکاری میں اس طرح کھلے عام تب ہی اظہار کیا جاتا ہے جب پانی سر سے گزر جائے۔ ورنہ چین خاموش سفارتکاری پر زیادہ یقین رکھتا ہے۔ موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے چین اور سی پیک پر کافی غیر ذمے داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ حکومتی وزار نے اس ضمن میں بہت غیر ذمے داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ جس کا پاکستان کو بہت نقصان ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر چین کو پاکستان کی بیوروکریسی سے شکایات ہیں۔
تو وہ کیا کرے۔ کیا ہم یہ چاہتے ہیں کہ چینی سفارت کار اب ایک ایک افسر کے پاس خود جائیں اور اس کو سی پیک کی فائل پر کام کرنے کی درخواست کریں۔ جیسے ہم سب اپنے کاموں کے لیے مختلف دفاتر میں افسر شاہی سے اپنے کام کروانے کے لیے ملتے ہیں، اب چینی سفارتکار بھی سی پیک کے کاموں کے لیے افسر شاہی سے ملیں۔ جیسے ہم افسروں کے تلوے چاٹتے ہیں۔
اب چینی بھی ایسا ہی کریں۔ اگر کوئی کہے کہ آپ کی یہ فائل پاس کرنے سے میرے اوپر نیب کا کیس بن جائے گا تو چینی سفارت کار اسے یقین دلائیں کہ اگر نیب نے کچھ کہا تو ہم ذمے دار ہوںگے۔ جب افسر کہے گا کہ حکمران تو کام کر کے گھر چلے جاتے ہیں اور افسر پھنس جاتے ہیں تو جواب میں چینی کہیں گے کہ حکمران چلے جاتے ہیں چین کہیں نہیں جائے گا۔ چین آپ کے ساتھ ہے۔ اگر آپ کو کوئی مسئلہ ہوا تو ہم اوپر بات کریں گے۔ اور اگر مسئلہ زیادہ خراب ہو بھی گیا تو بھی ہم ذمے دار ہیں۔ آپ فکر نہ کریں۔ فائل پاس کریں۔ یہ کوئی خوشی کی بات نہیں ہے۔ یہ افسوس کا مقام ہے۔ ویسے تو یہ حکومت خود بھی بیوروکریسی کے عدم تعان کی وجہ سے ناکام ہو رہی ہے۔ لیکن اس حکومت کی کامیابی اور ناکامی اتنی اہم نہیں ہے۔ لیکن چینیوں کے تحفظات بہت اہم ہیں۔
ہم بھارت کے ساتھ لڑائی کو جس نہج پر لے گئے ہیں۔ وہاں پر اب چین کے سوا کوئی ساتھ نہیں کھڑا ۔ محمد بن سلمان کا جہاز تو مل جاتا ہے لیکن کشمیر پر حمایت نہیںملتی۔ ٹرمپ کا مودی کے ساتھ جلسہ کھلا اعلان ہے۔ اس لیے ہمیں پاکستان میں چین کے رکے ہوئے منصوبوں مین حائل رکاوٹیں دور کرنی ہوںگی۔ورنہ ہم چین جیسے دوست کو بھی ناراض کر بیٹھیں گے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔