اوپس آئی ڈِڈ اِٹ اگین

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  جمعـء 8 نومبر 2013
advo786@yahoo.com

[email protected]

بچپن میں جب ایسے معجزہ نما ناقابل یقین واقعات سنتے تھے کہ ماضی میں ایسے گلوکار بھی گزرے ہیں جو اپنے سروں سے چراغ جلا دیا کرتے تھے، بادل برسا دیتے، ان سروں سے جھولے خودبخود چلنا شروع کردیا کرتے تھے، تو ذہن ان کو مافوق الفطرت کہانیاں سمجھ کر رد کردیتا تھا۔ یہ کہانیاں عقل سے بعید تھیں، سنی سنائی تھیں اور صرف یقین کی بنیاد پر تسلیم کی جاتی تھیں۔ ان کے حقیقی ہونے یا نہ ہونے کے معاملے میں مذاہب، روایات اور عقائد کو بھی بڑا دخل حاصل ہوتا تھا۔ 1965 کی جنگ سے متعلق اس قسم کی باتیں کی گئیں کہ اس جنگ کے جیتنے میں ملی نغموں کا بڑا کلیدی کردار رہا ہے۔ یہ واقعہ بھی زیر بحث رہا ہے کہ مہدی حسن نے سروں سے گلاس توڑ دیا جب وہ کائیگی کررہے تھے، اس کے بعد خبریں آتی رہیں کہ نصرت فتح علی دنیا بھر میں اپنی موسیقی کے ذریعے مختلف قسم کے امراض کا علاج کررہے ہیں، لوگ اس سے شفایاب ہورہے ہیں۔

بعض لوگ دور حاضر کی ان خبروں کو ناقابل یقین اور من گھڑت قرار دیتے ہیں، کچھ لوگ ان کے سائنٹیفک ہونے کا جواز پیش کرکے انھیں ممکنات میں شامل کرتے ہیں اور بعض مداح بغیر کسی جواز، دلیل یا ثبوت کے انھیں من و عن تسلیم کرلیتے ہیں۔ قوالی کو بھی موسیقی کی ایک صنف کہا جاسکتا ہے، اس کے سامعین میں سے بعض پر دوران محفل وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور وہ بے خودی میں جھومنے اور ناچنے لگتے ہیں، جس کو ’’حال آجانا‘‘ کہا جاتا ہے، گو قوالی کے رجحان میں خاصی کمی واقع ہوچکی ہے بلکہ روایتی قوالی کی جگہ جدید ساز و سامان سے آراستہ فیشن ایبل قسم کے لوگوں نے لے لی ہے۔ جس کی وجہ سے روایتی قوالی کو خاصا نقصان پہنچا ہے اور اس کا وجود خطرے میں پڑتا جارہا ہے۔ روایتی قوالی میں جہاں کچھ لوگ وجد و بے خودی میں جھومنے اور ناچنے لگتے تھے، وہیں اس میں کچھ ایسے منچلے لوگ بھی شامل ہوجایا کرتے تھے جن پر یہ کیفیت طاری نہیں ہوتی تھی بلکہ وہ صرف تفریح و مستی میلہ کے لیے ایسا کرتے تھے۔ ایسے منچلوں کو قابو کرنے کے لیے محفل سماع کے شرکا اپنے ہمراہ نہیں لے جاتے تھے، جب محسوس کرتے کہ کوئی شخص ڈرامہ کررہا ہے تو اس کو پن چبھو دی جاتی تھی جس سے اس کا سرور و مستی کافور ہوجاتی تھی۔

موسیقی کے حوالے سے تازہ اور سنسنی خیز خبر آئی ہے کہ شہرہ آفاق امریکی گلوکارہ برٹنی اسپیئرز کے گیت کی آواز سنتے ہی بحری قذاق بھاگ جاتے ہیں، برٹنی کے گیت صومالی قذاقوں کے خلاف موثر ہتھیار کے طورپر استعمال ہورہے ہیں۔ ایکسپریس میگزین میں شایع ہونے والی رپورٹ کے مطابق برٹنی کے گائے گئے دو ابتدائی گیت oops i did it again اور baby one more time جو انتہائی مقبول ہوئے تھے، ان کو سنتے ہی ڈاکو راستہ بدل کر نکل جاتے ہیں۔ بحر ہند میں دہشت کی فضا قائم کرنے والے صومالی قذاقوں کو اس امریکی گلوکارہ کی آواز سخت ناپسند ہے جس کو ان کے خلاف خفیہ ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے بین الاقوامی ذرایع ابلاغ میں صومالی قذاقوں کا تذکرہ اتنے تسلسل سے چل رہا ہے کہ ساری دنیا ان کی کارروائیوں سے واقف ہوچکی ہے جو مسافروں، عملے اور مال بردار جہازوں کو روک کر یرغمال بنالیتے ہیں اور بھاری تاوان وصول کرتے ہیں۔ بحری قذاقوں سے نمٹنے کے لیے برطانیہ کی رائل نیوی کے ہزاروں سپاہی اور جنگی جہاز ہمہ وقت سمندر میں گشت پر رہتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی ان کی کارروائیاں جاری رہتی ہیں۔

صومالی قذاقوں کے خلاف بحریہ اب روایتی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ برٹنی اسپیئرز کی آواز سے بھی کام لے رہی ہے۔ اس راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے مرچنٹ نیوی کی افسر راکیل اووپنز کا کہنا ہے کہ صومالی قذاق مغربی ثقافت اور مغربی موسیقی سے سخت نفرت کرتے ہیں، اور اسے کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے۔ اسی لیے سمندر میں سفر کرنے والے بحری جہازوں کے کپتانوں کو ہدایت جاری کی گئی تھی کہ قذاقوں کو دیکھتے ہی وہ برٹنی کے مذکورہ بالا دو گیت انتہائی بلند آواز سے بجانا شروع کردیں اور اب تک اس کے بڑے حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ برٹنی کے گیت سنتے ہی بحری قذاق راستہ بدل لیتے ہیں۔ اس نیوی افسر کے مطابق برٹنی کے ان گیتوں کا انتخاب ایک سیکیورٹی ٹیم نے کیا تھا، جس کا خیال تھا کہ قذاق ان دو گیتوں کو سخت ناپسند کریںگے اور بعد ازاں ان کا یہ خیال بالکل درست نکلا۔ سیکیورٹی ایسوسی ایشن فاردی میری ٹائم انڈسٹری کے سینئر اہلکار اسٹیون جونز کا کہنا ہے کہ یہ ہتھیار اتنا موثر ثابت ہورہا ہے کہ قذاقوں کے حملے کی صورت میں بیشتر اوقات روایتی ہتھیار چلانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی، وہ برٹنی کی آواز سنتے ہی رفو چکر ہوجاتے ہیں۔ صومالی قذاقوں اور عوام کی مغربی ثقافت اور موسیقی سے نفرت کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے مگر اس کی موسیقی سن کر اپنے مشن سے دستبردار ہونا سمجھ سے بالاتر ہے۔

پاکستان کی طرح صومالیہ کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں قانون نام کی کوئی شے نہیں ہے۔ عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ 1990 کی دہائی میں جب یہاں کے سیاسی نظام میں اسلامی عدالتوں کے قیام کی کوشش ہوئیں تو امریکا و مغربی قوتوں نے ہمسایہ ملک ایتھوپیا کے ذریعے باغی قوتوں کو ہتھیار فراہم کیے، صدر کو معزول کرایا، اس طرح طویل خانہ جنگی کا دور شروع ہوگیا، امن وامان کی ابتر صورتحال کی وجہ سے قحط پڑا جس میں 3 لاکھ ہلاکتیں ہوئیں، یورپ نے صومالیہ کے ساحلوں کو تباہ کاری کے فضلے کی کچرہ کنڈی بنادیا، جس سے علاقے میں خطرناک بیماریاں پھیلی۔ پاکستان سے تین گنا طویل اس کے ساحلوں پر یورپی جہاز کثیر تعداد میں غیر قانونی طور پر مچھلیاں پکڑنے لگے۔ جب عرصہ حیات تنگ ہوا تو مقامی ماہی گیر ہتھیار اٹھاکر تیز رفتار کشتیوں میں ان یورپی جہازوں کے تعاقب میں نکلے اور سمندر میں گزرنے والے تمام جہازوں پر نظر رکھنے لگے اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث جہاز اغوا کرنے لگے اور رفتہ رفتہ یہ عمل قذاق کی صورت حال اختیار کرگیا اور عالمی قذاق میں صومالیہ کا حصہ 95 فیصد ہوگیا، جس سے عالمی معیشت سالانہ 7 ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرتی ہے، جب کہ خطرے کے علاقے سے جہازوں کو تیز رفتاری سے نکالنے کے لیے 3 ارب ڈالر کا اضافی ایندھن اور نیوی فورسز کے گشت پر ایک ارب ڈالر کے اخراجات آتے ہیں۔

جہازوں پر سیکیورٹی گارڈ کی تعیناتی، ان کا انشورنس، تاوان کی خطیر رقوم اور قذاقوں کے خلاف مقدمات وغیرہ پر آنے والے اخراجات ان کے علاوہ ہیں۔ جدید سائنسی دور میں سیٹلائٹ کے ذریعے زمین کے اندر، سمندر کی تہہ اور آسمانوں کی بلندیوں پر حیوانات، جمادات، سیاروں کی نقل وحمل دریافت کرلی جاتی ہے، ڈرونز سے گھر یا گاڑی میں بیٹھے شخص کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے تو پھر کھلے سمندر میں جہازوں کو یرغمال بناکر مہینوں کھلے پانیوں یا جزیروں میں رکھ کر مغویوں، املاک اور تاوان کی بھاری بھرکم رقوم کی منتقلی اور ان قذاقوں کے سامنے دنیا کی بڑی طاقتوں کی بے بسی بڑی معنی خیز ہے۔ یہ بات بھی بڑی معنی خیز اور قابل غور ہے کہ بحری قذاق مخصوص معینہ کے مخصوص دو گانوں پر ہی ایسے جہازوں کو محفوظ راہداری کیوں دیتے ہیں؟ oops i did it again یا baby one more time خوف ونفرت کی علامت ہے یا قذاقوں کے لیے کئی خفیہ کوڈ؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔