دورحاضر کے اثرات، اردو فن خطاطی بقا کی جنگ سے دوچار

آصف محمود  اتوار 8 دسمبر 2019
کمپیوٹر پر فونٹ محدود، نستعلیق جیسے چاہیں لکھ سکتے ہیں، خالد محمود۔ فوٹو: فائل

کمپیوٹر پر فونٹ محدود، نستعلیق جیسے چاہیں لکھ سکتے ہیں، خالد محمود۔ فوٹو: فائل

لاہور: ماضی کے کئی فن  دور حاضر کے جدید تقاضوں میں کہیں کھو گئے ہیں۔

خطاطی مسلمانوں کا تہذیبی و ثقافتی ورثہ ہے جسے کمپیوٹر نے بری طرح متاثرکیا ہے مگر آج بھی کئی خطاط ایسے ہیں جو ناصرف خطاطی کے فن کو زندہ رکھنے کے لئے اسے نوجوان نسل کو منتقل کررہے ہیں بلکہ پاکستان کی قومی زبان اردو کی پہچان خط نستعلیق لاہوری کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کروانے کی بھی کوشش کی جارہی ہے۔

نوجوان عکاشہ مجاہد کا تعلق گیلانی خاندان سے ہے ، یہ خاندان گزشتہ تین سو سال سے فن خطاطی سے وابستہ ہے اوراسے زندہ رکھے ہوئے ہے۔اس خاندان کے بعض افراد ایسے ہیں جنہوں نے 17 قرآن مجید اپنے ہاتھ سے لکھے ہیں۔ یوں تو پاکستان میں بیشمار خطاط پائے جاتے ہیں تاہم عکاشہ مجاہد کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ عربی اور انگلش کے بھی اعلی پائے کے خطاط ہیں، خطاطی کے اسرار و رموز، ذوق و شوق،نفاست ونزاکت ان کے خون میں شامل ہے۔ انہوں نے فیصل ٹاؤن لاہورمیں ایک ادارہ قائم کیا ہے جہاں نوجوان نسل کوخطاطی اور پینٹنگ سکھائی جاتی ہے۔

عکاشہ مجاہد کہتے ہیں کہ خطاطی مسلمانوں کا تہذیبی وثقافتی ورثہ ہے، مسلمان حکمرانوں، بادشاہوں، وزیروں اور اہل علم نے ہر دور میں خون جگر سے خطاطی کے فن کو سینچا اور سنوارا ہے۔ ایک وقت تھا جب مسلمان بادشاہ خطاطوں کی سرپرستی کیا کرتے تھے۔ اس طرح سے یہ فن عروج کو پہنچا مسلمانوں کی پہچان اورشناخت بن گیا۔ اس دوران خطاطوں نے ایسے شہ پارے تخلیق کئے کہ جو آج بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ اس کے بعد جب مسلمانوں کا زوال شروع ہوا تو یہ فن بھی زوال کاشکار ہونا شروع ہوگیا۔ وہ اپنے خاندان کے اس فن کو زندہ رکھنے کی کوشش کررہے ہیں جب کہ نوجوان نسل بھی اس میں خصوصی دلچسپی دکھارہی ہے ، ماں باپ خود بچوں کو خطاطی سکھانے کے لئے لے کر آتے ہیں۔

فیصل ٹاؤن لاہور میں واقع خطاطی کے اس مرکز میں نامور خطاط خالد محمود صدیقی بھی نوجوانوں کو مختلف خطوط کے اسراز و رموز اور لکھنے کی مہارت کا درس دیتے ہیں۔ خالد محمود صدیقی کا تعلق بھی خطاط خاندان سے ہے جبکہ وہ اس موضوع پر 2 کتابیں بھی تحریر کرچکے ہیں۔

خالد محمود صدیقی نے ایکسپریس کو بتایا کہ جب برصغیرمیں نئی زبان اردو وجود میں آئی تو اس وقت یہ مسئلہ بھی سامنے آیا تھا کہ اردو کو لکھا کیسے جائے گا۔ اس وقت برصغیر میں فارسی اورعربی رسم الخط کا رواج تھا۔ اردو میں چونکہ ہندی اور سنسکرت کے الفاظ بھی شامل تھے جس کی وجہ سے کئی الفاظ ایسے تھے جن کو عربی اورفارسی میں لکھنا ممکن نہیں تھا۔ 1928 میں استاد عبدالمجید پروین رقم نے نستعلیق لاہوری کی پہلی تختی لکھی ، ان کا قیام پاکستان سے قبل ہی انتقال ہوگیا تاہم جب پاکستان بنا تو اس وقت لاہور میں ساٹھ کے قریب خطاطی سیکھنے کے مراکز تھے جن میں الماس رقم کی بیٹھک ، تاج الدین زریں رقم کی بیٹھک ، محمد اعظم منور رقم کی بیٹھک ، محمد بخش جمیل رقم کی بیٹھک اور حاجی دین محمد کی بیٹھک مشہور تھیں۔ اس زمانے میں خطاطی مرکز کو بیٹھک کہا جاتا تھا، ان مراکز میں استادعبدالمجید پروین رقم کے انداز خط کی تربیت دی جاتی تھی۔

خالد محمود صدیقی نے کہا کہ کمپیوٹرکی وجہ سے لوگوں نے خط لکھنا چھوڑ دیا جب کہ خط کے بڑے استاد بھی دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن اب ہماری کوشش ہے کہ خط کو بحال کیا جائے بالخصوص لاہوری نستعلیق کو اس کا مقام دلوایا جائے۔ خطاطی کا تعلق جمالیات کی صنعف سے ہے، جو دل ودماغ کو روشن کرتی ہے، خط جس قدرخوبصورت ہوگا دیکھنے والوں اتنا ہی اچھالگے گا۔ کمپیوٹرپرموجود اردوفونٹ محدودہیں ، ان کو ایک خاص اندازاورجگہ میں ہی لکھاجاسکتا ہے جبکہ خطاطی کے ذریعے لاہوری نستعلیق ایسا خط ہے جسے جس اندازمیں چاہیں لکھ سکتے ہیں۔ اسلامی ممالک کی تنظیم (اوآئی سی ) ہرتین سال بعد اسلامی ممالک کے مابین اسلامی کیلیگرافی کے مقابلے کرواتی ہے ، مگربدقسمتی سے اردو کا لاہوری نستعلیق خط ان مقابلوں میں شامل نہیں کیاجاتا ہے۔یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ 50 کروڑ افراد کا نمائندہ خط عالمی سطح پرتسلیم نہیں کیاجارہا ہے، حالانکہ اوآئی سی کی جیوری میں دوپاکستانی خطاط بھی شامل رہے ہیں لیکن کبھی لاہوری نستعلیق کو تسلیم کروانے کی کوشش ہی نہیں کی گئی ہے۔

خطاطی بالخصوص اسلامی کیلی گرافی سیکھنے والوں میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔ ایک خاتون صائمہ نورکہتی ہیں وہ خود ایک آرٹسٹ ہیں اورپینٹنگ کرتی ہیں ، انہوں نے جب پہلی بار لفظ اللہ لکھنا چاہا تومجھے مشکل پیش آئی تب مجھے احساس ہوا کہ مجھے کیلی گرافی سیکھنا چاہیے اوراب 6 ماہ ہوگئے ہیں میں کئی خط لکھنا سیکھ چکی ہوں۔انہوں نے کہا اگرآپ کمپیوٹرپربھی کوئی خط استعمال کرناچاہتے ہیں توپہلے آپ کواس خط کی سمجھ ہونی چاہیے۔

ایک اور خاتون طالبہ میمونہ صابر کا کہنا تھا کہ وہ اسلامک کیلی گرامی روح کی تسکین کے لئے سیکھ رہی ہیں ، جس طرح انسان کو مختلف شوق ہوتے ہیں ،کوئی میوزک سیکھتا ہے ، کسی کولکھنے کا شوق ہے میں جب قرآن پاک پڑھتی ہوں توقرآن کی آیات کو سمجھنا چاہتی ہوں ، انہیں منفرداندازمیں لکھنا چاہتی ہوں ، ایسا اندازجو دل ودماغ اور روح کو تروتازی کردے ۔اسی لئے خطاطی سیکھ رہی ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔