اخلاقی اقدار کی پامالی باعث رسوائی

اشفاق اللہ جان ڈاگیوال  جمعرات 24 جون 2021
ashfaqkhan@express.com.pk

[email protected]

جیت اور ہر ایک کے مدمقابل رہ کر جیت، آج اسی خواہش نے ہمارے معاشرے کی چولیں ہلا دی ہیں، اسلامی و مشرقی اقدار کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔

عالم اسلام کے عظیم مفکر علامہ ابن خلدون اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’مقدمہ ابن خلدون‘‘ میں لکھتے ہیں کہ دنیا میں عروج و ترقی کے زینے تک پہنچنے والی قوم ہمیشہ اچھے اخلاق کی مالک ہوتی ہے جب کہ برے اخلاق کی حامل قوم زوال پذیر ہوجاتی ہے۔ (مقدمہ ابن خلدون: باب دوم فصل بیس) علامہ ابن خلدون نے اپنے مشاہدات کی روشنی میں جو بات صدیوں پہلے کہی تھی، آج کی دنیا بھی اسے درست ثابت کرتی ہے۔

تاریخ کے اوراق اس بات کے شاہد ہیں کہ وہی قومیں ترقی کے بام عروج  تک پہنچیں جنھوں نے اخلاقی اقدار کو رواج دیا۔ وہ معاشرے برباد ہوگئے جنھوں نے اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال دیا۔ اسلامی ثقافت اور مذہبی تعلیمات نے اخلاق حسنہ کی ترویج پر جتنا زور دیا شاید ہی کسی مذہب و ملت کی تعلیمات میں ملتا ہو، لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ آج کے عمومی مسلم معاشروں میں کئی بگاڑ آچکے ہیں۔

اگر ہم آج کے پاکستان کی بات کریں تو قرون اولیٰ کی مسلم سوسائٹی سے اس کی کوئی مماثلت نظر نہیں آتی۔ عملی طور پر گھروں، دکانوں اور کوچہ و بازار سے لے کر مذہبی تہواروں، ٹریفک کے نظام اور سیاسی و سماجی ایوانوں تک نگاہیں حسن اخلاق کی ایک ایک جھلک دیکھنے کو ترستی رہتی ہے۔

الا ماشاء اللہ، گھر ہو یا مسجد، دفتر ہویا اسکول، کالج، یا پھر پوری دنیا کو اپنے سحر میں لپیٹے ٹی وی چینلز اور ان پر چلنے والے ٹاک شوز، سب کے سب ایک دوسرے سے آگے نکل کر جیت کی منزل پانے میں لگے ہوئے ہیں اور جیت کی اس دوڑ کا کوئی قانون نہیں،کوئی ضابطہ نہیں، فری اسٹائل ریسلنگ کی طرح مد مقابل کو دھول چٹانے کے لیے ہر حد کو پاؤں تلے روندنا، حق کو ناحق اور نا حق کو حق بنا کر پیش کرنا یہی مشن ہے۔ جب سب کچھ کرکے بھی اپنی جیت کو ثابت کرنے میں ناکامی کا سامنا ہو تو پھر مذاق اڑانے سے ہوتے ہوئے تھپڑوں اور لاتوں سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا اور ایسی اخلاقی پستی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے کہ الامان الحفیظ۔

اختلاف کو اسلام میں باعث رحمت قرار دیا ہے لیکن ہم نے اسے زحمت بنا دیا ہے۔ مباحثہ اور مناظرہ مہذب معاشرے میں ترقی کرنے، آگے بڑھنے اور ایک دوسرے کے اصلاح کا ذریعہ ہوتا ہے تاہم اگر شرکاء اس نیت سے حصہ لیں کہ اپنے موقف کو سمجھانے اور دوسرے کے موقف کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اگر اپنا موقف غلط اور دوسرے کا موقف صحیح ثابت ہو توکھلے دل کے ساتھ قبول کریں اور اپنی اصلاح کا ذریعہ بننے والے کو اپنا محسن سمجھ کر اس کا شکریہ ادا کریں۔

مگر ہمارے ہاں دستور ہی نرالا ہے نہ ماننے اور نہ سننے کی قسم اٹھا کر شرکاء بحث کا آغاز کرتے ہیں اور گفتار کی تیزی، دماغ کی گرمی اور بلند ہوتا فشار خون اس مقام پر لاکر کھڑا کردیتا ہے جہاں آپ ایک دوسرے کو گالیاں دینے کوتیار ہوجاتے ہیں، جس سے نئی دشمنی کا آغاز ہوجاتا ہے۔

ان مباحث اور مناظروں میں نہ بڑے چھوٹے کی تمیز ہوتی ہے اور نہ ہی مردوزن کا احترام۔ اس پورے کھیل تماشے میں اکثر اینکر حضرات کا رویہ انتہائی قابل افسوس نظر آتا ہے، وہ جیسے آگ لگا کر ہاتھ میں تیل کی بوتل تھامے ہوتا ہے جہاں آگ کی حدت کم پڑنے لگتی ہے اینکر تیل ڈال کر انجوائے کرتا ہے، اس کی وجہ ریٹنگ کی دوڑ ہے جب کسی پروگرام کی کامیابی کا دارومدار اس جعلی اور دو نمبر ریٹنگ پر ہو اور اینکرز کی ریٹنگ اور درجہ بندی پروگرام کی ریٹنگ پر ہو تو پھر ان مباحثوں میں مد مقابل کو لڑوانے اور ایک دوسرے پر ہاتھ اٹھانے کے لیے باقاعدہ ماحول بنایا جاتا ہے کیونکہ بحیثیت قوم ہم جس اخلاقی پستی کا شکار ہیں اس کی وجہ سے ہم اس پروگرام کو دیکھتے ہیں جس میں گالم گلوچ اور ایک دوسرے پر ہاتھ اٹھایا جاتا ہے۔

اگر ہم بحیثیت قوم پروگرام کو سمجھنے اور اپنی اصلاح کی نیت سے دیکھنے بیٹھتے تو شاید ہمارے قومی مسائل میں بہت حد تک کمی ہوتی اور ہمیں ملک کے صحیح حکمران کے انتخاب میں آسانی ہوتی، اور اسی انداز میں آگے بڑھنے سے اﷲ تعالیٰ ہمیں ضرور ایک نجات دہندہ عطا کرتا، مگر ایسا نہیں ہے، قطعاً نہیں ہے، کیوں کہ ہم ٹی وی چینل کے سامنے بیٹھ کر اصلاح کی نیت سے تو پروگرام دیکھتے نہیں۔

اخلاقی طور پر ہم پستی کی اس گھاٹی میں اوندھے منہ پڑے ہیں جہاں سے ہم حق کو حق تسلیم کرنے کی صلاحیت کھو چکے ہیں، جہاں ہم سچ سننے اور جاننے کے لیے تیار ہی نہیں، اپنی اپنی پارٹیوں اور اپنے اپنے لیڈروں کی عقیدتوں کے بھاری بھاری ٹوکرے ہمارے سروں پر مسلط ہیں اور ہم ان کے بوجھ تلے اس قدر دبے ہوئے ہیں کہ اخلاق کس چڑیا کا نام ہے بھول چکے ہیں۔

میرے خیال میں اگر نیت میں کھوٹ نہ ہو تو کبھی کبھار جیت کر ہار ماننے سے جو دائمی خوشی ملتی ہے ۔ جن سیاسی رہنماوں نے قوم کی رہنمائی کرنا ہے، انھیں ٹی وی ٹاک شوز اور اسمبلیوں میں دست و گریباں دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔گزشتہ تین برسوں سے قومی و صوبائی اسمبلیوں اور ٹی وی ٹاک شوز میں ہمارے سیاستدان جو گل کھلا رہے ہیں، ان کا برا اثر معاشرے کو تیزی سے اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے کیونکہ گھر میں بچے والدین کے کردار و افعال کا اثر لیتے ہیں اور کارکن اپنے لیڈروں کو کاپی کرتے ہیں۔

بجٹ اجلاس میں اراکین اسمبلی نے جس طرح ایک دوسرے کو گالیاں دیں، بلوچستان اسمبلی کے باہر جوتا باری سے لے کر گالم گلوچ کا جس طرح مظاہرہ ہوا، قوم پر اس کا اثر پڑنا ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والا ایک سیاستدان کہتا ہے گالی پنجاب کا کلچر ہے، حالانکہ یہ بات سراسر غلط ہے، گالی کسی کے گھر کا کلچر تو ہوسکتا ہے لیکن کسی معاشرے یا علاقے سے اسے منسوب کرنا زیادتی ہے۔

کاش ہمارے سیاستدانوں کو اسلام کی اخلاقی تعلیمات سے آشنائی ہوجائے۔ اس میں زیادہ ذمے داری حکمران جماعت پر عائد ہوتی ہے، جب سے وہ اقتدار میں آئی ہے، پاکستانی سیاست کا ماحول ہی بدل گیا ہے، الزام تراشی، گالم گلوچ، ہلڑبازی، پگڑیاں اچھالنا، اب تو کسی شے کو معیوب نہیں سمجھا جارہا۔ اگر یہی کچھ جاری رہا تو واقعی گالی ہمارا کلچر بن جائے گا اور معاشرہ اخلاقی اعتبار سے زمین بوس ہوجائے گا۔چلتے چلتے ایک واقعہ یاد آگیا، شاید کسی سیاستدان کے دل میں اتر جائے میری بات۔

طالب علموں نے استاد سے کہا ’’سر آپ ہمارے ساتھ کرکٹ کھیلیں ‘‘ ۔پانچ گیندوں پر استاد نے دو رنز بنائے، چھٹی گیند پر کلین بولڈ ہو گئے۔ طالب علموں نے شور مچا کر خوشی ظاہر کی۔ جماعت  میں استاد نے پوچھا ’’کون کون چاہتا تھا کہ میں اس کی گیند پر آوٹ ہو جائوں..؟ ‘‘سب بائولرز نے ہاتھ کھڑے کر دیے۔ استاد ہنس دیے، ’’پوچھا میں کرکٹر کیسا ہوں..؟ ‘‘سب نے کہا ’’بہت برے‘‘ ۔ پوچھا ’’میں ٹیچر کیسا ہوں؟ ‘‘جواب ملا ’’بہت اچھے‘‘۔

استاد بولے، ’’صرف آپ ہی نہیں دنیا بھر میں پھیلے ہوئے میرے ہزارہا طالب علم جن میں کئی میرے نظریاتی مخالف بھی ہیں، گواہی دیتے ہیں کہ میں اچھا استاد ہوں۔ راز کی بات بتاؤں میں جتنا اچھا استاد ہوں اتنا اچھا طالب علم نہیں تھا، کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اس کے باوجود مجھے اچھا استاد کیوں مانا جاتا ہے؟ ‘‘سب نے کہا ’’سر آپ بتائیں کیوں..؟

‘‘ استاد نے کہا ’’ادب‘‘۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے اپنے استاد کے ہاں دعوت کی تیاری میں ان کی مدد کر رہا تھا، فریزر سے برف نکالی جسے توڑنے کے لیے کمرے میں کوئی شے نہیں تھی، استاد کام کے لیے کمرے سے نکلے تو میں نے مکا مار کر برف توڑ دی۔ پھر جلدی سے ٹوٹی ہوئی برف دیوار پر بھی دے ماری۔ استاد کمرے میں آئے تو انھوں نے مجھے ڈانٹا کہ یوں برف توڑی جاتی ہے ؟

میں نے ان کی ڈانٹ خاموشی سے سنی، بعد میں انھوں نے اس بیوقوفی کا ذکر کئی جگہ کیا، میں ہمیشہ بیوقوفوں کی طرح سر ہلا کر ان کی ڈانٹ سنتا رہا۔ انھیں آج بھی نہیں معلوم کہ برف میں نے مکا مار کر توڑی تھی۔ یہ بات میں نے انھیں اس لیے نہیں بتائی کہ وہ ایک ہاتھ سے معذور تھے، ان کی غیر موجودگی میں، میں نے جوانی کے جوش میں مکا مار کر برف توڑ دی لیکن جب ان کی معذوری کا خیال آیا تو سوچا کہ میرے طاقت کے مظاہرے سے انھیں احساس کمتری نہ ہو، اس لیے میں نے برف دیوار پر مارنے کی احمقانہ  حرکت کی اور لمبے عرصے تک ان کی ڈانٹ سنتا رہا۔

اور ایک آپ لوگ ہیں کہ ایک دوسرے کو چیخ چیخ کر ہدایات دے رہے تھے کہ استاد کو یارکر مار کر آوٹ کرو۔ جیتنا سب کچھ نہیں ہوتا کبھی ہارنے سے زندگی میں جیت کے راستے کھلتے ہیں، آپ طاقت میں اپنے اساتذہ اور والدین سے بے شک بڑھ جاتے ہیں، زندگی میں سب سے جیتنا آپ کا حق ہے لیکن کبھی بھی اپنے اساتذہ اور والدین سے جیتنے کی کوشش نہ کریں، آپ کبھی نہیں ہاریں گے۔ اﷲ پاک آپ کو ہر میدان میں سرخرو کرے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔