ایڈورڈ سعید اور مسئلہ فلسطین (1) 

زاہدہ حنا  بدھ 26 مئ 2021
zahedahina@gmail.com

[email protected]

فلسطین کی آزادی 20، 22 کی عمر سے ذاتی مسئلہ بن گئی تھی۔ اس کے بارے میں لکھنا ، مظاہروں میں شرکت کرنا اور آواز بلند کرنا ایک روز مرہ تھا۔

خیال تھا کہ فلسطین کو آزادی اب ملی کہ تب ملی لیکن گزشتہ ہفتے جب میری نواسی پرماعباس فلسطینیوں کے حق میں ہونے والے ایک مظاہرے میں شرکت کے لیے روانہ ہوئی تو میں خوش ہوئی اور اداس بھی۔ خوش اس لیے کہ اس کا قبلہ راست ہے اور آنکھ میں آنسو اس لیے کہ آئے کہ50 برس گزرگئے اور فلسطین کا معاملہ سلجھنے کے بجائے الجھتا ہی چلا گیا ہے۔

وہ لڑائی جو حق و ناحق کی لڑائی تھی، جس میں روشن خیال مسلمان ، عیسائی اور یہودی سب ہی شامل تھے ، کچھ عرصے سے کفر و اسلام کی جنگ بن چکی ہے۔ اس کے حامیوں کا دائرہ تنگ ہوچکا ہے اور کئی نہایت اہم غیر مسلم دانشور جو دنیا میں فلسطین کا مقدمہ بہت جم کر لڑ ے تھے، اب حاشیوں پر کھڑے ہیں۔

اسے اتفاق سمجھیے کہ عین اس زمانے میں جہلم کے بک کارنر والوں نے ایڈورڈ سعیدکی ایک نایاب کتاب ’’مسئلہ فلسطین‘‘ شایع کی ہے۔ ایڈورڈ سعید کی جائے پیدائش یروشلم کی سرزمین تھی۔ جو یہودیوں ، عیسائیوں اور مسلمانوں، سب ہی کے لیے یکساں طور پر محترم اور مقدس ہے۔

1935میں وہ یروشلم کے ایک دولت مند عرب نژاد عیسائی گھرانے میں پیدا ہوا اور 1947 میں تاحیات جلا وطنی اس کا مقدر بنی۔ بارہ برس کی عمر میں اس کے خاندان کا ترک وطن اس بات کا اشارہ ہے کہ کبھی کبھی دولت و ثروت اور استعماری قوتوں سے دوست داری بھی آپ کے کام نہیں آتی۔ وہ ایک ایسے خاندان کا بیٹا تھا جو فلسطین کے برطانوی نوآبادی بن جانے کو مسرت کا سبب سمجھتا تھا اور جس کی دوستیاں انگریز افسران سے تھیں۔

ایڈورڈ کی فلسطینی ماں تاج برطانیہ کے وارث ایڈورڈ ہشتم پر فدا تھی، یہی وجہ تھی کہ اس نے بیٹے کا پہلا نام پرنس آف ویلز کے نام پر رکھا۔ نام اپنا اثر رکھتے ہیں۔ ایڈرورڈ ہشتم نے مسز سمپسن کے لیے برطانوی تخت و تاج کو ٹھکرا دیا تھا۔ ایڈورڈ سعید نے فلسطین سے اس طور عشق کیا کہ وہ جو نوآبادیاتی آقاؤں کی پرستش کرنے والے فلسطینی گھرانے میں پیدا ہوا تھا، وہی سامراج و استعمار کا دشمن اور فلسطینیوں کا سب سے بڑا وکیل بن گیا۔

عربی اس کی مادری زبان تھی اور پھر بھی ایڈوروڈ سعید کو عربی بولنے پر سرزنش کی جاتی تھی، اس کے گھر والوں کے نزدیک عربی غریبوں اور ملازموں کی زبان تھی اور انھیں حکم دینے یا ان سے کوئی بات کرنے کے لیے بہ مجبوری استعمال کی جاسکتی تھی۔ انگریزوں کے سر پر اقتدار کا تاج تھا اس لیے دولت مند اشرافیہ صرف انگریزی بولتی تھی، اسی میں سوچتی اور اسی میں خواب دیکھتی تھی۔

جانے کس طرح ایڈورڈ سعید نے بچپن اور نوعمری میں عربی نہ بول کر بھی، عربی میں سوچا ، عربی میں خواب دیکھے اور عرب عوام کے محسوسات اور معاملات کو انگریزی میں بیان کرکے عربوں اور فلسطینیوں کے جذبات کی عالمی سطح پر ترجمانی کی۔

اس نے یروشلم اور قاہرہ کے ان اسکولوں میں تعلیم حاصل کی جہاں امرا کے بچے پڑھتے تھے، اس کی اعلیٰ تعلیم مغرب کی دانش گاہوں میں ہوئی اور وہ ان در بہ در فلسطینی بچوں اور نوجوانوں کے لیے عمر بھر مضطرب رہا جو کتاب و قلم سے، دانش جوئی و دانش وری سے محروم رکھے گئے۔ اس نے پرسٹن اور ہاورڈ سے گریجویشن اور پی ایچ ڈی کی اور تمام عمر مغربی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جن کی انتظامیہ کبھی کبھی اسے شک کی نظر سے بھی دیکھتی رہی۔

اسرائیلی جبر و ستم کے خلاف جب دوسرے انتفاضہ کا آغاز ہوا تو ایڈورڈ سعید کا فلسطینی رہنماؤں اور سیاستدانوں پر سے یکسر ایمان اٹھ چکا تھا۔ وہ انھیں نااہل ، کاہل اور مفاہمت کرنے والے کہتا تھا۔ نہتے نوجوانوں پر اسرائیلی فوج کی چڑھائی اور فلسطینی بستیوں کی تباہی سے وہ اس قدر برافروختہ تھا کہ اس نے سنہ 2000میں لبنان کی سرحد پرکھڑے ہوکر ایک اسرائیلی فوجی چوکی پر پتھر پھینکا۔

یہ ان مفلس و نادار، تعلیم سے اور تمام بنیادی انسانی حقوق سے محروم فلسطینی بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار تھا جنھوں نے اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے خلاف ہتھیار اٹھانے کے بجائے زمین پر پڑے ہوئے پتھر اورکنکر اٹھائے، جنھوں نے اسرائیلی فوجیوں پر اپنے طیش کا اظہار مٹھی بھر مٹی سے کیا۔

کولمبیا یونیورسٹی میں ایڈورڈ سعید کے اس احتجاج پر شدید بحث مباحثہ ہوا۔ اس کے دشمنوں کا کہنا تھا کہ اس نے تشدد کا ارتکاب کیا ہے، اس کے دوستوں کا موقف تھا کہ یہ آزادئ اظہار کا ایک الگ رنگ ہے، ایک دانشور اور استاد کو ہم اس آزادئ اظہار سے محروم نہیں کرسکتے۔ آخرکار جیت اس کے دوستوں کی ہوئی اور اسے کولمبیا یونیورسٹی سے سبکدوش نہ کیا جاسکا۔

ایڈورڈ سعید نے بہت سی کتابیں لکھیں۔ یہاں میں ان کتابوں کے نام نہیں گنواؤں گی لیکن اس کی کتاب Orientalism کا ذکر ضرور کروں گی جو 70ء کی دہائی میں شایع ہوئی اور جس پر آج تک بحث مباحثہ جاری ہے۔ اپنی اس کتاب میں اس نے مستشرقین اور ان کی تحقیقات کے بارے میں بہت سے سوال قائم کیے تھے۔ اس کی کتاب Peace and its Discontentبھی دنیا بھر کے دانشورحلقوں میں پڑھی گئی اور اس پر لمبی بحثیں ہوئیں۔

ایڈورڈ سعید نے فلسطین کے مسئلے، دانشوری کی روایت ، عرب قومیت، عالمی سیاست، عراق و افغانستان پر امریکی حملے، دہشت گردی کے اسباب اور امن کی ثقافت جیسے معاملات پر بلامبالغہ سیکڑوں کالم اور مضامین لکھے۔ وہ عرب قوم پرستوں اور بہ طور خاص فلسطینی ادیبوں میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ اہم فلسطینی ادیبوں اور شاعروں کی کتابوں پر لکھنا وہ اپنا فرض سمجھتا تھا۔اس نے اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق لکھا۔ وہ عیسائی تھا لیکن اسلام کے بارے میں مغربی میڈیا کے متعصبانہ رویے اسے چراغ پا کردیتے تھے۔

اس کا کہنا تھا کہ مغرب کی نمایندگی کرنے والوں کے اور مسلم یا عرب دنیا کے درمیان ایک ثقافتی جنگ جاری ہے اور اس جنگ میں ایک سچے دانشور کا یہی کردار بنتا ہے کہ وہ مذہب ، ثقافت یا نسل اور رنگ کے تعصبات سے بالاتر ہوکر چیزوں کو دیکھے اور ان کا تجزیہ کرے۔

وہ فلسطین کا عاشق تھا لیکن ایک ایسا عاشق جو دانشور اور دانش جُو بھی تھا ، اسی لیے وہ فلسطینی رہنماؤں، سیاستدانوں، دانشوروں اور ادیبوں کا نکتہ چیں بھی تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ’’ ہماری قسمت گھٹیا قیادت کے ہاتھوں میں رہی اور ہم اب بھی غلطیوں اور تباہیوں والی اس دیوالیہ قیادت کی حمایت میں لگے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف اپنے لوگوں ، ڈاکٹروں ، قانون دانوں ، انجینئروں ، کاروباری منتظموں ، تاجروں ، دانش وروں، علوم و فنون کے ماہروں اور فن کاروں کی بہت سی کامیابیوں پر ہم فخر و غرور کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

ہم ایک ریاستی حیثیت اور آزادی کے دعویدار ہیں لیکن کسی کے ذہن میں ریاستی اداروں کی کوئی شکل ہے ہی نہیں، جہاں آج فلسطینی اقتدار کی حکومت ہے وہاں کوئی بنیادی قانون نہیں ہے۔ بس ایک فرد کی خواہش ہی قانون ہے جو قانون ساز اسمبلی کی برملا نافرمانی کرتا ہے۔ ہماری یونیورسٹیوں کی حالت انتہائی قابلِ نفرت ہے۔ ان کے پاس پیسے نہیں ہیں، ان کا انتظام انتہائی مایوس کن طریقے پر چلایا جا رہا ہے۔ یہ ایسے پروفیسروں سے بھری ہوئی ہیں جو معاش کے لیے تو جدوجہد میں مشغول رہتے ہیں لیکن برسوں سے انھوں نے کوئی آزاد تحقیقی کام نہیں کیا ہے۔

ہمارے پاس انتہائی دولت مند تاجروں کا ایک ایسا گروہ موجود ہے جنھیں اب تک اس بات کا ادراک ہی نہیں ہوا کہ کسی معاشرے کی بنیادی ضرورت یہ ہے کہ وہ تعلیم ، قومی کتب خانوں کی تعمیر اور یونیورسٹی کے پورے ڈھانچے کے لیے کسی وقف کی تشکیل میں بھاری سرمایہ کاری کرے جو بطور ایک معاشرے کے ہمارے مستقبل کی ضمانت دے۔ میں تقریباً بیس سال سے مختلف اجلاسوں میں شرکت کررہا ہوں جہاں چھوٹے چھوٹے سیکڑوں منصوبوں پر رقم فراہم کی جاتی ہے لیکن اس بات کا کوئی مرکزی شعور نہیں ہوتا کہ آخر وہ چیز ہے کیا جس کی ہمیں ضرورت ہے۔

چوں کہ کوئی ایسا اجتماعی مقصد سامنے نہیں ہے جس پر سب دل و جان سے متفق ہوں لہٰذا فلسطینیوں کی ساری جدوجہد نہ صرف سرکاری حلقوں میں بلکہ ان نجی انجمنوں میں بھی مفلوج ہوگئی ہے جہاں شخصی تصادم ، کھلے بندوں فلسطینی بیوروکریسی کی آپس میں کشمکش اور توہین آمیز بحثیں ہر قدم پر ہماری مزاحمت کررہی ہیں۔‘‘ ایڈورڈ سعید کے یہ جملے فلسطینی انتظامیہ کا نقشہ کھینچتے ہیں، لیکن کیا ان سطروں میں ہمیں اپنا چہرہ نظر نہیں آتا؟

وہ فلسطینی اسکولوں میں پڑھائے جانے والے پس ماندہ اور ازکار رفتہ نصاب کے خلاف تھا ، اس کا کہنا تھا کہ فلسطینی جب تک اپنے تمام مالی اور ذہنی وسائل، تعلیم اور جدید مہارتیں حاصل کرنے پر صرف نہیں کریں گے ، اس وقت تک وہ اسرائیل کے اعلیٰ تعلیم یافتہ ماہرین کے سامنے پسپا ہوتے جائیں گے، کچھ اور زمین، کچھ اور اقتدار اسرائیل کے ہاتھ میں دیتے جائیں گے۔ وہ ان عرب دانشوروں کا بھی نکتہ چیں تھا جنھوں نے بقول اس کے صیہونیت اور استعماریت کے خلاف محض نعرہ بازی میں وقت ضایع کیا۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔