ملک میں بجلی کا طویل بریک ڈاؤن

ایڈیٹوریل  پير 11 جنوری 2021
طویل بریک ڈاؤن کے باعث پورے پاکستان کا نظام زندگی مفلوج ہوکر رہ گیا

طویل بریک ڈاؤن کے باعث پورے پاکستان کا نظام زندگی مفلوج ہوکر رہ گیا

ملک میں بجلی کا ایک بڑا بریک ڈاؤن ہونے کے سبب گزشتہ شب اہل پاکستان نے مکمل تاریکی میں بسر کی، ملک کے مختلف شہروں میں بجلی کی بحالی کا عمل بتدریج جاری کر دیا گیا ہے۔ ترجمان پاور ڈویژن کے مطابق گدو میں ہفتہ اور اتوار کی درمیانی رات11 بج کر 41 منٹ پر فالٹ ہوا، ہائی ٹرانسمیشن لائن ٹرپ کرنے سے سسٹم فریکوئنسی 50 سے 0 ہوئی۔

فریکوئنسی کے گرنے کی وجہ سے پاور پلانٹس بند ہوئے، جب کہ این ٹی ڈی سی کے ترجمان کے مطابق بجلی کے بریک ڈاؤن کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ اس طرح بجلی کا اچانک بریک ڈاؤن ہوجانا اور پھر نظام کی بحالی میں گھنٹوں صرف ہونا ، کئی سوالات کو جنم دیتا ہے ۔

طویل بریک ڈاؤن کے باعث پورے پاکستان کا نظام زندگی مفلوج ہوکر رہ گیا، کراچی،لاہور سمیت دیگر شہروں کو پینے کے پانی کی فراہمی معطل ہونے سے شہریوں کی مشکلات میں دگنا اضافہ ہوگیا ، بالخصوص کراچی جہاں لاکھوں لوگ بلند وبالا عمارتوں اور فلیٹس میں رہائش پذیر ہیں۔پورا ملک تاریکی میں ڈوب گیا، لوگوں نے جاگ کر رات گزاری ، افواہ سازی کے عمل نے خوف وہراس کی فضا بھی پیدا کرنے کی کوشش کی۔

اسپتالوں میں زیرعلاج مریضوں کی مشکلات بڑھیں ۔فالٹ کے اسباب ومحرکات جاننے کے لیے کمیٹی کی تشکیل محض کاغذی اور نمائشی کارروائی نہیں ہونی چاہیے ۔ یہ کوئی چھوٹی سی بات نہیں کہ جس سے صرف نظر کیا جائے ، فالٹ کی ذمے داری سابق حکومت پر ڈالنے کی روش اور سیاسی بیان بازی سے وزراء اور مشیر اجتناب برتیں ، معاملات کو درست ڈگر پر چلانا اب موجودہ حکومت کی ذمے داری ہے، کیا وہ صرف بجلی کی قیمتوں میں آئے دن اضافہ کرنا ہی جانتی ہے ۔

بجلی کی عدم فراہمی سے ملک میں موبائل فون نیٹ ورک بھی متاثر ہوئے ادھر لاہور میں بجلی کی بندش سے اورنج لائن ٹرین کا آپریشن بھی متاثر ہوا اور کچھ دیر کے لیے معطل کرنا پڑا جب کہ پانی قلت کے مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں۔بلوچستان میں بجلی کی طویل بندش سے کئی اخبار شایع نہیں ہوسکے جب کہ کئی علاقوں میں انٹرنیٹ سروس معطل ہے۔شدید سردی اور بجلی کی بندش سے معاملات زندگی پر بھی اثر پڑا۔ کئی شہروں کے اہم سرکاری اسپتالوں میں بجلی کی تعطلی سے مریضوں کی مشکلات بڑھ گئیں ۔

سابق حکومت نے سسٹم میں 13ہزار میگاواٹ بجلی شامل کی،جسے کافی حد تک ملک میں بجلی کے بحران پر قابو پانے میں مدد ملی اور لوڈشیڈنگ ختم ہوئی ، لیکن موجودہ حکومت نے بجلی کی ترسیلی اور تقسیم کے نظام پر توجہ نہ دے کرصورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے، جس سے عام آدمی بری طرح متاثر ہوا ہے۔وفاقی وز یرِاطلاعات و نشریات شبلی فراز کے مطابق ماضی کی حکومتوں میں بجلی کی پیداوار پر زیادہ زور دیا گیا اور بجلی کے سیکٹر پر ایک خاص سمت میں کام ہوا۔ بجلی کی پیداوار کے پلانٹس تو بن گئے لیکن ترسیل کا نظام مطابقت نہیں رکھتا ، بجلی کی پیداوار ہے لیکن ترسیل کا نظام بہتر نہیں ہے۔

یہ وہ موقف ہے جو حکومتی سطح پر سامنے آیا ہے۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیجیے کہ بجلی کے نظام کے 3 شعبے ہوتے ہیں، پیداوار، تقسیم اور ترسیل۔ان تینوں شعبوں کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق اور ربط ہے، اس سسٹم میں خرابی کی اصل وجہ عدم توجہی کا رحجان ہے، کیونکہ عالمی اقتصادی میدان میں ہم بحیثیت قوم بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔

ہماری فیکٹریاں، کارخانے مطلوبہ مقدار میں پیداوار کرنے سے قاصر ہیں، ایک تو ملک میں بجلی کا بحران ہے ،لہٰذا ہم مطلوبہ آرڈزپورے کرنے سے قاصر رہتے ہیں، دوسرا بجلی کے نرخ اتنے زیادہ ہے کہ کمرشل آئٹمز کی تیاری انتہائی مہنگی ہے ، جس کا لامحالہ نقصان ملکی معیشت کو پہنچ رہا ہے، ارباب اختیار کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ آخر کیوں ملکی صنعتی یونٹس دیگر ممالک میں منتقل ہورہے ہیں۔

یہاں پر ایک اہم نقطہ قابل غور ہے کہ پاکستان میں بجلی اور ترسیل کے نظام میں خرابی کی وجہ سے گردشی قرضے میںبھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ بجلی ایک مخصوص مقدار ترسیل اور تقسیم کے مرحلے میں ضایع ہو جاتی ہے جس کی ادائیگی بھی حکومت کو کرنا پڑتی ہے۔

ماہرین کے مطابق ملکی ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش ہمارے یہاں موجود ہے، تاہم گھریلو اور تجارتی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی بجلی کے علاوہ باقی بچ جانے والی بجلی کے استعمال نہ ہونے کے باوجود حکومت اس فاضل بجلی کی قیمت ادا کرتی ہے جو نا صرف حکومتی خزانے پر بوجھ ہے بلکہ بجلی کے نرخوں میں کمی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

یہ تو ہوئی ماہرین کی رائے ، لیکن دوسری جانب ملک میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ایک بڑے تضاد کے طور پر ابھر کر سامنے آتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس تضا د کو دور کرنے کی کوئی بھی حکمت عملی موجودہ حکومت نے ترتیب دی ہے ، جواب نفی میں ہے۔

حکومت پاکستان کے جاری کردہ اکنامک سروے آف پاکستان برائے مالی سال 20-2019 کے مطابق پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 35000 میگاواٹ سے زائد ہے۔ تاہم پاکستان میں بجلی کی کھپت دس ہزار سے چوبیس ہزار میگاواٹ کے درمیان رہتی ہے جس کی طلب موسم اور دوسری وجوہات سے منسلک ہے۔بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو دو طرح کی ادائیگی ہوتی ہے ایک ’فکسڈ کاسٹ‘ ہے تو دوسری ’ویری ایبل کاسٹ‘ ہوتی ہے۔ ملک میں بجلی کی خریدار صرف حکومت ہے اور وہ کسی اور کو خریدنے نہیں دیتی۔ اس لیے پاور پلانٹس پر جو بھی بجلی پیدا ہوتی ہے اس کی ادائیگی حکومت کے ذمے ہے۔

پاکستان کچھ سال پہلے بجلی کے سنگین بحران سے دوچار رہا لیکن چند سالوں میں لگنے والے نئے پاور پلانٹس کی وجہ سے بجلی کی پیداوار میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ان پلانٹس کو لگانے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ بجلی کی تجارتی اور گھریلو طلب بڑھ رہی تھی اور اس کمی کو فوری طور پر پاور پلانٹس لگا کر دور کیا جا سکتا تھا۔سات سال میں پاکستان کی بجلی پیدا کرنے کی استعداد میں 64 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

یہاں ہمارا مقصد صرف حکومت پر تنقید ہرگز نہیں ہے، بلکہ اس کے مثبت عمل اور دیگر پہلوؤں کو بھی اجاگر کیا جانا چاہیے تاکہ مسئلے کے حل کے لیے ایک واضح تصویر عوام کے سامنے لائی جاسکے۔ بلاشبہ ملک میں توانائی کی بڑھتی ہوئی طلب پوری کرنے کے لیے موجودہ حکومت نے اپنی ترقیاتی حکمت عملی میں پانی اور پن بجلی کے وسائل کو ترجیحی بنیادو ں پر تعمیراوربرسوں سے زیرِالتوا تین بڑے ڈیموں کے راستے میں رکاوٹیں دور کرتے ہوئے عملی کام کا آغاز کیا ہے۔

دیامربھاشا ڈیم، داسو پاور پراجیکٹ اور مہمند ڈیم منصوبے ملک میں بجلی کی پیداوار بڑھانے اور صنعتی و معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کریں گے۔ ہزاروں افراد کو روزگار کے مواقع میسرآنے کے ساتھ ساتھ ان منصوبوں سے مجموعی طورپر 9 ہزار 750 میگاواٹ بجلی حاصل ہو گی۔ وزیراعظم عمران خان کے معاشی ترقی کے ویژن کو عملی تعبیر دینے کے لیے توانائی کے شعبے کے یہ بڑے منصوبے انتہائی اہم ثابت ہوںگے۔

ساری صورتحال اور اسباب ومحرکات کا لب لباب کچھ یوں بنتا ہے کہ بجلی کی ترسیل و تقسیم کے شعبے میں ہونے والے نقصانات کو نظر انداز کرنے کا سارا بوجھ عوام کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے ملک کو توانائی کے شعبے میں مختلف چیلنجز کا سامنا ہے۔ توانائی کا شعبہ ملکی معیشت کی ترقی میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔

حکومت کی ترجیحات میں صارفین اور صنعتوں کو مناسب قیمت پر بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانا شامل ہے۔حکومت کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ بجلی کی قیمتوں میں استحکام کو یقینی بنایا جائے۔ تب ہی عام آدمی کو ریلیف ملنے کے امکانات پیدا ہوسکیں گے۔

حرف آخر اس طویل بریک ڈاؤن کے اسباب ومحرکات تلاش کرنے کے لیے اس مسئلے کو قومی اسمبلی کے فورم پر اٹھایا جانا چاہیے تاکہ اس مسئلے پرکھل کر بحث کی جاسکے اور ایک پارلیمانی کمیٹی بھی تشکیل دینی چاہیے جو ذمے داروں کا تعین کرے اور آیندہ کسی بھی ایسی صورتحال سے بچنے کے لیے مربوط لائحہ عمل مرتب کیا جاسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔