پاکستان، اسرائیل اور ایف اے ٹی ایف

محمد افضل سلطان  بدھ 6 جنوری 2021
اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم ساری دنیا کےلیے خطرہ ہیں۔ (فوٹو: فائل)

اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم ساری دنیا کےلیے خطرہ ہیں۔ (فوٹو: فائل)

اس دنیا میں طاقت کا مرکز بدلتا رہتا ہے۔ کبھی ایک ملک ساری دنیا کو اپنی چابک سے ہانکتا ہے تو کبھی دوسرا وہ کردار نبھاتا نظر آتا ہے۔ 1992 میں سوویت یونین کے زوال کے بعد امریکا اس دنیا کے سیاہ و سفید کا مالک بن گیا تھا۔

امریکا کی لڑی ہوئی جنگوں کا تذکرہ کریں تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کمیونزم کو شکست دینے کے بعد ساری جنگیں اسرائیل کے تحفظ کےلیے ہی لڑی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر عراق کی جنگ کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ جن وجوہات کی بنا پر جنگ لڑی گئی اور لاکھوں معصوم شہریوں کو قتل کیا گیا ان پر خود برطانیہ کے وزیراعظم نے معافی مانگی ہے۔

اگر مسئلہ صرف صدر صدام کو ہٹانے کا ہی تھا تو کیا اس کےلیے لاکھوں معصوم شہریوں کا قتل کرنا ضروری اور لاکھوں پرامن لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن کرنا ناگزیر تھا؟ آج اگر صدر ٹرمپ اپنی صدارت چھوڑنے سے مکر جائیں اور محاذ آرائی پر اتر آئیں یا احتجاج کرنے والوں پر تشدد کرنا شروع کردیں تو دنیا امریکا پر جنگ مسلط کردے گی؟ یقیناً نیٹو اور اتحادی ایسا نہیں کریں گے۔ لیکن عراق کی باری میں امریکا نے ایک خودمختار ملک پر حملہ کیا۔ اور سب سے بڑھ کر اسرائیل کے پڑوس میں ایک مضبوط ملک کو عسکری، انتظامی، مالی، ساختی لحاظ سے تباہ کردیا۔ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ سالانہ لاکھوں بیرل تیل پر بھی ہاتھ صاف کیا۔ اور اب اسرائیل کو آنے والے کم از کم بیس سال تک عراق سے کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ آج ٹرمپ کا بلیک واٹر کے چار افسروں کی سزا معاف کرنا، جنہوں نے عراق کے قتل عام میں 14 معصوم لوگوں کو مارا تھا، انصاف کے منہ پر طمانچہ ہے۔

جہاں تک اسرائیل کی بات ہے تو وہ اپنے غیر قانونی وجود سے لے کر آج تک دنیا کا سب سے متنازع ملک ہے۔
بین الاقوامی قانون کی Declarative theory کے مطابق ایک ملک درج ذیل چار شرائط پوری کرے گا تو ہی ملک کہلائے گا۔
1۔ متعین حدود
2۔ مستقل آبادی
3۔ ایک حکومت
4۔ دوسری ریاستوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی صلاحیت

ان اصولوں کی روشنی میں دیکھا جائے تو اسرائیل کا وجود ہی غیر قانونی ہے۔ کیونکہ اسرائیل کی حدود آج تک متعین نہی ہے۔ اس کی آبادی بھی غیر قانونی آبادکاری کی وجہ سے ہر روز بڑھ رہی ہے۔ اسرائیلی حکومت بھی برطانیہ کی اجارہ داری سے قائم ہوئی ہے۔ اور جہاں تک دوسرے ممالک سے تعلقات کا تعلق ہے تو امریکا کے بغیر اسرائیل کسی ملک سے، بطور خاص مسلم ملک سے تعلق قائم نہی کرسکتا۔ اس کی تازہ مثال صدر ٹرمپ کی کال کے نتیجے میں مراکش کا اسرائیل کو تسلیم کرنا ہے۔

اسرائیل کو تسلیم کرنا ہر لحاظ سے غیر منطقی اور غیر فطری ہے۔ قانونی نکات تو اوپر بیان کیے جاچکے ہیں۔ اخلاقی لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو ایسا ملک جو اپنےقیام سے لے کر آج تک انسانیت کا خون بہانے میں مصروف ہے اور فلسطین کے لاکھوں معصوم لوگوں کے قتل عام کے علاوہ پورے مشرق وسطیٰ میں پھیلی تباہی کا باعث بن رہا ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ یہ بات تسلیم کرتے ہیں اگر آپ کے پاس طاقت ہے تو آپ ظلم کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ آپ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ اگر آپ کے پاس کسی کو قتل کرنے کی قدرت ہے تو قتل جائز ہے۔ اور آپ یہ بات بھی تسلیم کرتے ہیں کہ آپ اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی وجہ سے کسی کو بھی بے گھر کرسکتے ہیں۔ مجھے اپنی بات ثابت کرنے کےلیے کسی واقعے کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اسرائیل کے ان مظالم اور ستم گری سے اب بچہ بچہ واقف ہے۔ اسرائیل کی انسانیت سوز کارروائیوں کے خلاف اقوام متحدہ میں پیش ہونے والی دو سو سے زائد قراردادیں اس بات کی گواہی کےلیے کافی ہیں۔

ابھی حال ہی میں مراکش نے اپنے تعلقات اسرائیل سے بحال کرنے کا اعلان کیا ہے۔ امریکا نے اس سارے معاملے میں ثالثی کا کردار ادا کیا۔ صدر ٹرمپ نے مراکش کے صدر کے ساتھ ٹیلی فون کال کے بعد مغربی صحارا پر مراکش کی خودمختاری کو تسلیم کیا اور بدلے میں مراکش اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی مراسم بحال کرے گا۔ حالانکہ اس سے نہ تو مغربی صحارا کی آزادی کےلیے لڑنے والوں پر اثر ہوگا، نہ وہ وجہ ختم ہوجائے گی جس کی وجہ سے جھگڑا ہے۔ لیکن مراکش نے اپنے ضمیر کو بیچ کر لاکھوں معصوم انسانوں کا قتل جائز مان لیا ہے جو اسرائیل کے ہاتھوں ہوا۔

اس میں پاکستان کےلیے سبق یہ ہے کہ بلوچستان میں شرپسند عناصر کو منظم کرکے پاکستان کو مجبور کیا جاسکتا ہے کہ یا تو وہ اسرائیل کو تسلیم کرے، یا بلوچستان کی قربانی دینے کےلیے تیار ہوجائے۔

پاکستان کا مسلم ممالک میں جوہری وسائل کی وجہ سے ایک ممتاز مقام ہے اور پاکستان کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد باقی ممالک کا اسرائیل کو تسلیم کرنا اتنا مشکل نہیں رہے گا۔ اس کے علاوہ ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کی گرے لسٹ میں شمولیت کو بھی پاکستان کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔ منگولیا کی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ کس طرح منگولیا اسرائیل کے خلاف پیش ہونے والی کسی بھی قرارداد میں شریک نہیں ہوا۔ اپنے آپ کو ووٹنگ کے وقت غیر حاضر رکھا اور منگولیا کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکال دیا گیا۔ پاکستان پر مختلف سمتوں سے دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرلیا جائے۔ اس ساری صورتحال میں پاکستان کےلیے اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنا رخ کس طرح متعین کرتا ہے۔ کیا پاکستان کی انتظامیہ اور ادارے عقل اور ہمت سے کام لیتے ہوئے پاکستان کی نظریاتی حدود کی حفاظت کرپائیں گے؟ اگر پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرلیتا ہے تو پھر اس کے پاس کشمیر پر بھارت کے غیر منصفانہ اور غیر انسانی تسلط کو تسلیم نہ کرنے کا جواز نہیں بچے گا۔

نہ صرف پاکستان بلکہ ساری دنیا اس بات کو سمجھ لے کہ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم ساری دنیا کےلیے خطرہ ہیں اور آج نہیں تو کل ساری دنیا اس سے متاثر ہوگی۔ انسانیت کو بچانے کےلیے ایک مضبوط، غیر سیاسی اور غیر جانبدار عالمی اتحاد کی ضرورت ہے، جو انسانوں پر ظلم کرنے والے اور معصوم لوگوں کو قتل کرنے والے ممالک پر نہ صرف نظر رکھے، بلکہ ان پر سیاسی، معاشی، سفارتی، سفری اور انتظامی پابندیاں بھی لگاسکے۔ یاد رکھیے جب ظلم اور ناانصافی کسی معاشرے میں رواج پا جائے تو اس معاشرے کی تباہی کےلیے کسی عذاب کی ضرورت نہیں رہتی، بلکہ وہ معاشرہ خودبخود اپنے آپ کو ختم کرلیتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد افضل

محمد افضل سلطان

بلاگر پیشے کے اعتبار سے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں اور عالمی سیاست و حالات کے موضوعات پر لکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔