پختون کلچر وہ نہیں جو میڈیا پر دکھایا جاتا ہے، سیدہ حسینہ گل

روخان یوسف زئی  منگل 25 فروری 2020
ترقی پسند شاعرہ، افسانہ نگار اور کمپیئر سیدہ حسینہ گل کے چند اوراق زیست۔ فوٹو: فائل

ترقی پسند شاعرہ، افسانہ نگار اور کمپیئر سیدہ حسینہ گل کے چند اوراق زیست۔ فوٹو: فائل

وہ بچپن سے ہی عام لڑکیوں کے مقابلے میں ایک متجسس مزاج لڑکی تھی جو ہر بات اور ہر چیز کی بنیاد تک جاننا چاہتی تھی۔ وہ اپنے والد اور والدہ سے ہر وقت پوچھتی کہ یہ فلاں چیز کیا ہے؟ اسے کس نے اور کیوں بنایا ہے؟

’’کیوں اور کیسے؟‘‘ کے الفا ظ سے گھر والے بھی تنگ آچکے تھے مگر وہ ان کی پہلی اولاد تھی اور گھر میں کوئی دوسرا بچہ نہیں تھا اس لیے ان کے بچپن کے تمام ناز و نخروں اور طرح طرح کے سوالات سے ان کی والدہ اور والد خوب لطف لیتے۔ ان کے والد خود پشتو زبان کے ایک اچھے لکھاری تھے اور جب وہ اپنے گھر میں کوئی کتاب پڑھنے  یا کچھ لکھنے  بیٹھتے تو وہ اپنے والد کو غور سے دیکھتی تھیں کہ وہ کیا لکھ رہے ہیں؟ آہستہ آہستہ ان پر یہ راز بھی کھل گیا کہ ان کے والد نہ صرف ریڈیو پاکستان پشاور میں ملازم ہیں بلکہ ہر ہفتہ ریڈیو سے ان کا لکھا ہوا ڈرامہ بھی نشر ہوتا ہے۔ وہ اپنے والد سے ڈرامے اور افسانے کے بارے میں سوالات پوچھتیں، جس کی وجہ سے سیدہ حسینہ گل کا رجحان بچپن سے ہی ادب کی جانب رہا۔

انہوں نے ایک پڑھے لکھے ادبی اور علمی خاندان میں 22 جون 1968ء کو میاں مظہر شاہ کاکاخیل کے ہاں زیارت کاکا صاحب نوشہرہ میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی پرائمری تعلیم اپنے گاؤں کے سکول سے حاصل کی۔ اس زمانے میں ان کے گاؤں میں مڈل اور ہائی سکول نہیں تھا اس لیے انہیں گورنمنٹ مڈل سکول نوشہرہ کینٹ میں داخل کر دیا گیا، وہ اپنے گاؤں سے نوشہرہ آیا کرتی تھیں۔ وہ آٹھویں جماعت کی طالبہ تھیں جب اپنے سکول میں ایک الوادعی پارٹی کے موقع پر اسی وقت ایک ڈرامہ لکھا اور اس کی ہدایات بھی دیں اور خود اس سٹیج ڈرامے میں کردار بھی ادا کیا۔ جس پر انہیں سکول کی جانب سے پہلا انعام ملا۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد گورنمنٹ ہائی سکول نوشہرہ میں داخلہ لیا بعد میں گورنمنٹ کالج نوشہرہ سے ایف اے اور بی اے کیا۔ شاعری کا آغاز سکول کے زمانے میں اردو زبان سے کیا جسے وہ اب تُک بندی کا نام دیتی ہیں۔

اردو میں لکھتے ہوئے انہیں اپنی تحریروں میں ایک کمی محسوس ہوتی اور جب انہوں نے اپنی اس بے اطمینانی کا اظہار اپنے والد سے کیا تو انہوں نے حسینہ گل کو مشورہ دیا کہ آپ اردو کے بجائے اپنی مادری زبان پشتو میں لکھنا شروع کریں، پھر آپ کو کسی کمی کا احساس نہیں ہو گا، والد کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے جب انہوں نے پشتو میں لکھنا شروع کیا تو اسے سننے اور پڑھنے والوں نے خوب سراہا، جس سے حوصلہ پاکر حسینہ گل نے اپنے آپ کو پشتو زبان اورادب کی ترقی اور ترویج کے لیے وقف کر دیا۔

آہستہ آہستہ ان کی شاعری  اور افسانوں کی مقبولیت نوشہرہ سے نکل کر پورے صوبے تک پہنچ گئی اور 1988ء میں جس وقت انہیں پہلی بار ریڈیو پاکستان پشاور کے پروگرام ’’نوجوانوں کی آواز‘‘ میں مدعو کیا گیا اور ان سے پشتو ادب اور پختون معاشرے میں خواتین کی معاشرتی زندگی کے بارے میں  سوالات کیے گئے، اس موقع پر حسینہ گل نے پختون عورت کو درپیش مشکلات اور مسائل کے بارے میں جو زمینی حقائق بیان کیے اس سے نہ صرف پشاور ریڈیو سٹیشن کے ارباب اختیار بلکہ تمام سننے والے انگشت بدنداں رہ گئے۔

ریڈیو پاکستان پشاور والے ان کی باتوں سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ان سے نہ صرف ریڈیو کے لیے عورتوں کے مسائل پر مبنی ڈرامے اور فیچر لکھنے کی درخواست کی بلکہ انہیں بطور کمپیئر بھی ان کا انتخاب ہوا، جس کے بعد حسینہ گل نے ریڈیو کے لیے باقاعدہ ڈرامے، فیچرز، ادبی اور خصوصاً خواتین کے لیے مختلف موضوعات پر سکرپٹ لکھے۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے، وہ اب تک سیکڑوں کی تعداد میں ریڈیو اور پشاور ٹیلی وژن کے لیے ڈرامے لکھ چکی ہیں۔

ادبی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سماجی اور سیاسی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔ اب تک ان کی شاعری، افسانوں، ناولوں اور سفرناموں پر مشتمل چودہ کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں’’شپون، شپول، شپیلی‘‘،’’داھم ھغسے موسم دے‘‘ اور’’ خوتہ خبرے کوہ‘‘ ’’افضل شوق‘‘، ’’ لہ مانہ مہ بئیلگہ‘‘،’’نیمگڑے کتاب‘‘،’’ملکہ‘‘،’’خپل آواز لتانہ اورم‘‘،’’ تہ لہ ما سنگہ ئے جدا‘‘،’’پہ لارہ زم ٹولہ زنگیگم‘‘،’’د امریکا سفر‘‘،’’وختونہ‘‘، ’’داوخکو باران‘‘، اور ’’کلہ کلہ‘‘ شامل ہیں۔ وہ2001 ء کے بلدیاتی انتخابات میں اپنے گاؤں کی یونین کونسل سے کونسلر منتخب ہوئیں اور پوری تحصیل نوشہرہ میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ عورت فاؤنڈیشن نامی تنظیم کی ضلع نوشہرہ کی کوآرڈینیٹر بھی رہیں۔

انہوں نے آغاز میں بہت سی مشکلات کا سامنا کیا۔ انہیں ترقی پسند فکر سے دلی لگاؤ ہے، وہ ابتدا سے ہی کسی بھی روایتی پابندی کے سخت خلاف رہیں، اپنے کردار کی وجہ سے گھر اور خاندان کے تمام افراد کا بھروسہ اور اعتماد حاصل کر لیا۔ وہ انتہائی خود اعتماد ہیں، عورتوں کے حقوق کے حوالے سے میڈیا کے کردار سے شاکی رہتی ہیں۔ آج کل الیکٹرانک میڈیا پر جس قسم کا پختون کلچر پیش کیا جاتا ہے، وہ اسے پختونوں کے خلاف ایک سازش کا نام دیتی ہیں اور اس کلچر کو نوجوان نسل کے لیے زہر قاتل سمجھتی ہیں۔ وہ اپنی زبان اور ثقافت کو پائیدار اور مضبوط دیوار کا نام دیتی ہیں۔ ٹیلی ویژن کے مختلف چینلز کے لیے ایک مانیٹرنگ نظام کے حق میں ہیں۔

انہیں گاؤں اور دیہاتوں میں حجرہ کلچر اور روایات ختم ہونے کا بہت افسوس ہے۔ پشتو شاعری کو اپنی روایات کی امین کہتے ہوئے عوامی اصناف کو نئے رنگ اور طرز میں پیش کرنے کے حق میں ہیں۔ انہیں روایتی قصے کہانیاں سننے اور پڑھنے کا بہت شوق ہے اور اسے اپنی تاریخ کا ایک اہم باب قرار دیتی ہیں۔ وہ ادب کو صرف پیسہ کمانے کا ذریعہ قرار دینے والوں کے سخت خلاف ہیں۔ پشتو زبان کے جملہ مسائل کا حل سرکاری سرپرستی کو  قرار دیتی ہیں۔ حسینہ گل کے خیال میں آج پوری دنیا بدل چکی ہے، زبانوں اور ثقافتوں کا وہ رنگ قائم نہیں رہا لیکن پھر بھی ہمیں اپنے ماضی  پر فخرکرنا چاہیے۔ اپنے تہذیبی ورثے کی حفاظت کو وہ اپنی زبان اور ادب کے لیے بہتر سمجھتی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ تبدیلیاں آتی رہتی ہیں، ادب اور زندگی ان تبدیلیوں سے ضرور متاثر ہوتی ہے۔

وہ آزاد نظم کو ایک مشکل صنف کا نام دیتی ہیں۔ ادب کی ترقی اور ترویج کے لیے ادبی اور قومی تحریکوں کو خوش آئند قرار دیتی ہیں، ان کے بقول وقتاً فوقتاً جو بھی قومی تحریکیں اٹھی ہیں وہ پشتو زبان و ادب کیلئے بہت زیادہ کارآمد ثابت ہوئی ہیں۔ بایزید انصاری المعروف پیر روخان کی روشنائی تحریک، ان کے مخالف اخون درویزہ بابا کی تحریک،خوش حال خان خٹک اور بیسویں صدی میں خان عبدالغفار خان کی خدائی خدمت گار تحریک کو پشتو زبان اور ادب کی ترقی کی بنیاد قرار دیتی ہیں۔ شاعری میں بلیغ علامات اور خوبصورت استعاروں کو شاعری کی روح کا نام دیتی ہیں۔ وہ تمام فنون لطیفہ کو قدرت کی جانب سے ایک مقدس عطیہ قرار دیتی ہیں۔ ادب کو ایک سماجی عمل اور اپنے ماحول کا ترجمان گردانتی ہیں۔

ادب اور فن کی دنیا کو پیار و محبت کی خوب صورت دنیا کا نام دیتی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ پختون خواتین میں تعلیم اور ہنر کے ساتھ ساتھ سیاسی شعور بھی بیدار ہو جائے اور اپنے انسانی حقوق سے آگہی حاصل کریں۔ ان کی شاعری میں انسانی المیوں کا ذکر بکثرت ملتا ہے۔

وہ عورت کی شخصی آزادی کی طرف دار ہیں اور اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک شاعرہ  پیدا کیا ہے۔ اپنی والدہ کو ایک ایسی خاتون قرار دیتی ہیں جنہوں نے  سخت ناموافق حالات اور مشکلات میں ان کی تعلیم اور تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ اپنے والد کے صبر، استقامت اور ثابت قدمی سے بہت مثاثر ہیں۔

ایک ادیبہ ہونے کی وجہ سے حسینہ گل کو زندگی کی رنگا رنگی بہت بھاتی ہے، لیکن سفید رنگ کو اپنا پسندیدہ رنگ قرار دیتی ہیں۔ موسم کی اچانک تبدیلی سے خوب لطف اندوز ہوتی ہیں۔ مرحوم امیر حمزہ خان شنواری کی غزل، خاطر آفریدی کی شاعری کی سادگی اوربے ساختگی کو بہت چاہتی ہیں۔ اردو شعراء میں غالب اور پشتو میں رحمان بابا کو اپنا آئیڈیل قرار دیتی ہیں۔ قلندر مومند اور سلیم راز کوبیسویں اور اکیسویں صدی کے بڑے پشتون نقاد مانتی ہیں۔ ان کا پسندیدہ شہر پشاور، خوراک میں ساگ اور تازہ سبزیاں، جبکہ پھلوں میں آم، مالٹا اور سنگترہ شوق سے کھاتی ہیں۔

انہیں سب سے زیادہ غصہ کسی کے جھوٹ بولنے پر آتا ہے۔ شگفتہ مزاج  حسینہ گل کو لطائف سننا اور سنانا اچھا لگتا ہے۔ ان کے خیال میں ہم ایک ایسے معاشرے اور ماحول میں سانس لے رہے ہیں جہاں ہنسنے ہنسانے کی سخت ضرورت ہے۔ موسیقی سے شغف اورخوابوں پر یقین رکھتی ہیں۔ جبکہ دست شناسی کی قائل نہیں۔ تنہائی میں گنگناتی ہیں، فارغ وقت میں ان کا محبوب مشغلہ مطالعہ کرنا ہے۔ سیاحت میں گہری دلچسپی رکھتی ہیں۔ اونچے پہاڑ اور سرسبز مناظر دیکھ کر کھو سی جاتی ہیں۔ عام خواتین کے مقابلے میں بھاری بھرکم زیورات پہننے  کا بہت شوق نہیں۔ انہیں فلمیں دیکھنے کا موقع بہت کم ملا کیوں کہ وہ کسی ایک جگہ زیادہ دیر تک نہیں بیٹھ سکتیں۔

وہ 2008ء میں مردان سے تعلق رکھنے والے پشتو کے شاعر وارث خان نایاب کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھ چکی ہیں۔ اپنی ازدواجی زندگی سے بہت مطمئن ہیں۔ ان کے بقول زندگی میں ایک ایسے دوست اور ساتھی کی بھی ضرورت ہوتی ہے جس سے آپ اپنے دل کی ہر بات کہہ سکتے ہوں۔

وہ خوراک میں بہت اختیاط سے کام لیتی ہیں اور اپنی صحت  کا خاص خیال رکھتی ہیں۔ سیاست دانوں میں باچاخان کو رول ماڈل قرار دیتی ہیں۔ ان کا پسندیدہ اداکار فردوس جمال جب کہ گلوکاروں میں خیال محمد اور کشور سلطان کی آواز کو پسند کرتی ہیں۔ وہ اب تک اپنے جواں سال بھائی اعجاز کے قتل کا منظرنہیں بھول سکیں۔ انہیں بہترین شاعری، افسانہ نگاری اور ڈرامہ نگاری پر حکومت پاکستان نے تمغہ امتیاز جبکہ افغان حکومت نے صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سے نوازا ہے۔ پشتو میں بڑے جرات مندانہ انداز میں نسوانی جذبات اور احساسات کو خوب صورت ادبی قالب اور زبان میں پیش کرنے کی وجہ سے انہیں پشتو کی پروین شاکر اور کشور ناہید بھی کہا جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔