پاکستان کے خلاف امریکا کی دوہری پالیسی

ایڈیٹوریل  جمعرات 30 ستمبر 2021
بلاشبہ امریکی سینیٹ میں پیش ہونے والا یہ بل پاکستان پر دباؤ بڑھانے کا حربہ ہے۔ فوٹو: فائل

بلاشبہ امریکی سینیٹ میں پیش ہونے والا یہ بل پاکستان پر دباؤ بڑھانے کا حربہ ہے۔ فوٹو: فائل

امریکی سینیٹ میں طالبان اور ان کی حمایت کرنے والے ممالک اور اداروں پر پابندیوں کا بل پیش کردیا گیا ہے۔

بل میں کہا گیا ہے کہ پاکستان سمیت ایسے تمام ممالک ، اداروں اور نان اسٹیٹ ایکٹرز کی ہر قسم کی اقتصادی، مالی اور فوجی امداد بند کر دی جائے جن کے بارے میں امریکی وزیر خارجہ رپورٹ دیں گے جب کہ بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکی خفیہ ادارے یہ جائزہ رپورٹ دیں کہ کیا پاکستان کی حکومت نے افغان حکومت کو گرانے میں طالبان کی کسی بھی طرح سے مدد کی ہے یا پنج شیر میں طالبان کی فتح میں اس کا کوئی کردار ہے، نیز اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد بھارت کی سیکیورٹی صورتحال میں کیا تبدیلیاں آ سکتی ہیں۔

بلاشبہ امریکی سینیٹ میں پیش ہونے والا یہ بل پاکستان پر دباؤ بڑھانے کا حربہ ہے، اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان یہ فیصلہ کرے کہ ایسے اتحادی کے ساتھ کیا اس عدم اعتماد کے رویے کے ساتھ آگے بڑھا جائے؟ امریکا کی دہری پالیسیوں کا دباؤ قبول کیا جائے؟ فیصلہ کن گھڑی آگئی ہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ میں کھل کر یہ مباحثہ ہونا چاہیے جس میں امریکی پالیسیوں کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے۔

اسی حقیقت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا ہے کہ پاکستان کو ایک بار پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا اتحادی ہونے کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی جب کہ وزیر اعظم عمران خان نے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے لیے ایک کالم لکھا ہے جس میں انھوں نے دنیا سے کہا ہے کہ افغانستان میں جنگ کے نتیجے کا پاکستان کو ذمے دار قرار نہ دیا جائے۔

امریکی صدر جوبائیڈن کا خیال ہے کہ امریکا کے اندرونی مسائل بہت ہیں لیکن خارجہ پالیسی اب بھی امریکی اثر و رسوخ کی کنجی ہے۔ امریکا کی نئی خارجہ پالیسی بنانے والی اشرافیہ کا خیال ہے کہ دنیا خود کو منظم رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتی، اس کا واحد حل عالمی نظام کی تعمیر نو ہے جس کے بلیو پرنٹ بھی امریکا کے پاس ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ امریکا نے پاکستان سے معاملات میں ہمیشہ اپنے قومی مفادات کو ترجیح دی ہے، جب بھی پاکستان پر نازک وقت آیا تو اس نے غیر جانبداری اختیار کرلی۔ 1965میں جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو امریکا غیر جانبدار ہوگیا۔

1971میں جب مشرقی پاکستان میں بھارت کی مداخلت سے حالات خراب ہورہے تھے تو کہا جارہا تھا امریکا اپنے ساتویں بحری بیڑے کے ذریعے پاکستان کی مدد کرے گا ، یہ ساتواں بحری بیڑہ نہیں پہنچا۔ بھارت نے کھلی جارحیت کے ذریعے مشرقی پاکستان پر قبضہ کرلیا۔ سلامتی کونسل میں شور مچتا رہا۔ روس بھارت کی کھلی سفارتی اور فوجی مدد کرتا رہا۔

امریکا نے اپنے اتحادی کا ساتھ نہیں دیا۔ امریکا نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی ہمیشہ مخالفت کی۔ امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر جن کو 1971میں پاکستان نے چین کے خفیہ دورے کی تاریخی سہولت فراہم کی جس سے دنیا میں ایک نیا سفارتی نظام قائم ہوا، انھی کسنجر صاحب نے 1972میں پاکستان کے وزیر اعظم کو دھمکی دی کہ اگر ایٹمی پروگرام بند نہ کیا تو تمہیں عبرتناک مثال بنادیا جائے گا اور اس پر امریکا نے عمل بھی کیا ، جب 1998میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے مجبوراً ایٹمی دھماکے کیے تو اتحادی ہونے کے باوجود پاکستان پر پریسلر ترمیم کی پابندیاں عائد کردی گئیں۔

افغانستان سے فوجی انخلا کے بعد پاکستان امریکا کی ترجیحی فہرست میں کہیں بہت نیچے جاچکا ہے اور وہ اب امریکا کے مقاصد میں کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ امریکی فوجی انخلا کو دنیا کی سپر پاور کی ناکامی تصور کیا جا رہا ہے لیکن اصل میں اب پاکستان کی پالیسی دنیا کے نشانے پر ہے، افغان امن عمل کو ادھورا چھوڑ کر واشنگٹن چلتا بنا۔

امریکا نے افغان امن عمل کی ذمے داری مکمل طور پر افغانستان اور خطے کے ملکوں پر چھوڑ دی ہے اور اس خلا کو پر کرنے کے لیے چین ، بھارت، ایران اور ترکی بھی میدان میں کود چکے ہیں۔ ان حالات میں پاکستان ابھی تک سمت کا تعین نہیں کر پایا اور خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑنے پر مجبور ہو چکا ہے۔

امریکا کے ساتھ افغانستان میں کردار کے حوالے سے اختلاف رائے کے باوجود پاکستان بدستور افغانستان ہی کو اپنی خارجہ پالیسی کا بنیادی نکتہ سمجھتا ہے اور اسے خوب اندازہ ہے کہ افغانستان میں وقوع پذیر ہونیوالے واقعات پاکستان کے مستقبل پر اثر انداز ہونگے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی غلطیوں کی نشاندہی کے باوجود امریکا کے ساتھ مواصلت و مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان کو یہ بھی احساس ہے کہ اس وقت امریکا اور اس کے حلیف ممالک میں پاکستان کو افغانستان میں اپنے کردار ہی کی وجہ سے سفارتی اہمیت و وقعت حاصل ہے۔

اس کے اظہار میں بخل سے کام بھی نہیں لیا جاتا۔ وزیر اعظم، وزیر خارجہ اور قومی سلامتی کے مشیر سب ہی یہ کریڈٹ لیتے ہیں کہ طالبان کو امریکا کے ساتھ مذاکرات اور امن معاہدہ پر پاکستان نے آمادہ کیا تھا اور پاکستان کی سہولت کاری کے بغیر یہ کام ممکن نہیں تھا۔ امریکا بھی اس کردار کو اہم سمجھتا ہے اور مختلف مواقعے پر اس کا اظہار بھی کیا جاچکا ہے، لیکن کیا وجہ ہے کہ پاکستان اب اسی کردار سے گریز کا راستہ تلاش کررہا ہے جس کی بنیاد پر وہ خود کو دنیا کے سامنے سرخرو بھی کرتا ہے۔

ایک بات تو واضح ہوگئی ہے کہ امریکا ایک بار پھر دنیا کو دو کیمپوں میں تقسیم کرنے کے منصوبے بنا رہا ہے، اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہوتے ہیں، امریکا کو بھی شاید یہی انتظار ہے کہ ہم اس پر پوزیشن واضح کریں، اس کے بعد ہی رابطے رکھنے یا نہ رکھنے کا معاملہ طے پائے گا۔

پاکستان اور چین ایک دوسرے کے قریبی دوست ہیں۔ پاکستان نے چین کی عالمی برادری میں رسائی کے لیے بنیادی کردار ادا کیا۔ اب چین اپنے مفادات کے تحت بھی، اور جنوبی ایشیا میں اقتصادی ترقی کے لیے’’ون بیلٹ، ون روڈ‘‘کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے پاکستان میں 55ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کررہا ہے۔

اصولاً تو یہ سرمایہ کاری امریکا کو آج سے کئی عشرے پہلے کرنی چاہیے تھی۔ اب جب چین پاکستان اقتصادی راہداری پر کام شروع ہوچکا ہے تو امریکا کو اس کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے، بلکہ اس میں شرکت کرکے اسے مزید مستحکم بنانا چاہیے۔ اپنے محبوب بھارت کو سمجھانا چاہیے کہ سی پیک کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی نہ کرے، اس سے بالآخر بھارت کے عوام کو بھی فائدہ ہوگا۔

بھارت کی سازشوں، بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘کی پاکستان میں کارروائیوں، کلبھوشن یادیو کے حوالے سے ’’را‘‘کی وارداتوں، افغانستان سے سرحد پار کرکے آنے والے افغان دہشت گردوں کی کارروائیوں کو بھی ریکارڈ پر لایا جائے۔ بھارت نے گزشتہ ایک دہائی کے دوران افغانستان میں پاکستان دشمن عناصر کو آلہ کار بنا کر پاکستان میں انتشار و بدامنی میں کردار ادا کیا ہے۔

چین کو روکنے کے لیے امریکا نے ایک غیر رسمی اتحاد بنا رکھا ہے جو مستقبل میں باضابطہ اتحاد کی شکل اختیار کرسکتا ہے اور یہ اتحاد کواڈ کے نام سے ہے، آسٹریلیا اس اتحاد کا اہم رکن ہے جس نے چین کے ساتھ سینگ پھنسا لیے ہیں۔

آسٹریلیا جنوبی بحیرہ چین، تائیوان، ہانگ کانگ کے علاوہ کورونا وائرس کے حوالے سے بھی کھل کر چین مخالف بیانیہ اپنائے ہوئے ہے جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے معاشی تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں۔ امریکا ابھی آسٹریلیا کو سامنے لاکر چین کو اُکسا رہا ہے اور اس کا ضبط آزما رہا ہے۔ اس اتحاد کا اہم رکن بھارت بھی ہے جس کا چین کے ساتھ سرحدی تنازع موجود ہے جب کہ جاپان جنوبی بحیرہ چین میں امریکی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔

دنیا کو دباؤ ڈالنے اور طالبان حکومت کو ایک طرف دھکیلنے کی غلطی سے اجتناب کرنا چاہیے، اس ضمن میں ماضی کے تجربات و عوامل کا تجزیہ بہتر ہو گا۔ طالبان کے پاس حکومت سے قبل کھونے کے لیے کچھ نہ تھا، ایک مرتبہ ان سے حکومت چھینی بھی گئی تھی لیکن یہ بھی مسئلے کا حل نہ نکلا اب بھی ان کے پاس کھونے کے لیے جو کچھ ہے اسے ان کے پاس رہنے دے اور ان کی بین الاقوامی دست گیری اور تعاون کے ساتھ ہی دنیا کے لیے قابل قبول بنانے کے لیے راہ ہموار کی جائے تو بہتر ہو گا۔

یہ بھی واضح ہورہا ہے کہ طالبان اگرچہ سیاسی اقتدار ملنے کے بعد القاعدہ اور مشرقی ترکستان اسلامی تحریک جیسے گروہوں سے قطع تعلق کرنے کا اشارہ دے رہے ہیں لیکن ممکنہ عسکری تصادم کے اندیشے کی بنا پر وہ فی الوقت ان روابط کو مکمل طور سے ختم کرنے پر تیار نہیں ہیں، یہی رویہ واشنگٹن کی تشویش میں اضافہ کرتا ہے۔ طالبان حکومت کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ جن عوامل کی حامی بھر چکے ہیں ان پر عملدرآمد کے راستے نکالنے کی ذمے داری اور وعدے کی تکمیل میں سنجیدگی اختیار کریں۔

پاکستان کی پارلیمنٹ پھر امریکا سے آیندہ تعلقات کی شرائط طے کرے۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کابل سے امریکی فوج کے انخلاء کے بعد انسداد دہشت گردی اور افغانستان کے مسئلے پر تعاون کے علاوہ امریکا کے ساتھ مضبوط تعلقات چاہتا ہے۔ پاکستان علاقائی تجارت اور اقتصادی ترقی کے لیے چین پاکستان اقتصادی راہداری سمیت رابطوں کے دیگر منصوبوں سے استفادہ کرنا چاہتا ہے، اس سلسلے میں امریکا اہم شراکت دار ہوگا۔ اس حقیقت کو سمجھا جائے کہ پاکستان کو اب امریکا کی اتنی ضرورت نہیں ہے جتنی امریکا کو ہماری ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔