شوگر: وجوہات، اثرات اور پیچیدگیاں

ڈاکٹر محمد ارشد صدیقی  جمعرات 12 نومبر 2020
چند سال قبل تک یہ شرح ہر 30 سیکنڈز تھی جو اب 20 سیکنڈز ہو چکی ہے۔ فوٹو: فائل

چند سال قبل تک یہ شرح ہر 30 سیکنڈز تھی جو اب 20 سیکنڈز ہو چکی ہے۔ فوٹو: فائل

محمد اکرم کے چہرے سے پریشانی اور خوف کے تاثرات عیاں تھے۔ زندگی سے بیزاری اور غربت کے بھیانک احساس نے اُسے بے بس اور مجبور کر دیا تھا۔

تین بچوں کا باپ، کرائے کے گھر پر رہائش پذیر اندرون لاہور کا ایک مزدور، شوگر کی وجہ سے پاؤں پر بننے والے زخم (Ulcer) کے باعث میوہسپتال کے ڈائبیٹیز اینڈ فٹ کیئرکلینک (DFC) میں سرجھکائے ایک کونے میں بیٹھا تھا۔

’’ڈاکٹر صاحب! زخم سے میں تھک چکا ہوں ۔ گزشتہ چھ ماہ سے مختلف ہسپتال، کلینک اور ڈاکٹروں سے علاج کے باوجود زخم ٹھیک نہیں ہوا۔ خدارا! اس کا علاج کریں تاکہ میں گھر کا خرچ اُٹھا سکوں۔‘‘

آنکھوں میں آنسو، لہجے میں تھکاوٹ اور مزاج میں مایوسی واضح طور پر نمایاں تھی۔ چھ ماہ میں زخم اس قدر گہرا اور خراب ہو چکا تھا کہ اگر فوری طور پر اس کی ٹانگ نہ کاٹی جاتی تو یہ تعفن (Septicemia) اس کی جان لے سکتا تھا۔

یہ کہانی صرف اکرم کی نہیں بلکہ دنیا میں ہر 20 سیکنڈز کے بعد کسی اور جگہ پر انہی حالات و واقعات کی وجہ سے شوگر کے باعث ایک مریض اپنی ٹانگ ضائع کر دیتا ہے۔ یاد رہے کہ چند سال قبل تک یہ شرح ہر 30 سیکنڈز تھی جو اب 20 سیکنڈز ہو چکی ہے۔

14 نومبر کو ہر سال عالمی دن برائے شوگر منایا جاتا ہے، جس کا مقصد جہاں ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر ہیلتھ کیئر پروفیشنلز کی شوگر کے علاج کے حوالے سے مہارت کو بڑھانا ہے، وہاں عوام میں شوگر کے مرض کی وجوہات، اقسام، طریقہ ہائے پرہیز ،علاج اور اس کی وجہ سے جنم لینے والی پیچیدگیوں (Complications) کو رفع کرنا بھی ہے۔

شوگر کی بنیادی طور پر تین اقسام ہیں

1۔ T1DM(Type 1 Diabetes Mellitus)

یہ قسم عام طور پر بچوں میں پائی جاتی ہے۔ شوگر کے کل مریضوں میں اس کی شرح 5سے 10فیصد ہوتی ہے۔ اس کا دنیا بھر میں علاج کے دسیتاب طریقوں میں سوائے انسولین کے کوئی موثر اور دیر پاعلاج نہیں۔

2۔ T2 DM(Type 2 Diabetes Mellitus)

یہ عام طور پر بڑوں میں پائی جاتی ہے۔ اس کے وجوہات میں خاندانی/ موروثی اثرات کے ساتھ موٹاپا بھی شامل ہے۔ شوگر کے کل مریضوں میں اس کی شرح 90سے95فیصد ہوتی ہے۔ گولیوں کے ساتھ انسولین بھی اس کے علاج میں شامل ہے۔

3۔ GDM  (Gestational Diabetes Mellitus)

یہ حاملہ خواتین میں پائی جاتی ہے۔ حاملہ خواتین میں اس کی شرح 10فیصد ہوتی ہے۔

انتہائی دلچسپ اور قابل عمل بات یہ ہے کہ T2DM مریضوں میں سے کم وبیش 90 فیصد مریض ایسے ہوتے ہیں کہ جن کی شوگر، ہفتے میں پانچ دن موثر ورزش، صحت مند متوازن خوراک اور مناسب وزن اختیار کرنے سے مکمل طور پر ختم ہو سکتی ہے۔ یاد رہے کہ 2015ء تک یہ شرح 80 فیصد تھی جو کہ اب بڑھ کر 90 فیصد ہو چکی ہے۔

دوسرے نیشنل ڈائبیٹیز سروے آف پاکستان (2nd National Diabetes Survey of Pakistan) منعقدہ 2016-17 ء کے مطابق پاکستان میں شوگر کے مریضوں کی شرح تقریباً 27 فیصد ہے، جن میں سے تقریباً 20 فیصد اپنے مرض کے بارے میں علم رکھتے ہیں جب کہ 7 فیصد شوگر کے مرض میں مبتلا ہونے کے باوجود لاعلم ہیں، مزید برآں پاکستان میں Pre-Diabetes کی شرح تقریباً 15 فیصد ہے اور یہ وہ افراد ہیں جو بداحتیاطی اور لاعلمی کے باعث اگلے تین سے پانچ سالوں میں شوگر کے مرض میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔

شوگر کی وجہ سے جسم کا کوئی عضو (Organ) اور حصہ (Tissue)ایسا نہیں ہوتا کہ جو اس کی (Complication) یعنی پیچیدگی سے محفوظ رہے بہت سی (Complications) کے ساتھ پاؤں میں ہونے والی Diabetic Foot Disease پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس کی شدت (Morbidity) بہت زیادہ ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان بھر میں سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر Diabetes  کی وجہ سے ہونے والی پاؤں کی complication کا علاج کرنے کے لیے فٹ کیئر کلینکس (Foot Care Clinics)  نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چند سال قبل تک ہر 30 سیکنڈ کے بعد شوگر کی وجہ سے جو ٹانگ کاٹی جا رہی تھی اب بڑھ کر 20 سیکنڈ ہو چکی ہے۔ اس complication کا علاج کرنے کے لیے ہمیں حکومتی سطح پر موثر ترجیحی پالیسی سازی کی ضرورت ہے۔

صحت کے پالیسی ساز اداروں کو درج ذیل اقدامات فوری طور پر کرنے کی ضرورت ہے۔

۱۔عوام اور اداروں میں شوگر کے حوالے سے آگاہی دینے کے لیے مہمات (Campaigns) کا آغاز

۲۔الیکٹرونک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کا استعمال

۳۔ہیلتھ کیئر پروفیشنلز (Healthcare Professionals) جن میں پیرا میڈکس اور ڈاکٹرز شامل ہیں، ان کی پیشہ وارانہ مہارت میں اضافہ (Capacity Building)کرنے کے لیے ورکشاپس کا انعقاد

۴۔ ہر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر (DHQ) کی سطح پر ڈائبیٹیز اینڈ فٹ کیئر کلینکس کا انعقاد ہونا چاہیے۔

(انچارج ڈائبیٹز اینڈ فٹ کیئر کلینک، میو ہسپتال، لاہور)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔