غیر ذمہ دار عوامی رویہ، کورونا وباء کا پھیلاؤ خطرناک حد تک بڑھ گیا

عامر خان  بدھ 11 نومبر 2020
غیر ذمہ دارانہ رویوں کے باعث ملک بھر کی طرح صوبہ سندھ میں یہ خطرناک مرض ایک مرتبہ پھرتیزی کے ساتھ پھیلنا شروع ہوگیاہے۔فوٹو : فائل

غیر ذمہ دارانہ رویوں کے باعث ملک بھر کی طرح صوبہ سندھ میں یہ خطرناک مرض ایک مرتبہ پھرتیزی کے ساتھ پھیلنا شروع ہوگیاہے۔فوٹو : فائل

 کراچی:  کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے طبی ماہرین جن خدشات کا اظہار کر رہے تھے اب وہ حقیقت بن کے سامنے آگئے ہیں۔ عوام کے غیر ذمہ دارانہ رویوں کے باعث ملک بھر کی طرح صوبہ سندھ میں یہ خطرناک مرض ایک مرتبہ پھر تیزی کے ساتھ پھیلنا شروع ہوگیا ہے۔

محکمہ صحت سندھ کا کہنا ہے کہ صوبے میں کورونا کیسز کی شرح 4 فیصد سے بڑھ گئی ہے۔ لوگوں نے احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی تو شرح میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔اس صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے محکمہ داخہ سندھ نے بھی الرٹ جاری کردیا ہے۔ محکمہ داخلہ کے جاری کردہ حکم نامے کے مطابق سندھ بھر میں ہر عوامی مقام پر ایک بار پھر ماسک کا استعمال لازمی قرار دیا گیا ہے جبکہ معمر اور دائمی امراض میں مبتلا افراد کے لئے خصوصی اقدامات کی ہدایت کی گئی ہے۔

نئے حکم نامے میں ہدایت کی گئی ہے کہ کورونا کیسز میں اضافے کے خدشے کے پیش نظر کسی بھی مقام پر اجتماع لگانے اور سماجی میل جول سے گریز کیا جائے، ملازمت کی نجی و سرکاری، کاروباری اور صنعتی جگہ پر ایس اوپیز کی خلاف ورزی کی صورت میں مالکان اور متعلقہ مینجرز ذمہ دار ہوں گے، تین فٹ سے کم فاصلے پر سفر کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے جبکہ غیر ضروری طور پر سفر کرنا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔

محکمہ داخلہ کے حکم نامے کے مطابق کار میں دو سے زائد افراد کے سفر پر پابندی عائد کی گئی ہے تیسرا فرد اس صورت میں سفر کر سکتا ہے کہ جب کسی بیمار شخص کو ہسپتال وغیرہ لے جایا جا رہا ہو ۔55 سال سے زائد عمر کے افراد کو دفاتر میں کام کے لیے بلانے پر پابندی ہوگی، صرف ضروری اسٹاف کو دفاتر میں بلایا جائے جبکہ آن لائن کام کو ترجیح دی جائے۔ محکمہ داخلہ سندھ کے حکم نامے کے مطابق کسی بھی کام کی جگہ پر محکمہ صحت کسی بھی وقت کورونا ٹیسٹنگ کر سکے گا۔

وزیراعلیٰ سندھ نے بھی بگڑتی ہوئی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام اداروں بشمول کاروباری، سماجی، مذہبی، تعلیمی اداروں کو معیاری آپریشنل طریقہ کار(ایس او پیز) پر سختی سے عملدرآمد کرنے کی ہدایت کی ہے اور عمل نہ کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کا حکم دیا ہے۔ ادھر شادی ہال ایسوسی ایشن نے بیس نومبر سے شادی ہال بند کرنے کے حکومتی فیصلے کو مسترد کردیا ہے، ایسوسی ایشن کے صدر رانا رئیس کے مطابق شادی ہال مالکان کو بلاجواز تنگ کیا جا رہا ہے،کورونا ایس او پیز پر عمل کرنے کے باوجود ہمیں ہراساں کیا جاتا ہے۔

انھوں نے شہر میں مختلف شادی ہالز کو سیل کرنے کے عمل کو بھی افسوسناک قرار دیا ہے۔اس ضمن میں طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ خدشات پہلے سے موجود تھے کہ کورونا وائرس کی دوسری وبا سے معمولات زندگی ایک مرتبہ پھر متاثر ہو سکتے ہیں۔ وائرس کے پھیلاؤ میں کمی سے لوگوں نے یہ سمجھا کہ اس کا خاتمہ ہوگیا ہے اور انہوںنے احتیاطی تدابیر سے دوری اختیار کر لی جس کی وجہ سے آج ہم ایک مرتبہ پھر مشکل حالات کا شکار ہو رہے ہیں۔ان ماہرین کا کہنا ہے کہ جس تیزی کے ساتھ وائرس کے پھیلاؤ میں اضافہ ہو رہا ہے وہ تشویشناک ہے۔

موسم سرما کی وجہ سے بھی یہ مرض شدت اختیار کرے گا۔ اگر لوگوں نے حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایس او پیز پر عملدرآمد نہیں کیا تو صورت حال انتہائی گھمبیر ہو سکتی ہے۔ طبی ماہرین نے ماسک کے استعمال کو لازمی قرار دیتے ہوئے کہا یہ اس مرض کے روک تھام میں ایک بڑی ڈھال ہے۔ حکومت کا ماسک نہ پہننے والوں پر جرمانہ عائد کرنے کا فیصلہ درست ہے۔اس پابندی پر سختی سے عملدرآمد کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں کمی کا باعث بن سکتا ہے۔پاک سرزمین پارٹی نے کراچی کے باغ جناح میں جلسے کا انعقاد کیا، جسے حاضری کے لحاظ سے کامیاب شو قرار دیا جا سکتا ہے۔

پارٹی کے چیئرمین مصطفی کمال نے اپنے خطاب میں وفاقی اور سندھ حکومت دونوں کو بھرپور تنقید کا نشانہ بنایا۔ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم ابھی تک الیکشن مہم سے باہر نہیں نکلے، وہ ایک طرف ملک میں جمہوریت کی بات کرتے ہیں مگردوسری طرف اپوزیشن جماعتوں سے بات کرنے کوتیار نہیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کراچی والوں پر ملازمتوں کے دروازے بند ہیں،انقلاب کے ڈرامے نہیں چلیں گے اب کراچی حساب لے گا۔

ادھر وزیراطلاعات سندھ ناصر حسین شاہ نے اپنے ٹوئیٹ میں مصطفی کمال کو بابائے چائنا کٹنگ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اب دودھ سے دھلنے کی باتیں کر رہے ہیں۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ انتخابات میں ناکامی کے بعد پی ایس پی عوام میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور یہ جلسہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ پی ایس پی کی نظریں آئندہ آنے والے بلدیاتی انتخابات پر ہیں۔ وہ اس طرح کے اجتماعات منعقد کرکے نہ صرف اپنے کارکنوں کو متحرک کررہی ہے بلکہ سیاسی افق پر اپنی موجودگی کا بھی احساس دلانا چاہتی ہے۔

سندھ کے شہری علاقوں میں کئی دہائیوں تک راج کرنے والی ایم کیو ایم پاکستان نے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے ناراض اور خاموش رہنماؤں کو فعال کرنے کی کوششوں کا آغاز کردیا ہے۔ اس ضمن میں پارٹی کے انتہائی اہم رہنما حیدر عباس رضوی وطن واپس پہنچ چکے ہیں جبکہ عادل صدیقی کے بھی لوٹ آئے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ دوسری جماعتوں میں شمولیت اختیار کرنے والے کچھ رہنما بھی جلد ایم کیو ایم پاکستان میں واپسی کا اعلان کر سکتے ہیں۔

آرزو فاطمہ اغوا کیس میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔ 5 رکنی میڈیکل بورڈ نے آرزو کی عمر 14 سے 15 سال قرا دے دی،جس کے بعد سندھ ہائی کورٹ نے آرزو فاطمہ کو شیلٹر ہوم بھیجنے کا حکم دے دیا۔دوران سماعت عدالت نے آرزو سے پھر استفسار کیا آپ پر کوئی دبائو تو نہیں؟ آرزو نے بیان دیا کہ نہیں مجھ پر کوئی دبائو نہیں اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا اور شادی کی۔ عدالت نے تفتیشی افسر کو چائلڈ میرج ایکٹ کی روشنی میں تحقیقات کا بھی حکم دیا ہے۔آرزو فاطمہ کا کیس عدالت میں موجود ہے۔ یقیناً عدالت نے تمام شواہد کو مدنظر رکھتے ہوئے اس حوالے سے اپنا فیصلہ جاری کرے گی۔ تمام حلقوں کو یہ چاہیے کہ وہ اس معاملے کو کوئی دوسرا رخ دینے کی کوشش نہ کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔