بتا زیب النسا مخفی (تیسرا اورآخری حصہ)

زاہدہ حنا  اتوار 27 دسمبر 2020
zahedahina@gmail.com

[email protected]

ناصر علی سرہندی اور اس عہد کے کئی اہم شاعروں کے مرزا عبد القادر بیدل جیسے جید عالم اور عظیم شاعر شہزادی زیب النسا مخفی کی ادبی اور شعری محفلوں میں شریک ہوتے رہے تھے۔

گارساں، دتاسی اس سے تعلق خاطر رکھنے والوں کا تذکرہ کرتا ہے۔ اس کی شاعری پر حافظ اور میرا بائی کے گہرے اثرات ملتے ہیں۔ یہ مگن لال اور West Brook Duncan تھے جنھوں نے سب سے پہلے 1912ء میں اس کا دیوان پہلے لاہور اورپھر لندن سے چھپوایا۔ وہ لکھتے ہیں کہ زیب النساء اس وقت کے دوسرے مسلمان عالموں سے مختلف ذہنی رویہ اور رجحان رکھتی تھی۔

ہندو اورزرتشی فلسفے پر اس کی گہری نظر تھی اور اس کی شاعری پر بھی ان کے اثرات تھے۔ ایچ رائے چوہدری، آر سی مجمودار اور کے کے دتّا کی An Advanced History of India میں لکھا ہے کہ اس نے اپنے پردادا شہنشاہ اکبرکی پیروی میں ذاتی لائبریری تعمیر کروائی اور دارالترجمہ قائم کیا جس میں ہندی، سنسکرت اور عربی کی کلاسیکی کتابوں کو فارسی میں ترجمہ کیا جاتا۔ ہندوستان کے بہترین نقل نویس اس کے محل میں ملازم تھے، جو اس کی پسندیدہ کتابوں کی نقلیں تیارکرتے۔

فرانسیسی مستشرق خاتون اینی کری نیکی لکھتی ہے کہ تصوف میں وہ فرید الدین عطار اورجلال الدین رومی کے مکتبۂ فکر سے تعلق رکھتی تھی۔ سیاست اور انسانوں کے بارے میں اپنے شہنشاہ باپ کے رویے اسے خوش نہ آتے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ جب اورنگزیب نے دکن کی مسلمان ریاستوں کے خلاف فوج کشی کی تو زیب النساء دلی کے محل میںچاندی کی نازک جالی کے پیچھے بیٹھ کر اس دورکے اہم شعراء اور عالموں سے کلام کرتی رہی۔

ان کے درمیان شاعرانہ نوک جھونک ہوتی اور فی البدیہہ شعرکہے جاتے جس میں زیب النساء کو ملکہ حاصل تھا۔ وہ علم و ادب کی محفلوں میں اتنی مصروف رہتی اور ادب اور ثقافت کی اس حد تک سرپرستی کرتی کہ مذہبی حلقے اس پر انگشت نمائی کرتے، یہ علماء اورنگزیبی دربار کے راسخ العقیدہ امراء کو شہزادی کے خلاف بھڑکاتے۔ اس کی روشن فکری اورنگزیب کو بھی گراں گذرتی اور وہ اپنی بیٹی کو یہ راستہ اختیارکرنے پر سرزنش بھی کرتا۔

زیب النساء کے زوال کا سبب شہزادہ اکبر سلطان کی باپ سے بغاوت کو بیان کیا جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ زیب النساء اپنے بھائی شہزادہ اکبر سلطان سے بے پناہ محبت کرتی تھی۔ اس نے اپنی ماں دل رس بانو بیگم کی ناوقت موت کے بعد اکبرکی ماں بن کر اس کی پرورش کی تھی۔ اس کی تعلیم وتربیت میں بھی اس کا حصہ رہا تھا ۔کہا جاتا ہے کہ جب شہزادہ اکبر نے اپنے باپ اورنگزیب کے خلاف بغاوت کی، اس دوران اس کی شہزادی زیب النساء سے خط وکتابت بھی رہی اور زیب النساء کے یہی خطوط اس کے زوال کا سبب بنے۔

بغاوت ناکام رہی، شہزادہ اکبر فرار ہوگیا اور زیب النساء کے وہ خطوط اورنگزیب عالمگیرکے سامنے پیش کیے گئے تواورنگزیب کا سارا طیش اور انتقام شہزادی زیب النساء پر آسمانی بجلی کی طرح گرا اور اسے خاکستر کرگیا ۔ زیب النساء کی تمام جائیداد ضبط ہوئی، اسے ملنے والا سالانہ وظیفہ جو چار لاکھ کی خطیر رقم پر مشتمل تھا بہ یک قلم موقوف ہوا۔ وہ جنوری کی یخ بستہ رات تھی جب حسن میں یکتا‘ فن میں باکمال اور شاعری میں بے مثال وہ عورت اپنے ہاتھی پر آخری بار سوارکرائی گئی اور سلیم گڑھ کے قلعے میں غروب ہوگئی اس وقت اس کی عمر 43 سال تھی۔ اسے اپنا ذاتی سامان تک ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں ملی تھی۔ وہ یتیم خانے، لنگر خانے جو زیب النساء کی داد و دہش سے چلتے تھے سب بند ہوئے۔ منوچی نے لکھا ہے کہ سب سے زیادہ صدمہ ان سیکڑوں لوگوں کو ہوا جو ہر سال شہزادی کے خرچ پر عازم مکہ ہوتے اور حج کرتے تھے۔

وہ زیب النساء جس نے اپنی چہیتی کنیز میا بائی کے لیے لاہور میں ایک وسیع اور حسین باغ لگوایا تھا ‘ اس کی آنکھیں سلیم گڑھ کی ریتیلی زمین میں سبزے کے لیے ترستی رہیں۔ لاہورکا یہ وہی باغ ہے جو آج ملیا میٹ ہوچکا ہے لیکن جس کی نشانی چوبرجی کی صورت میں آج بھی موجود ہے۔ اس باغ کے حوالے مگن لال‘ ایف ایس اعجاز الدین اور دوسروں کے یہاں ملتے ہیں ۔ جادو ناتھ سرکارکا کہنا ہے کہ اورنگزیب جیسے سخت گیر اورکٹر پنتھی شہنشاہ کی موجودگی میں شہزادی کی شخصیت کھلے ذہن کے شاعروں، عالموں اور دانشوروں کے لیے ایک ڈھال کی حیثیت رکھتی تھی‘ لیکن اب دلّی کا علمی اور ادبی حلقہ اپنی سرپرست سے محروم ہوچکا تھا۔

زیب النسا جو لال قلعہ کے پُرشکوہ ماحول میں ادبی محفلوں کی میزبان ہوتی تھی۔ قلعہ سلیم گڑھ کی سنگلاخ دیواروں کے درمیان تنگ دستی اور تنہائی اس کی یار جانی ہوئی اور یہیں اس کی شاعری عشق ، ہجر‘ الم اور رنج و ملال کے اس رنگ میں رنگی گئی جس نے اسے ایک اہم شاعرہ کی حیثیت دی۔ اس کا ’’دیوان‘‘ اس کے باپ اور بھائیوںکے لیے شرمندگی کا سبب تھا اورکیوں نہ ہوتا کہ اس میں ایک ہجر زدہ اور غمِ عشق میں گرفتار عورت کا فسانۂ غم تھا۔

اس کے اشعار میں ہندوئوں اور زرتشتیوں کے خیالات کا عکس تھا۔ قدیم فارس کے اساطیری حوالوں سے اس کی شاعری پُر ہے۔ اس کے اشعار میں شیعی تصورات کا عکس ہے‘ غرض ہر وہ عنصر موجود ہے جو اورنگزیب ایسے کٹر شخص کے سخت گیر دورحکومت میں کفرکے زمرے میں آتا تھا۔ یہی سبب ہے کہ وہ اپنے عروج کے دور میں شہرت کی بلندیوں پر تھی، لیکن شہنشاہ وقت کی نگاہ سے گری تو کس کی مجال تھی کہ اس کی طرف نظر بھی کرتا۔ وہ اس طرح گمنامی کی دھند میں لپیٹی گئی کہ اس کے دیوان کے بارے میں بہ اصرارکہا جانے لگا کہ یہ کسی ایسے مرد کا دیوان ہے جس کا تخلص مخفی تھا، بھلا ایک مغل شہزادی اورنگزیب عالمگیر جیسے سخت گیر شہنشاہ کی بیٹی ہجر ووصال کی اور عشقیہ وارداتِ قلبی کی بات کس طرح کرسکتی ہے۔

عرش سے فرش پر آجانے کے غم نے اسے جس قدر ملول ومحزوں کیا اس کا عکس اس کے اشعار میں جھلکتا ہے۔ اس کے اندوہ کا اندازہ مجدد الف ثانی کے پوتے محمد نقش بندثانی کے ان متعدد مکتوبات سے کیا جاسکتا ہے جو انھوں نے شہزادی زیب النساء کے نام لکھے۔ ان خطوط کو ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان نے مرتب کیا۔ شہزادی کے نام ان کے چند غیر مطبوعہ خطوط ’’نقوش‘‘ میں شایع ہوچکے ہیں۔ یہ خطوط اپنے عہد کے اس جید بزرگ کے لکھے ہوئے ہیں جس کے باپ محمد معصوم سے اورنگزیب نے بیعت کی تھی۔

اورنگ زیب کے زیر عتاب آنے کے باوجود اس عہد کے خواص کے دل میں شہزادی زیب النساء کے درجات جس قدر بلند تھے اس کا اندازہ ان القابات سے لگایا جاسکتا ہے جو محمد نقش بند ثانی نے اپنے خطوط میں لکھے ہیں۔ وہ اسے ’’صاحبۂ عالم… عالی تبارا… رفیع القدرا… عزیزۂ من… فاطمۂ زماں…‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ ان چند خطوط میں زیب النساء بیگم بادشاہ زادی دختربادشاہ اورنگ زیب کے ان سوالات کا جواب دیا گیا ہے جو اس نے دربیان مدحِ دردوغم دریافت کیے تھے۔

یہ ایک المناک بات ہے کہ ایرانی اس کی شاعری پر نازکرتے ہیں اور اسے فخرِ ایران قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح افغانیوں سے اس کا تذکرہ ہوتو وہ اسے رابعہ بلخی کے بعد دری کی سب سے بڑی شاعرہ کہتے ہیں، اس کا کلام سرپر رکھ کر پھرتے ہیں لیکن ہندوستان جہاں وہ پیدا ہوئی، جہاں وہ ’’پادشاہ بیگم‘‘ کہلائی‘ وہاں اس کے باپ کے عہد کے اکثر وقایع نگار اس کے شاعر ہونے سے ہی انکاری ہیں۔ وہ اس کی شاعرانہ محفلوں کا ذکرکرتے ہیں۔اس کی کنیز ارادت فہم کے ہاتھوں اس کی بیاض حوض میں گرجانے کا ذکر ہر تذکرے میں موجود ہے۔ اس کے کہے ہوئے فی البدیہہ اشعار بھی لکھ دیتے ہیں، لیکن اردو میں شایع ہونے والے تذکروں میں بہ اصرار اور بہ تکرار یہی لکھا ہے کہ:

’’عام طور پر مشہور ہے کہ وہ مخفی تخلص کرتی تھی اور دیوان مخفی جو چھپ کر شایع ہوا ہے، اسی کا ہے، لیکن یہ صحیح نہیں۔ کسی تاریخ یا تذکرے میں اس کے تخلص یا دیوان کا ذکر نہیں۔ مولوی آزاد ’’یدبیضا‘‘ میں لکھتے ہیں ’’ ایں دوبیت از نامِ اُو مسموع شدہ‘‘ پھر دو شعر نقل کیے ہیں۔ دیوان ہوتا تو صرف دو شعرکا ذکر کیوں کرتے۔‘‘ یوں اس بادشاہ زادی کی شاعری کا کام تمام کیا گیا اورکیوں نہ کیا جاتا کہ اورنگ زیب ایسے متشرع اور متدین بادشاہ کی بیٹی کے اس ’’گناہ‘‘ پر اسی طرح پردہ ڈالا جاسکتا تھا۔

سلیم گڑھ کے زنداں میں زیب النساء کی زندگی کے بیس برس گزارے اوروہ کبھی اپنے باپ سے معافی کی طلبگار نہیں ہوئی اور نہ اس سے کسی طرح کی مہربانی کی درخواست کی۔ 1702میں جب وہ دنیا سے رخصت ہوئی تو متشرع اور متدین شہنشاہ کو اطلاع بھیجی گئی تب اسے یاد آیا کہ اس کی ایک بیٹی بھی تھی جو 63 برس کی ہوچکی تھی اور جس کی نظر بندی پر 20 برس گزر چکے تھے۔ اس نے زیب النساء کے لیے دعائے مغفرت کی‘ اس کے نام پر خیرات کا حکم ہو۔ اینی کری نیکی نے لکھا ہے کہ شاعروں نے اس کا مرثیہ نہیں لکھا، وہ جانتے تھے کہ شہنشاہ کے قیدیوں کی موت پر مرثیہ لکھنا جرم ہے۔ آپ ہی بتائیے کہ پھر تاریخ اسے کیوں یاد رکھتی؟ اور یاسمین حمید اس سے یہ سوال کیوں نہ کرتیں کہ ’’ تاریخ تیرے حق میں کیوں خاموش ہے؟‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔