حکومت کرنے کا ڈھنگ
ہماری موجودہ حکومت خوامخواہ عوامی خدمت کے پیچھے پڑی ہوئی ہے، جبکہ عوام ایسی کسی خدمت سے راضی نہیں ہوتے
یوں لگتا ہے جیسے یہ حکومت بے وقوفوں کا ٹولہ ہے۔ (فوٹو: فائل)
کچھ سال پہلے جب کراچی میں حالات کافی سے زیادہ خراب تھے، تب اکثر پاکستانی بشمول اہالیان کراچی روز مرنے والوں کو کرکٹ میچ کی ہار جیت سے بھی ہلکا لیے ہوئے تھے۔ کیونکہ مجھے کہیں یہ سننے کو نہیں ملتا تھا کہ آج کتنے افراد شہید یا فوت ہوئے۔ لوگ آپس کی گفتگو میں یہی کہتے سنتے اور پوچھتے پائے جاتے تھے کہ ہاں بھئی آج کا اسکور کیا رہا؟ کل کا اسکور کیا تھا؟
ایسے ہی دنوں کی بات ہے کہ رینجرز دو تین مسلسل واقعات کی وجہ سے خبروں کا باقاعدہ حصہ بننے لگی۔ ان واقعات کے مطابق رینجرز والوں نے ناکے پر کسی گاڑی یا موٹر سائیکل سواروں کو رکنے کا اشارہ کیا، لیکن کار یا موٹر سائیکل سواروں نے ان اشاروں کو اس قابل نہیں سمجھا کہ ان پر عمل کرتے۔ شہر کے خراب حالات اور کسی بھی ممکنہ دہشت گردی کے پیش رینجرز والوں نے بھاگنے والوں پر فائرنگ کی اور ایک آدھ بندہ مارا گیا۔ جس کے بعد پورے ملک میں ایک تماشا شروع ہوجاتا تھا۔ سیاست دان، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور عوام یعنی سبھی رینجرز کے خلاف میدان میں اتر آتے۔ چیف جسٹس بھی فوراً ہی سوموٹو نوٹس لے لیتے اور رینجرز والے گرفتار کرلیے جاتے، جنہیں بعد میں سزائیں تک ہوئیں۔
کوئی یہ پوچھنے کو تیار نہیں تھا کہ اگر وہ عام معصوم شہری ہی تھے تو انہیں ناکے پر رکنے میں کیا دشواری تھی؟ اگر وہ جلدی میں ہی تھے تو ناکے پر کون سا دو تین سال بٹھا کر سوال جواب کیے جاتے تھے؟ اور اگر وہ دہشت گرد ہی ہوتے اور رینجرز والے مستعد نہ ہوتے تو کہیں بھی دہشت گردی ہوسکتی تھی۔ اس کا ذمے دار کون ہوتا؟ کوئی پوچھنے والا نہ تھا بلکہ سبھی رینجرز والوں کو دیوار سے لگانے کی کوشش میں رہے۔
بہت معذرت لیکن میرے ذاتی خیالات میں رینجرز والوں کو شہر کی حفاظت سے ہاتھ اٹھا لینے چاہیے تھے، کیونکہ جب ایک عام شہری ہی ناکے پر رکنے کو اپنی توہین سمجھتا ہو، جہاں قانون پر عمل درآمد کسر شان ہو اور قانون نافذ کرنے والوں کے ساتھ تعاون کرنے کی کوئی روایت ہی نہ ہو، وہاں اپنی نوکری اور بیوی بچوں کے مستقبل کی قربانی کیوں کر دی جائے؟ جب مرنے والے اہل علاقہ کے لیے بھی صرف ایک اسکور ہوں تو کیوں دہشت گردوں کو پکڑنے کےلیے اپنی جان خطرے میں ڈالی جائے اور بعد میں نوکری سے برخاست ہونے اور سزا پانے کے ساتھ اپنے بیوی بچوں کو سڑک پر لانے کا خود ہی وسیلہ بنیں؟ یہ سب پاگل پن، بیوقوفی اور حماقت نہیں تو اور کیا ہوسکتی ہے۔ لیکن افسوس کہ ہر طرح کے نتائج سے بے پرواہ ہوکر اپنے عہد کو نبھانے کےلیے رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے سبھی ادارے اس پاگل پن میں پڑے رہے۔ ایسی ہی بیوقوفیاں اور حماقتیں کرتے رہے۔
یہ سب یاد آنے کی وجہ موجودہ وفاقی حکومت کے کورونا کے خلاف کیے جانے والے اقدامات ہیں۔ ملک کی ستانوے فیصد آبادی اس بات پر متفق ہے کہ کورونا نام کی کوئی بیماری نہیں ہے بلکہ یہ عالمی میڈیا کا ہائی لائٹ کیا ہوا ایجنڈا ہے۔ یہ ایک امریکی سازش ہے، جس کے ذریعے وہ چین کی معیشت کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔ اور کورونا تو صرف حرام یعنی ڈڈو، چمگاڈر اور سانپ وغیرہ کھانے سے ہوتا ہے۔ ان لوگوں کے مطابق حکومت غیر ملکی امداد کے لالچ میں کورونا کا شور مچا رہی ہے۔ حکومت کو ایک لاش کے عوض تین ہزار پانچ سو ڈالر ملتے ہیں جس کی وجہ سے حکومت نے تمام ڈاکٹروں کو اس بات کا پابند کیا ہوا ہے کہ کسی بھی دوسرے مرض میں کسی کو مرنے نہ دیا جائے بلکہ سبھی اموات کورونا کے کھاتے میں ڈالی جائیں تاکہ حکومت خوب غیر ملکی امداد حاصل کرسکے۔
اس ذہنیت کی تصدیق گھروں اور بازاروں میں ہر جگہ مل جاتی ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے کتنا فاصلہ رکھ کر ملتے ہیں اور ماسک پہنے کتنے لوگ نظر آتے ہیں؟ یہاں لوگ پیسے دے کر نیگیٹو رپورٹ لے رہے ہیں۔ کسی کو اگر قرنطینہ سینٹر میں لے جایا جاتا ہے تو وہ پچھلی دیوار پھلانگ کر راہ فرار اختیار کر رہا ہے۔ قرنطینہ کے نام پر پوری دنیا میں پرامن مشہور تبلیغی جماعت والے بھی چاقو نکال لیتے ہیں اور سیکیورٹی والوں پر حملہ کر دیتے ہیں۔ پہلے گلی محلے میں صرف کرکٹ کھیلی جاتی تھی، اب سوشل میڈیا پر لائیو دکھانے سے کم پر کوئی کھیلنے کو راضی ہی نہیں ہوتا۔ حکومتی جاری کردہ ایس او پیز والے کاغذوں پر کوئی اب پکوڑے بھی نہیں بیچتا، تو پھر سوال یہ ہے کہ حکومت آخر اپنے عوام سے متفق کیوں نہیں ہوجاتی کہ کورونا شورونا کچھ نہیں ہے۔ خوامخواہ میں حکومت اربوں روپے کے وسائل ضائع کر رہی ہے اور قرنطینہ سینٹر اور آئسولیشن سینٹر بنائے جارہی ہے۔ پہلے کاروباری زندگی بند کرکے پھر اربوں روپے کے فنڈز جاری کرکے ہر گھرانے کو بارہ ہزار روپے دے رہی ہے۔
خوامخواہ ہی پورے ملک کے ڈاکٹروں اور نرسوں کی دوڑیں لگوائی ہوئی ہیں اور ان بے چاروں کی زندگیوں کو بھی خطرے میں ڈالا ہوا ہے۔ خوامخواہ ہی پورے ملک کی لیباریٹریوں پر کام کا دباؤ دس گنا سے بھی زیادہ کردیا گیا ہے۔ پولیس اور سیکیورٹی کے دوسرے اداروں کے کام میں بھی یہ فضول اضافہ کردیا ہے کہ اب وہ کورونا کے پوشیدہ مریضوں کو بھی تلاش کریں اور قرنطینہ سینٹروں پر اضافی ڈیوٹیاں بھی دیں، جس کے ساتھ عوام کی مزید گالیاں بھی سننے کو ملتی ہیں۔
جب لوگ سامنے پڑی اپنے پیاروں کی لاشوں کو دیکھ کر بھی یہ قبول کرنے کو تیار نہیں کہ کورونا نامی کوئی بیماری یا وبا ہے تو پھر آخر حکومت اپنا فلاپ شو بند کیوں نہیں کردیتی؟ جب ایک شخص خود کہہ رہا ہے کہ کورونا نہیں ہے لیکن پولیس کے ذریعے زبردستی اسے قرنطینہ میں جمع کروایا جارہا ہے کہ بھئی کورونا ہے، ہے اور بالکل ہے۔
کسی عقل مند کو یہ باور کروایا جاسکتا ہے کہ اسے بے وقوف بنایا گیا تھا لیکن ایک بے وقوف کو کیسے قائل کیا جائے کہ اسے کوئی بے وقوف بنا گیا ہے۔ یہی بات حکومت کو سمجھ میں نہیں آرہی کہ وہ زبردستی سے اس عوام کو قائل نہیں کرسکتی کہ کورونا ہے۔
مختصر بات یہی ہے کہ حکومت ملتے ہی اگلے الیکشن کی تیاری شروع کردی جاتی ہے، کیونکہ پاکستان میں اگلا الیکشن کسی بھی وقت ہونے کے امکانات ہمیشہ روشن رہتے ہیں، لیکن موجودہ حکومت نے ابھی تک کوئی موٹر وے نہیں بنایا، کسی اسپتال، کالج اور یونیورسٹی کا ڈھانچہ کھڑا نہیں کیا۔ کہیں جلسے جلوس نہیں کیے اور نہ ہی نوکریاں کھول کر ہر ایم این اے اور اہم پی اے کو کوٹہ دیا ہے کہ وہ اپنے حلقے سے کیے ہوئے دیرینہ وعدے پورے کرسکے۔ نہ پکی گلیوں کو اور پکا کرنے کی طرف کسی کی توجہ ہے اور نہ بنی بنائی سڑکوں کو کھود کر ترقیاتی کاموں کا بورڈ لگایا ہے۔
کورونا یعنی امریکی لیباریٹریوں میں تیار کی گئی سازش کا حصہ بن کر پورا ملک الگ بند کیا ہوا ہے۔ عوامی ریلیف کے نام پر جو اربوں روپے لوگوں میں بانٹے جارہے ہیں وہ تو صبح کھائے اور شام تک نالیوں کا حصہ بن جائیں گے، الیکشن میں دکھانے کو ان کے پاس کیا ہوگا۔ حکومت نے رینجرز والوں سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا اور خدمت کرنے کے ساتھ گالیاں کھانے کو بھی ہر دم تیار نظر آرہی ہے۔ اسے یہ بات نہیں پتہ کہ عوامی خدمت کا انجام آخرکار کیا ہوتا ہے۔
شاعر ہوں، ادیب ہوں، مفت مریض دیکھنے والے ڈاکٹر ہوں، ٹیوشن نہ پڑھانے والے استاد ہوں، پانی بچانے والے واٹر مینجمنٹ والے اہلکار ہوں، جھوٹی اور سنسنی خیز خبروں سے پرہیز کرنے والے صحافی ہوں، قومی زبان میں لوگوں کے اندر سائنس اور ٹیکنالوجی کا شعور اجاگر کرنے کے رسائل نکالنے والے ہوں، رشوت نہ لینے والے سرکاری اہلکار ہوں، مقدمات میں پارٹیوں سے سازباز نہ کرنے والے وکیل اور جج ہوں، جعلی کاغذات کی تصدیق سے انکار کرنے والے نوٹری پبلک والے ہوں، ٹائر میں اضافی پنکچر نہ بتانے والے سائیکل میکنک ہوں، ایمانداری سے مزدوری کرنے والے دیہاڑی دار مزدور ہوں۔ سبھی آخر میں بھوکے اور بے نام و نشان مرتے ہیں۔ لوگ ان سب کو بے وقوف اور احمق کہتے ہیں اور ایک دوسرے کو اشاروں میں بتاتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کو زمانے کے ساتھ چلنے کا ڈھنگ نہیں آیا۔
اور افسوس کہ ہماری موجودہ حکومت بھی کچھ ایسے ہی لوگوں پر مشتمل ہے جو خوامخواہ عوامی خدمت کے پیچھے پڑی ہوئی ہے، جبکہ عوام ایسی کسی خدمت سے راضی نہیں ہوتے۔ واقعی ناسمجھ بندہ ہمارا حکمران بن بیٹھا ہے اور یہ حکومت بے وقوفوں کا ٹولہ ہے جنہیں ابھی تک حکومت کرنے کا ڈھنگ نہیں آیا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔