دانہ گندم اور جنت

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 29 فروری 2020
barq@email.com

[email protected]

یہ بات ایک مرتبہ پھرصاف ہو گئی، شفاف ہو گئی ہے اور فائز بہ انصاف ہو گئی ہے کہ یہ جو دانۂ گندم ہے نان گندم ہے یا خمار گندم۔ یہی ہمارا دشمن نمبر ایک ہے۔ کیونکہ یہ بات تاریخ جغرافیہ اور روایات سب سے ثابت ہو گئی ہے کہ ہم جب بھی کوئی موقع فراغت کا مسرت کا اور بے غمی کا پاتے ہیں یہ دانہ گندم اسے کھنڈت کر دیتا ہے۔ بلکہ کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں اور شاید ہمیشہ کی طرح غلط سوچتے ہیں کہ کہیں یہ دانہ گندم بھی تو ہمارا دشمن نمبر ایک نہیں ہے جس کے نام بے شمار ہیں لیکن کام یہی ایک ہے۔

آدم اور اولاد آدم کو فردوس سے نکلوانا۔ یاد کرو فردوس نمبر ایک میں بھی جب ہمارے جد محترم اور جدہ محترمہ نہایت ہی بافراغت پرمسرت اور بے زحمت و مشقت و محنت کے دن گزارنے لگے مقام گل و گلزار ہر طرف بہار ہی بہار اور سب کچھ بست و بسیار نہ غم نہ آزار نہ فکر نہ افکار۔ تو اس وقت بھی ذرا سوچیے کہ کس نے یہ سب کچھ تلپٹ کیا، نام کوئی بھی لے دیجیے کام کسی کا بھی سمجھیے لیکن سب کچھ تو دانہ گندم کا کیا دھرا تھا۔

اور اب جب کہ ہم فردوس نمبر دو۔ ریاست مدینہ نمبر دو اور نیا مقام نمبر دو حاصل کر چکے تو پھر وہی دانہ گندم؟ خمار گندم اور شرار گندم۔ کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں اور شاید ہمیشہ کی طرح غلط سوچتے ہیں لیکن پھر بھی سوچتے ہیں اور اسی لیے سوچتے ہیں کہ ان ناخلف کپوتوں میں سے ایک ہم بھی ہیں کہ اپنے اس ازلی ابدی خاندانی اور جدی پشتی دشمن کو ہمیشہ سینے سے لگاتے رہے ہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا اور غیرت کا تقاضا بھی یہی تھا کہ ہم اس اپنے جد محترم اور جدہ محترمہ کو جنت سے نکلوانے والے ’’دانہ گندم‘‘ کو کبھی منہ نہیں لگاتے۔ سوچیے تو نہایت اصولی بات ہے بھلا خاندانی دشمن کو کوئی اتنا ’’عزیز‘‘ رکھتا ہے جتنا ہم نے اس کم بخت دانہ گندم کو عزیز رکھا ہے بلکہ اپنا سب کچھ اس کے حوالے کیا ہے۔ یہ ہمیں جنت بدر کرتا رہتا ہے رلاتا ہے ترساتا ہے اور ذلیل دربدر کرتا رہتا ہے اور ہم اسی کو سینے اور پیٹ سے لگائے ہوئے ہیں۔

کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں اور ہمیشہ کی طرح شاید غلط سوچتے ہیں کہ کسی نے ہمارے جد محترم کو چیلنج کیا تھا کہ میں تمہیں ہرگز ہرگز اور کبھی اور کہیں بھی چین سے رہنے نہیں دوں گا، تو وہ آواز بھی کہیں اس دانہ گندم کی تو نہیں تھی؟ حالات و واقعات، تمام شہادتوں، روایتوں اور ہمارے اندر کے وکیلوں کی بحث سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ یہی دانہ گندم ہی ہمارا دشمن نمبر ایک تھا۔ رہا ہے اور اب بھی ہے۔

فردوس نمبر ایک سے شروع ہونے والی یہ دشمنی اب فردوس نمبر دو ریاست مدینہ نمبر دو میں بھی ثابت ہو گئی۔ کہ یہی ہے یہی ہے اور یہی ہے ہمارا وہ جدی پشتی دشمن جسے ہم نے ہمیشہ سینے سے لگایا اور اس نے ہمارے پہلو بلکہ ’’پیٹ‘‘ میں چھرا گھونپا۔ فردوس نمبر دو عرف ریاست مدینہ نمبر دو میں جب اس نے دیکھا کہ ایک مرتبہ پھر ہم اپنے اجداد جیسی زندگی شروع کرنے والے ہیں سب کچھ تیار ہے حالات سازگار ہیں اور معمار بہ شکل سرکار تعمیر کی ابتدا کرنے والا ہے تو دیکھیے کیا کیا اس کم بخت نے؟ فردوس نمبر دو کے معمار صد ہزار مرتبہ گفتار کرچکے ہیں کہ سب کچھ بست و بسیار ہے۔

گندم کا انبار ہے روٹیوں کی قطار ہے اور آٹا بست و بسیار ہے اتنا زیادہ کہ ملک سے باہر نکلنے کو تیار اور بے قرار ہے لیکن پھر بھی یہ کم بخت دانہ گندم آمادہ پیکار ہے وہی اس کا کاروبار ہے اور آزار ہی آزار ہے۔ کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں اور ہمیشہ کی طرح شاید غلط سوچتے ہیں کہ کیوں نہ ہم بھی جوابی کارروائی کر کے اس دانہ گندم کے منہ پر طمانچہ مار دیں اور اسے مکمل طور پر تیاگ کر اپنی فردوس نمبر دو عرف ریاست مدینہ نمبر دو سے نکال باہرکریں اسے منہ لگانا چھوڑ دیں دوستی ترک کر دیں اور باغیرت اولاد بن کر اس جدی پشتی دشمن سے دشمنی کا آغاز کر دیں کہ بس بہت ہو گیا مروت اور لحاظ کا سلسلہ۔

ادھر تم ادھر ہم، اے وجہ غم بھاگ جا ورنہ ہم تجھے چیل کوؤں اور کتے بلیوں اور گدھوں خچروں کو کھلانا شروع کر دیں اور بھولے سے بھی تمہیں منہ نہیں لگائیں گے۔ ہم شکاری کے نلکے پر کبھی  نہیں بیٹھیں گے اور اگر بیٹھیں گے تو پھڑپھڑا کر اڑ جائیں گے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایسا ہو گا کیسے؟ دوسرا آپشن کیا ہے؟ اور ہم اس کم بخت کو اتنا اوڑھنا بچھونا بنا چکے ہیں کہ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔

دل سے مٹنا ترے انگشت حنائی کا خیال

ہو گیا گوشت کا ناخن سے جدا ہو جانا

لیکن اس کا حل ہے ہمارے پاس۔ اور ایسا حل ہے کہ ہم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس سدا سدا کے دشمن کے منہ پر طمانچہ مار کر اس کے طلسم ہوشربا سے آزاد ہو جائیں گے۔ اور یہ حل کوئی نیا نہیں یاد کرو کسی نے کہا تھا بلکہ تم سب نے بھی کہا تھا کہ ہم گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹمی دھماکا کر کے رہیں گے تو اب یوں سمجھیے کہ ہم گندمی دھماکے کرنے والے ہیں اور گھاس بھی حاضر ہے نوش جاں فرمایے۔ جتنا جی چاہے اور یہ کوئی نیا کام بھی نہیں ہے ہمارے اجداد کرتے رہے ہیں۔ بلکہ وہ تو گھاس پھوس کے ساتھ پتے اور جڑیں بھی کھود کر کھایا کرتے تھے تو کیوں نہ ہم بھی بسم اللہ کریں گھاس تو ہے ہی جڑیں بھی کم نہیں ہیں اس ملک کی۔ بلکہ ستر سال سے یہ جڑیں نکال نکال کر اور کھود کھود کر ’’کچھ لوگ‘‘ کھا بھی رہے ہیں۔ اور پھر یہ سبزیاں ساگ اور نباتات بھی تو ہم کھا ہی رہے ہیں جو گھاس ہی ہیں۔ بلکہ اس سلسلے میں ایک مسجد کے ملا جی کا واقعہ بھی ہے۔

کہ جب پورا ہفتہ ایک شخص کے گھر سے اس کے لیے ساگ ہی آتا رہا تو اس نے کھانا بلکہ ساگ لانے والے بچے سے کہا کہ بیٹا اپنے باپ سے کہنا کہ اتنی تکلیف کرنے کی کوئی ضرورت نہیں صرف مجھے تھوڑا سا نمک لادیں اور اس کھیت کی نشاندہی کریں میں خود ہی نمک ڈال کر چر لیاکروں گا۔

اور یہ اب بھی ہو سکتا ہے حکومت کوبھی اتنی تکلیف کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ کھیت دکھانے کی بھی ضرورت نہیں، سامنے پورے ملک کی شکل میں موجود ہے بلکہ نمک بھی موجود ہے صرف زخموں پر چھڑکنے سے تھوڑا بچا کر دیا جا سکتا ہے، بظاہر یہ مشکل سا لگتاہے لیکن ہے نہیں انسان بہت جلد عادی ہو کر حالات کے مطابق خود کو ڈھال لیتا ہے مثال بھی ہمارے سامنے موجود ہے کئی خطے اس دنیا میں موجود ہیں جہاں گندم نہیں کھائی جاتی بلکہ اگرکوئی کھائے تو بیمار ہو جاتا ہے اب وہ کیا کھاتے ہیں یہ بھی کوئی بتانے والی بات نہیں جوچیز وہاں وافر اور دستیاب ہوتی ہے اور پھر ہم سترسال سے صرف’’بیانات‘‘پربھی تو گزارہ کر رہے ہیں، بیانات کے ساتھ ساتھ گھاس کے بھی عادی ہوجائیں گے سبزرنگ توویسے بھی ہمارا فیورٹ اور پھرجھنڈے کا جزو اعظم ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔