پی ڈی ایم جلسہ کرنے میں کامیاب، مگر بڑا پاور شو نہ ہو سکا

شاہد حمید  بدھ 25 نومبر 2020
لوگوں میں یہ خوف پایا جا رہا تھا کہ کہیں جلسہ میں جانے سے انھیں یہ مرض نہ لاحق ہوجائے۔

لوگوں میں یہ خوف پایا جا رہا تھا کہ کہیں جلسہ میں جانے سے انھیں یہ مرض نہ لاحق ہوجائے۔

 پشاور:  پاکستان جمہوری تحریک پشاورمیں جلسہ کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔

گوکہ مذکورہ جلسہ کے حوالے سے جو کچھ ہو رہا تھا اس کے تناظر میں ایسا لگ رہا تھا کہ پی ڈی ایم پشاور میں جلسہ شاید نہ کر پائے تاہم پی ڈی ایم نے کسی بھی قسم کا دباؤ لیے بغیر اپنا پورا فوکس پشاور میں جلسہ کے انعقاد پر رکھا اور جلسہ کر دکھایا لیکن یہ جلسہ اس طرح ثابت نہ ہو سکا جس کی توقع کی جا رہی تھی اور پھر خصوصی طور پر اس جلسہ کا موازنہ جمعیت علماء اسلام کی جانب سے ستمبر کے مہینہ میں پشاورمیں منعقد کی جانے والی ختم نبوت کانفرنس سے کیا جا رہا تھا تاہم مذکورہ ختم نبوت کانفرنس یقینی طور پر جے یوآئی کا ایک بہت بڑا شو تھا جس کے مقابلے میں پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں مل کر بھی اس جلسے کا ریکارڈتو توڑناتو ایک طرف اس کا مقابلہ بھی نہ کر سکیں جس کی وجوہات بہت سی ہوسکتی ہیں۔

تاہم یقینی طور پر ایک بڑی وجہ کورونا کی جاری دوسری لہر ہے کیونکہ لوگوں میں یہ خوف پایا جا رہا تھا کہ کہیں جلسہ میں جانے سے انھیں یہ مرض نہ لاحق ہوجائے۔ جہاں پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے جلسہ کے لیے اجازت نامہ جاری نہ کرتے ہوئے جلسہ کی راہ میں رکاوٹوں کی پہلی اینٹ رکھی وہیں پر ٹریفک کے حوالے سے جو پلان تشکیل دیا گیا تھا وہ بھی کچھ اس انداز میں تھا کہ کسی نہ کسی طرح جلسہ کی راہ میں رکاوٹیں آتی رہیں اور پھر رہی سہی کسر جلسہ گاہ اور اس کے اردگرد کے علاقہ میں موبائل فون اور نیٹ سروس کی بندش نے پوری کردی جس کی وجہ سے مسلم لیگی رہنما مریم نواز کو ان کی دادی کے انتقال کی خبر بھی تاخیر سے مل پائی۔

تاہم چونکہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور اس میں شامل دیگر جماعتیں جلسہ کے انعقاد کے حوالے سے یکسو تھیں اور انہوں نے یہ فیصلہ کر رکھاتھا کہ کسی بھی صورت پشاور میں جلسہ ملتوی نہیں کیا جائے گا اس لیے مذکورہ جلسہ ہوا اور اب پی ڈی ایم کا اگلا پڑاؤ ملتان میں ہوگا جبکہ اس سے قبل مولانافضل الرحمن اپنی پارٹی کا اگلا جلسہ لاڑکانہ میں کرنے جا رہے ہیں اور پی ڈی ایم اپنے شیڈول میں کسی قسم کی تبدیلی کرتی نظر نہیں آرہی یہی وجہ ہے کہ ملک میں مکمل لاک ڈاؤن کی باتیں شروع ہوگئی ہیں۔

مولانافضل الرحمن نے واضح کر دیا ہے کہ حکومت کے خلاف جنگ شروع ہے اور اب اس جنگ سے واپسی ممکن نہیں جبکہ ساتھ ہی پشاور جلسہ اور اس سے پہلے جلسوں میں ریاستی اداروں کے خلاف بھی کھل کر بات شروع ہوگئی ہے جو اس اعتبار سے خطرناک ہے کہ اس سے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھیں گے اور اس صورت حال میں ریاستی اداروں کو بہرکیف اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا کیونکہ ملتان کے بعد لاہور اور لاہور جلسہ کے بعد اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ اور اس کے بعد پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں اگر اسمبلیوں سے استعفوں کی طرف جاتی ہیں تو اس سے حالات اتنے ہموار نہیں رہیں گے کہ ان میں ان تمام خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات کا انعقاد کرایا جا سکے۔

ریاسی اداروں کے ساتھ حکومت کو بھی اپنے لب ولہجہ میں تبدیلی لانی ہوگی تاکہ حالات کو کنٹرول کیا جا سکے اور ماضی کی طرح غلطیوں کا اعادہ نہ کیا جائے اور انہی سطور میں اس سے پہلے بھی عرض کی گئی تھی کہ صدر مملکت کو اس موقع پر سربراہ ریاست کے طور پر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے ان پر حالات کو کنٹرول میں رکھنے کی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔

پشاورجلسہ تو ہو چکا لیکن یہ اپنے پیچھے نشانات چھوڑ گیا ہے، اس جلسہ کے انعقاد کے حوالے سے حکومت دباؤکا شکار نظرآئی، مرکزی اور صوبائی دونوں حکومتیں مسلسل کورونا کو بنیاد بناتے ہوئے پورا زور لگا رہی تھیں کہ پشاور میں جلسہ کا انعقاد نہ کیا جائے لیکن جلسہ کو رکوانے کے لیے جو طریقہ کار اختیار کیا گیا۔

وہ کسی بھی طور مناسب نہیں تھا، اگر صوبائی حکومت اس بات کی خواہاں تھی کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں کورونا کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر پشاورمیں جلسہ نہ کریں تو اس کے لیے مرکز میں وزیراعظم عمران خان کو پی ڈی ایم کے مرکزی قائدین کو مذاکرات کے لیے بلانا چاہیے تھا اور ان کے سامنے تمام تر صورت حال پیش کرتے ہوئے انھیں جلسہ کا انعقاد نہ کرنے کے لیے کہنا چاہیے تھا تاہم مرکز میں ایسا نہ ہو سکا اور خیبر پختونخوا میں بھی جہاں یہ کام وزیراعلیٰ محمودخان کو اپوزیشن جماعتوں کے صوبائی سربراہوں سے رابطہ کرتے ہوئے کرنا چاہیے تھا، انہوں نے یہ کام وزراء کے حوالے کرتے ہوئے بال اپوزیشن کے کورٹ میں پھینکنے کی کوشش کی۔

تاہم ایسا ہو نہیں سکا۔پی ڈی ایم جلسہ کا انعقاد کوئی پارلیمانی ایشو نہیں تھا کہ صوبائی وزرا کی جانب سے سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی قائدین کو اسمبلی میں مذاکرات کے لیے بلایا گیا، یہ قومی نوعیت کا ایشو تھا جس کی حساسیت کو مد نظر رکھتے ہوئے وزیراعلیٰ محمود خان کو اپنی دیگر مصروفیات کو ترک کرتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کے صوبائی قائدین کو مذاکرات کے لیے بلانا چاہیے تھا اور اس ملاقات میں ان کے سامنے محکمہ صحت کی جانب سے مرتب کردہ اعدادوشمار پیش کرتے ہوئے انھیں جلسہ نہ کرنے کے لیے کہا جاتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور نہ ہی صوبائی وزراء اپنی یہ غلطی تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں کہ انہوں نے غلط طریقہ کار اختیار کیا ہے، ان کا یہ موقف کہ ترقیاتی فنڈز کے سلسلے میں بھی انہی پر مشتمل کمیٹی اپوزیشن پارلیمانی قائدین کے ساتھ رابطے کرتی رہی رہے۔

اس سلسلے میں غیر موزوں نظر آتا ہے کیونکہ فنڈز کی تقسیم جیسے امور ایسی ہی کمیٹیوں کے توسط سے حل کیے جاتے ہیں تاہم جہاں تک اپوزیشن لیڈر کا تعلق ہے تو ان سے وزیراعلیٰ ہی کا رابطہ بنتا تھا اور وہ بھی اس صورت میں کہ اپوزیشن لیڈرخود بھی صوبہ کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں۔

صوبائی حکومت پر جو دباؤ تھا وہ صوبائی وزراء کی مسلسل بیان بازی اور پریس کانفرنسوں کے انعقاد سے واضح ہوتا رہا اور جلسہ کے بعد حکومت کی جانب سے جو بیانات سامنے آئے انھیں دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ صوبائی حکومت نے جلسہ کا قصہ ختم ہونے پر سکھ کا سانس لیا ہے، یہ بات بھی حیران کن تھی کہ ایک ہی دن پشاور اور سوات میں دو الگ ،الگ جلسے ہو رہے تھے۔

پشاور میں پی ڈی ایم تو سوات میں جماعت اسلامی میدان گرما رہی تھی لیکن صوبائی حکومت کو کورونا کے پھیلاؤ کے حوالے سے صرف پشاور کا جلسہ دکھائی دے رہا تھا اور اسے ہی ٹارگٹ بنایا جا رہا تھا حالانکہ سوات میں جماعت اسلامی کے تحت منعقد ہونے والے جلسہ میں بھی عوام کی اچھی خاصی تعداد موجود تھی اور کورونا کے پھیلاؤ کے جتنے خدشات پشاور جلسہ کے حوالے سے ظاہر کیے گئے اتنے ہی سوات جلسہ کے حوالے سے بھی تھے تاہم حکومت نے سوات جلسہ کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی پوری کی پوری توجہ پشاور کے پی ڈی ایم جلسہ پر ہی مرکوز رکھی جسے دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ حکومت پی ڈی ایم کے حوالے سے دباؤ محسوس کر رہی تھی اسی لیے ہدف بھی صرف پی ڈی ایم تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔