کیا آپ خوش ہیں؟

دلاور حسین  منگل 19 نومبر 2019
خوشی، ناخوشی اور مثبت و منفی سوچ کا ماخذ ہمارا دماغ ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

خوشی، ناخوشی اور مثبت و منفی سوچ کا ماخذ ہمارا دماغ ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کیا آپ خوش ہیں؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے جو ہر فرد کو اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے۔ اگر جواب ہاں ہے پھر تو وہی راستہ اپنائے رکھیے جس پر آپ چل رہے اور خوش ہیں۔ تاہم کیا آپ خوش ہیں کا جواب نہ ہے تو اگلا سوال کچھ یوں ہوگا کہ کیا آپ خوش رہنا چاہتے ہیں؟ اگر جواب نہ ہے پھر وہی کرتے رہیں جس سے آپ ناخوش ہیں۔ لیکن اگر کیا آپ خوش رہنا چاہتے ہیں کا جواب ہاں ہے تو پھر آپ کو ’کچھ‘ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

اب یہ کچھ تبدیلی کیا ہے؟ یہ تبدیلی باطنی تبدیلی ہے، جس کا تعلق آپ کی ذات اور دماغ سے ہے۔ اپنی ذات کی تبدیلی ہی آپ کو حقیقی معنوں میں مستقل خوشی مہیا کرسکتی ہے۔ اپنی ذات کی تبدیلی کیا ہے؟ یہ تبدیلی آپ کی عادات کی تبدیلی ہے، یہ تبدیلی آپ کی سوچ و افکار کی تبدیلی ہے۔ یہ تبدیلی آپ کے رویوں کی تبدیلی ہے۔ اس تبدیلی کا تعلق آپ کے اندر سے ہے، جو آپ کی کلی قدرت میں بھی ہے، مستقل بھی ہے اور سب سے بڑھ کر اس پر ظاہری ناخوشگوار عوامل اثر انداز بھی نہیں ہوتے۔ آپ کے اندر کا موسم خوش گوار ہو تو آپ ظاہری ناخوشگوار حالات کا مقابلہ بھی نہایت آسانی سے کرلیتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ اندر کی تبدیلی حاصل کرنے کا ماخذ اور طریقہ کار کیا ہے؟ لوگ یہ شکوہ کرتے ہیں کہ ہم بھرپور کوشش کے باوجود بھی اپنے اندر مثبت سوچ کو پروان نہیں چڑھا پاتے۔ اور ظاہری عوامل، منفی سوچ، اردگرد موجود سیاسی، معاشی و معاشرتی عوامل اثر انداز ہوتے ہیں۔

آئیے آج ہم اس ناخوشی اور منفی سوچ کے ماخذ اور طریقہ کار کو سمجھنے کی سعی کرتے ہیں۔ خوشی، ناخوشی اور مثبت و منفی سوچ کا ماخذ ہمارا دماغ ہے۔ جبکہ ہر ان دو صورتوں سے نمٹنے کےلیے طریقہ کار کا تعلق بھی ہمارے دماغ اور اس کو دی جانے والی خوراک ہے۔ جس کے ذمے دار ہم خود ہیں، نہ کہ کوئی بیرونی عوامل کارفرما ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ دماغ کی خوراک ہے کیا؟ اور اس کا ڈائیٹ پلان کیا ہونا چاہیے؟

دماغ کی خوراک ہے سوچ۔ اب سوچ دو طرح کی ہے، ایک مثبت سوچ، جبکہ اس کے برعکس منفی سوچ۔ اب انتخاب ہمارا ہے کہ آیا ہم مثبت سوچ کو منتخب کرتے یا پھر منفی سوچ کو۔ اب ہمیں یہ پتہ ہونا چاہیے کہ مثبت اور منفی سوچ کن کن عوامل کا مجموعہ ہے۔ منفی سوچ میں ڈر و خوف، فکرمندی، الزام تراشی، جھوٹ، دھوکا، غیبت، حسد، کسی سے اپنا جسمانی و معاشی موازنہ کرنا، کسی کی بات کو دل پر لے کر دکھی ہونا، کسی سے نفرت کرنا وغیرہ۔ جبکہ اس کے برعکس مثبت سوچ معاف کرنا، اپنے آپ کا کسی سے تقابل نہ کرنا، سچ بولنا، ہر وقت فکرمند نہ رہنا، محبت، احساس، برداشت اور اچھا گمان کا مجموعہ ہے۔

اب ہمیں یہ کیسے پتہ چلے گا کہ جو سوچ ہم دماغ کو ٹرانسفر کررہے ہیں کیا یہ مثبت ہے یا منفی، یہ ٹھیک ہے غلط؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس سوچ سے آپ کا سکونِ قلب متاثر ہو وہ منفی سوچ ہے۔ اب ہم اس منفی سوچ کو روک کیسے سکتے ہیں اور مثبت سوچ کیسے پیدا کرسکتے ہیں؟ عموماً ایسا ہوتا کہ ہم بھرپور کوشش کے باوجود بھی منفی سوچ کو نہیں روک پاتے۔ ایسا کیوں ہے؟ کیوں کہ ہم سوچ کے ماخذ سے لاعلم ہیں۔

سوچ درحقیقت خودبخود پیدا نہیں ہوتی بلکہ یہ تو ہماری اپنی پیدا کی ہوئی انرجی کا نام ہے۔ ہم میں سے ہر کسی نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ کسی کے اندر کم منفی رجحانات ہوتے ہیں، کسی کے اندر زیادہ، جبکہ اس کے برعکس کسی کے اندر کم مثبت رجحانات ہوتے ہیں کسی کے اندر زیادہ، جبکہ کسی کے اندر تو بہت زیادہ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ ہم خود ہیں جو اس مثبت یا منفی سوچ کو پیدا کرتے ہیں اور یہ ہمارے کنٹرول میں ہے۔ اور اس کا ماخذ ہماری روزمرہ کی عادات سے پیدا ہونے والی انرجی ہے۔ اب اس انرجی کو پیدا کرنے والا خام مال کیا ہے جس سے یہ پراڈکٹ تیار ہوتی ہے؟ تو وہ را میٹریل ’انفارمیشن‘ ہے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ ہم نے جو کھانا کھایا اس میں موجود غذائیت، اس کا معیار اور مقدار ہمارے جسم میں قوت مدافعت پیدا کرتی ہے۔ مطلب کھانا ہے را میٹریل اور اس سے پیدا ہونے والی انرجی قوت مدافعت ہے۔ ہمارے اندر قوت مدافعت کا انحصار کھائی گئی غذا کے معیار، مقدار اور غذائیت پر منحصر ہے۔ اگر خوراک معیاری ہے تو قوت مدافعت مضبوط، اگر غذا کا معیار بہتر نہیں تو قوت مدافعت کمزور۔ غذا کے معیار سے آپ کے جسم کی صحت مندی اور بیماری جڑی ہے۔ جب آپ بیمار ہوتے ہیں آپ کو ڈاکٹر سب سے پہلے (ڈائیٹ) کو تبدیل اور بہتر کرنے کو کہتا ہے، کیوں کہ غذا سے آپ کا جسم بنتا ہے۔

ٹھیک اسی طرح ہمارا دماغ بھی غذا سے بنتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس قسم کی غذا؟ تو وہ غذا ہے جذبات‘۔ اب جذبات کا ماخذ (سورس) کیا ہے؟ جذبات کا ماخذ ’انفارمشن‘ ہے۔ جس کے تین ذرائع ہیں، ایک جو ہم دیکھتے ہیں، دو جو ہم سنتے ہیں، تین جو ہم پڑھتے ہیں۔ ان تینوں ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات ہمارے دماغ میں ذخیرہ ہوتی رہتی ہے۔ جب ہم ایک ہی طرح کی معلومات بارہا پڑھتے، سنتے یا دیکھتے ہیں تو یہ ہمارے دماغ کا مستقل حصہ بننا شروع ہوجاتی ہیں۔ مثلاً کسی دوست سے ہم نے سنا کہ کل کسی کا روڈ ایکسیڈنٹ ہوگیا۔ اگلے روز ہم نے اخبار میں بھی پڑھ لیا کہ کوئی لڑکا ٹرک سے ٹکرا کر جاں بحق ہوگیا۔ اس طرح کی معلومات ایک ہفتہ، ایک ماہ یا کئی ماہ تک سنتے اور دیکھتے رہے۔ ایک شام آپ کا بیٹا گھر نہیں پہنچتا اور اس کا موبائل بھی بند جارہا ہے تو نہ چاہتے ہوئے بھی فوراً آپ کے ذہین میں خیال آئے گا کہ ضرور ’کچھ غلط‘ ہوگیا ہوگا۔ ہم کیوں یہ نہیں سوچ پاتے کہ ’کچھ اچھا‘ ہوا ہوگا۔ وہ کسی دوست کو ملنے چلا گیا ہوگا۔ اس کے موبائل کی بیٹری لو ہوگی وغیرہ۔ یہ ’کچھ غلط‘ ہوا والی سوچ کیوں آئی؟ کیوں کہ ہم پچھلے کئی عرصہ سے اپنے دماغ کو منفی سوچ کی غذا کھلا رہے تھے جو اب اس کا مستقل حصہ بن چکی ہے کہ آج کل حالات ٹھیک نہیں، آج کل بہت ایکسیڈینٹس ہورہے ہیں وغیرہ۔

تو جب ہم اپنے دماغ کو غذا، جو انفارمیشن ہے، وہ پہنچا رہے ہوں تو ہمیں بہت احتیاط برتنا ہوگی۔ ہمیں ایک انفارمیشن فلٹر لگانا ہوگا کہ ہم کیا دیکھ رہے ہیں، کیا سن رہے اور کیا پڑھ رہے ہیں۔ چاہے ہم فلم دیکھ رہے ہوں، چاہے موسیقی سن رہے ہوں، چاہے سوشل میڈیا استعمال کررہے ہوں، چاہے خبریں سن یا پڑھ رہے ہوں، تو یہ سب انفارمیشن صرف اس مقصد کے لیے حاصل نہیں کررہے کہ ہم ’ٹائم پاس‘ کر رہے ہیں، بلکہ گانے کا ایک ایک لفظ، سوشل میڈیا کی ایک ایک پوسٹ، کتاب اور اخبار کا ایک ایک حرف ہماری دماغ کی خوراک ہے اور اس کا حصہ اور لغت کا حصہ بنتا جارہا ہے۔ اب ہمیں فلٹر کے ذریعے منفی معلومات سے دور جبکہ مثبت معلومات تک رسائی محدود رکھنا ہوگی۔

آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ بعض اوقات ہم غمگین گانے سننا پسند کرتے ہیں، اس کے برعکس اگر کوئی رومانوی گانا چل رہا ہو تو ہم بند کردیتے ہیں، کیوں کہ اس وقت ہمارے دماغ کی فریکوئنسی غمگین ہونے کی وجہ سے رومانس سے مطابقت قائم نہیں کرپارہی ہوتی۔

تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

ہمیں کرنا یہ ہے کہ ہمیں اپنا سوچنے کا طریقہ بدلنا ہے۔ وہ کیسے؟ وہ ایسے کہ ہمیں اپنی معلومات کے تینوں ذرائع پر فلٹر لگانا ہے۔ اپنی عادات اور روٹین بدلنی ہے، مثلاً اپنی صبح کا آغاز بجائے ٹی وی پر خبریں دیکھنے کے، جس میں صرف اتنے لوگ مرگئے، مہنگائی، کرپشن، مایوسی سننے کو ملے گی، ہرگز نہ کریں۔ وہ یہ ہرگز نہیں بتائیں گے کہ آج رات اسلام آباد میں لاکھوں لوگ سکون کی نیند سوئے، کیوں کہ یہ خبر نہیں ہے۔ وہ یہ بتائیں گے کہ آج رات اسلام آباد میں کروڑوں کی ڈکیتی ہوئی۔ ہم نے یہ خبر ایک دن سنی، دوسرے دن پڑھ لی، تیسرے دن کسی دوست سے سن لی۔ اب نتیجہ کیا ہوگا کہ ہم نے اپنے دماغ میں ’خوف‘ کی منفی انرجی پیدا کردی۔

اٹھتے ہی سوشل میڈیا اور موبائل سے مت چپکیے۔ دماغ کی صحت اور منفی سوچ کی رکاوٹ اور خوش رہنے کےلیے یہ ضرورری نہیں ہے کہ ظاہری دنیا میں کیا ہورہا ہے اور صبح اٹھتے ہی دماغ کو اس سے بھرنا۔ بلکہ کرنا یہ ہے کہ صبح اٹھتے ہی ہمیں اپنے دماغ کو پاکیزہ، صاف شفاف اور پاورفل انرجی اور معلومات سے بھرنا ہے۔ یہ معلومات روحانیت، علم و دانش، اپنے رب اور اپنی ذات کی طرف دھیان ہیں۔

جب آپ مثبت جذبات کی غذا دماغ میں بھریں گے تو اپنے آپ سوچ بدلے گی اور خودبخود مثبت اور اچھی انرجی پیدا ہوگی۔ تو آج ہی اپنا من منفی سوچ سے صاف کیجئے اور ارادہ باندھ لیں کہ ہم صرف وہ سنیں، دیکھیں اور پڑھیں گے، جو ہم بننا چاہتے ہیں اور جس سے ہم خوشی محسوس کرتے ہیں۔ جب آپ زندگی میں یہ فارمولا اپنا لیں گے تو مثبت سوچ سوچنا نہیں پڑے گی بلکہ خودبخود قدرتی طور پر آنا شروع ہوجائے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

دلاور حسین

دلاور حسین

بلاگر تاریخ میں ایم فل کی ڈگری کے حامل ہیں اور قائداعظم یونیورسٹی، اسلام آباد میں پڑھا بھی رہے ہیں۔ انھیں ٹویٹر ہینڈل @HussanDilawar اور فیس بُک آئی ڈی Dilawar Hussain پر فالو کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔