ڈھائی لاکھ راشن بیگ کہاں بانٹے؟ سندھ حکومت ذرا ریکارڈ تو پیش کرے، ہائیکورٹ

کورٹ رپورٹر  جمعرات 16 اپريل 2020
کراچی ساؤتھ میں صرف3 ہزار افراد کو راشن دیا گیا، مرچ اور مسالے بھی غائب، دال کیڑوں والی نکلی، درخواست گزار ایڈووکیٹ (فوٹو : فائل)

کراچی ساؤتھ میں صرف3 ہزار افراد کو راشن دیا گیا، مرچ اور مسالے بھی غائب، دال کیڑوں والی نکلی، درخواست گزار ایڈووکیٹ (فوٹو : فائل)

 کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے لاک ڈاؤن کے دوران صوبے میں سندھ حکومت کی طرف سے راشن کی غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف درخواست پر سندھ حکومت، ڈپٹی کمشنر ساؤتھ اور دیگر سے جواب طلب کرلیا۔

جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس یوسف علی سعید پر مشتمل دو رکنی بینچ کے روبرو لاک ڈاؤن کے دوران سندھ میں صوبائی حکومت کی طرف سے راشن کی غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ جواد ڈیرو نے حکومت کی جانب سے موقف اختیار کہ سندھ حکومت اب تک صوبے بھر منصفانہ طور پر ڈھائی لاکھ راشن بیگ تقسیم کرچکی ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ ڈھائی لاکھ راشن کے بیگ کس علاقے کہاں کہاں تقسیم کیے؟ صوبائی حکومت کے پاس کچھ تو ریکارڈ ہوگا؟ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے موقف دیا کہ ڈویژنل سطح پر کمیٹیاں بنادی گئی ہیں، ڈپٹی کمشنرز اور یوسی چئیرمین معاملات کو دیکھ رہے ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریماکس دیئے سندھ حکومت سے سپریم کورٹ نے بھی تو تفصیلات مانگی ہیں اور آخر ہمیں بھی تو پتا چلے کسے راشن دیا گیا۔ درخواست گزار احسان علی بھٹو نے موقف دیا کہ لیاری میں چند افراد کو راشن کے بیگ دیے گئے۔ احسان بھٹو نے انکشاف کیا کہ سندھ حکومت نے راشن میں جو دال دی ہے اس میں بھی کیڑے ہیں، کیا عوام کیڑے والی دال کھائیں گے؟ درخواست گزار کے انکشاف پر عدالت نے بھی اظہار حیرت کیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ درخواست گزار بول رہے ہیں کیڑے والی دال دی جارہی ہے، کیا یہ درست ہے؟ عوام کو راشن بیگ میں کیا کیا دیا جارہا ہے اور کہاں تقسیم کیا گیا؟ عدالت کو بھی بتایا جائے۔

درخواست گزار نے مزید موقف اختیار کہ لیاری میں 5 لاکھ غریب خاندان رہتے ہیں اور پورے ضلع ساؤتھ میں صرف3 ہزار افراد کو راشن دیا گیا۔ دال کے ساتھ نمک، مرچ مسالہ نہیں دیا گیا، سندھ حکومت راشن تقسیم کرنے کے نام پر قوم کو بھوک سے مارہی ہے اور مذاق کررہی ہے۔

عدالت نے سندھ حکومت، ڈپٹی کمشنر ساؤتھ اور دیگر سے 24 اپریل کو تفصیلی جواب طلب کرلیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔