اپنے بچوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر نظر رکھیے۔ اگر آپ کے بچے، بیٹے یا بیٹی کے پاس اپنا علیحدہ موبائل فون موجود ہے تو اسے باقاعدگی کے ساتھ چیک کرتے رہیے۔ ایسا کرنا اس لیے ضروری نہیں کہ اپنے بچے پر اعتماد نہ کریں بلکہ اس لیے ضروری ہے کہ بچہ سوشل میڈیا کے استعمال میں کوئی بے احتیاطی نہ کر بیٹھے۔ میرے ذاتی مشاہدے میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے اپنے بچوں کو آزادی کے ساتھ موبائل فون کے استعمال کی اجازت دے رکھی ہے اور وہ اپنے بچوں کے فون کو ہاتھ تک نہیں لگاتے۔ بچے کیا کرتے ہیں، کیا دیکھتے ہیں؟ انہیں اس بات کی بھی پرواہ نہیں۔
یاد رکھیے اتنی لاپروائی اور بے احتیاطی کل کو کسی ندامت اور شرمندگی کا باعث بن سکتی ہے۔ اپنے بچوں پر اعتماد ضرور کیجیے مگر چیک اینڈ بیلنس کا عمل بالکل ختم مت کیجیے۔ بلکہ دوستانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے بچوں کے موبائل اور خاص کر سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر خاص نظر رکھیے۔ انہوں نے کیا پوسٹ کیا ہے؟ کیسے کمنٹس آئے ہیں؟ ان کمنٹس کے کیا جوابات دیے گئے ہیں؟ یہ سب باتیں بظاہر چھوٹی معلوم ہوں گی مگر یقین کیجیے اس سے آپ کےلیے بہت آسانی ہوجائے گی۔ بچے کو اچھا کھلانا پلانا اور پڑھانا ہی ضروری نہیں، بلکہ آج کل بچوں کے سوشل میل ملاپ پر نظر رکھنا بھی بہت ضروری ہے۔
بچوں کی طرف سے اس لاپروائی کا شکار وہ والدین زیادہ تعداد میں ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے بچوں کو مکمل ازادی دی ہوئی ہے، کیونکہ ہمیں ان پر پورا اعتماد ہے۔ ٹھیک بات ہے آزادی بھی دیجیے اور اعتماد بھی کیجیے۔ مگر یہ ضرور یاد رکھیے کہ انٹرنیٹ کی دنیا اور سوشل میڈیا کا جنگل بہت بے لگام ہے۔ یہاں پر اپنی مرضی نہیں چلتی، بلکہ ایک سمندر بہہ رہا ہے جس میں تیر کر اپنے آپ کو صحیح سلامت کنارے پہنچانا بہت مشکل ہے۔
ایسے حالات میں بچوں کو بے راہ روی کا شکار ہونے سے بچانا بہت کٹھن امر ہے۔ اس سلسلے میں جو عملی اقدامات والدین کرسکتے ہیں وہ کوئی اور نہیں کرسکتا۔ بچوں کو وقت دیجئے۔ ان کے تعلیمی اور نجی معاملات پر نظر رکھیے۔ دوستوں سے میل ملاپ اور گیدرنگز میں شرکت پر خاص نظر رکھیے کہ کون ملنے آیا ہے، کس سے ملنے جانا ہے اور جو دوستوں کا سرکل ہے اس میں کیسے لوگ شامل ہیں۔ اس بات کی پرواہ کیجئے، چاہے بیٹا ہو یا بیٹی، دونوں کےلیے بیان کیے گئے اصول پر کاربند رہیے۔ آپ کو پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
یاد رکھیے اچھی تربیت آپ کا شرعی فرض بھی ہے اور آپ ہی سے اس بارے پوچھا جائے گا۔ دنیاوی ندامت اور اخروی پریشانی سے بچنے کےلیے چیک اینڈ بیلنس رکھنا سیکھیے۔ بچوں کی طرف سے لاپرواہ مت ہوں، یہ آپ کا سرمایہ ہیں۔ بچے اگر کسی غلط کمپنی یا غلط سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ہاتھ چڑھ کر خود کو تباہ کریں گے تو اس کا سب سے زیادہ نقصان آپ ہی کو ہوگا۔ حد سے زیادہ لاڈ اور توجہ ہمیشہ بگاڑ لاتی ہے، توازن ضروری ہے اور یہی قانونِ فطرت بھی ہے۔
بچے اپنے مستقبل سے لاپرواہ ہوسکتے ہیں لیکن آپ کے پاس غلطی کی گنجائش موجود نہیں۔ آپ روزانہ خبروں میں دیکھتے ہوں گے کتنے ہی واقعات ایسے ہیں جن میں سوشل میڈیا سے شروع ہونے والا پاک صاف تعلق بعد میں ذلت و رسوائی کا باعث بنتا ہے۔ یہ سب اسی لاپرواہی اور عدم توجہی کی کارستانی ہے۔ اُن بچوں کے والدین نے بھی اپنے بچوں کو ہر شے کی آزادی دے رکھی ہوتی ہے، کسی بات کی روک ٹوک نہیں ہوتی اور پوچھنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ والدین بچوں کو آزادی دے کر خوشی محسوس کرتے ہیں اور پھر جب ایسا کوئی تباہ کن واقعہ رونما ہوجاتا ہے تو اُسی اولاد کو کوستے ہیں۔
میں یہاں قصوروار والدین کو ہی کہوں گا۔ انہی کا فرض ہے اور انہی کی ذمے داری۔ اگر بچہ پیار سے نہیں مانتا تو سختی کیجیے۔ لیکن بالکل آزاد مت کیجیے۔ بچے کو اتنی پرائیویسی مت دیجئے کہ آپ کو ان کا موبائل اٹھانے پر پاسورڈ لگانے کا کہا جائے اور وہ پاسورڈ ہی آپ کو معلوم نہ ہو۔ میرا یہ سوال ہے کہ آخر ایسی کیا پرائیویسی اور نجی معاملات ہیں جو بچے اپنے والدین کے ساتھ شئیر نہیں کرسکتے؟ والدین کیوں بلاجھجھک اپنے بچوں کے موبائل کو ہاتھ نہیں لگا سکتے؟
آپ نے بھی مشاہدہ کیا ہوگا کہ والدین کے پاس اکثر بٹنوں والا بوسیدہ موبائل فون ہوتا ہے اور بچوں کے پاس بڑ ے سے بڑا ٹچ اسکرین موبائل۔ آخر ایسی کون سی بزنس میٹنگز اور ڈیلز کرنی ہوتی ہیں ان بچوں نے جو اتنے بیش قیمت موبائل لے کر دیے جاتے ہیں؟ ہمارے وقتوں میں جب بچے یا بچی کی کلاس میں کوئی پوزیشن آتی تھی تو اسے سائیکل اور کتابوں جیسے تحفے دیے جاتے تھے، مگر اب تو بات ہی موبائل سے شروع ہوتی ہے۔ جب تک بڑے برانڈ کا موبائل نہ لے کر دیا جائے بچے کی بھوک ہڑتال ختم نہیں ہوتی۔ ایسے بگاڑ کی تمام تر ذمے داری والدین پر عائد ہوتی ہے جو نفع و نقصان کی پرواہ کیے بنا بچوں کی ہر جائز ناجائز ضرورت پوری کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ والدین اپنی ذمے داری کو پہچانیں۔ اس ذمے داری سے فرار تباہی کو جاتا راستہ ہے۔ بچوں کو سنبھالیے، اس سے پہلے کہ کوئی آکر آپ کو سنبھالے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔