الوداع ۔۔۔ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان۔۔۔

اُن کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے چھوٹے ذہن اور دہرے معیار کے حامل ہیں۔


کائنات فاروق October 17, 2021
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ صرف پاکستان کو جوہری قوت بنانے کا خراج تاعمر ادا کرتے رہے۔ فوٹو: فائل

کہتے ہیں کہ وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے ایک جلسۂ عام میں یک دم یہ اعلان کر دیا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہمارے ایٹمی پروگرام کے سربراہ ہوں گے۔۔۔

یہ اعلان ایسا تھا کہ موقع پر موجود ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی بھونچکا رہ گئے تھے۔۔۔ بعد میں اس بابت ذوالفقار علی بھٹو نے ڈاکٹر قدیر سے کہا کہ مجھے خدشہ تھا کہ اگر میں پہلے آپ سے یہ بات کہتا، تو آپ کہتے کہ میں اپنی شریک حیات سے پوچھ کر بتاؤں گا، پھر نہ جانے وہ کیا مشورہ دیتیں۔۔۔ بس اسی وسوسے کے باعث میں نے عوام کے سامنے یہ بات کہہ دی۔

اب مجھے کچھ نہیں پتا۔۔۔ دیتے رہیے آپ اس قوم کو اپنا جواب۔۔۔! یہ واقعہ کسی کی ذہانت کی دھاک بٹھانے یا کسی کا قد چھوٹا کرنے کا نہیں، بلکہ ہمارے جوہری پروگرام کی شدید حساس نوعیت کی عکاسی کرتا ہے۔۔۔ کہ اس کا تصور کرنے سے لے کر اس کی تیاری اور پھر عملی اظہار تک ریاست کے ذمہ داران کو کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے۔۔۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ جنرل ضیا الحق نے 1985ء میں ہندوستان جا کر بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کے کان میں یہی آشکار کیا تھا اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے پاک بھارت جنگ کے بادل چھٹ گئے تھے۔۔۔

آج لگ بھگ 50 سال بعد ہم یہ تصور نہیں کرسکتے کہ 1971ء کے بعد ہماری قوم کی وہ شکست خوردگی کیا ہوگی، جب آدھا ملک الگ ہوگیا ہو، 90 ہزار فوجیوں نے بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہوں۔۔۔ اس پر مستزاد 1974ء میں ہندوستان نے ایٹمی صلاحیت کا اظہار کر دیا، تو یہ امر کتنا شدید دباؤ کا باعث بنا ہوگا۔۔۔ جیسے کسی خوں خوار بھیڑیے نے آپ کا آدھا وجود کاٹ لیا ہو اور اب وہ اپنے تیز دانت مزید تیز کر رہا ہو۔۔۔

ہم بھی ذاتی طور پر دنیا کو مہلک ہتھیاروں سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں، لیکن جناب، یہ کون سا اصول ہے کہ کچھ ممالک ان مہلک ہتھیاروں کے زعم میں کمزور ممالک پر اپنی دھاک بٹھائیں اور انھیں غلام بنانے کے درپے ہوں۔۔۔ یہ کون سا قانون ہے، جس کی بنیاد پر بہت سے کم ظرف حلقے محسن پاکستان کی کردار کشی پر اترے ہوئے ہیں۔۔۔!

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وفات نے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا کہ بانیان پاکستان کے بعد کی تاریخ میں اور کوئی غیر متنازع اور ہمہ گیر قومی ہیرو تھا، جس نے واقعی اس ریاست کی بنیادوں کو مضبوط کیا، وہ صرف اور صرف ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہی تھے۔۔۔ 'ایٹم بم' کوئی انھوں نے تو ایجاد نہیں کیا تھا، انھوں نے تو اپنے خوابوں کی سرزمین پاکستان کے تحفظ کی خاطر اس کے لیے جدوجہد کی تھی، اور بہ حالت مجبوری اس کی تیاری کی، کیوں کہ ہندوستان کے پاس ایٹم بم آچکا تھا، ایسے میں اگر اب بھی کوئی ڈاکٹر صاحب کی خدمات کا اعتراف نہیں کرتا تو وہ یقیناً کافی چھوٹے ذہن کا مالک ہے۔

10 اکتوبر 2021ء یقیناً اس قوم کے لیے کسی بڑے 'یوم الم' سے کم نہیں ہے، کہ اس دن محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان دنیا سے رخصت ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب کی وفات پر جہاں ہم نے پوری قوم کو سوگوار دیکھا، وہیں کچھ ایسے پہلو بھی دیکھنے کو ملے، جنھیں دیکھ کر نہ صرف دل افسردہ ہوا، بلکہ اس قوم کی بدقسمتی پر بھی رونا آیا، کاش ہم انھیں دنیا سے اس بھرپور طریقے سے رخصت کرتے کہ لوگوں کو موازنے کے لیے ہندوستان کے ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالکلام کی آخری رسومات کی تصاویر نہ دکھانا پڑتیں کہ جس میں نریندر مودی نہایت عقیدت سے دونوں ہاتھ جوڑ کر اپنے ہیرو کو رخصت کر رہے ہیں!

1936ء میں متحدہ ہندوستان کی ریاست بھوپال میں آنکھ کھولنے والے ڈاکٹر عبد القدیر خان بٹوارے کے ہنگام کے بعد 1952ء میں کراچی تشریف لے آئے، پھر کراچی کے 'ڈی جی کالج' سے انٹرمیڈیٹ اور 1960ء میں جامعہ کراچی سے فزکس میں گریجویشن کیا۔ 1956ء سے 1959ء تک، 'کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن' میں وزن اور پیمائش کے انسپکٹر کے طور پر ملازم رہے، اور ایک اسکالر شپ کے تحت مغربی جرمنی میں تعلیم حاصل کرنے گئے۔ 1961ء میں آپ مغربی برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی میں 'مادّی سائنس' کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے مغربی جرمنی روانہ ہوئے، جہاں انھوں نے دھات کاری کے کورسز میں علمی طور پر مہارت حاصل کی، لیکن 1965 میں ہالینڈ میں ڈیلفٹ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں داخلہ ہونے پر مغربی برلن چھوڑ دیا۔ آپ نے 1967ء میں ہالینڈ سے میٹالرجی میں ماسٹر اور 1982ء میں بیلجیم سے 'پی ایچ ڈی' کی ڈگری حاصل کی۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان یورپ میں اپنے سنہری مستقبل کو تج کے اس ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کا عزم لیے پاکستان آئے۔ 1972 میں، ڈاکٹر عبدالقدیر نے فزکس ڈائنامکس ریسرچ لیبارٹری، ایمسٹرڈیم میں قائم ایک انجینئرنگ فرم میں شمولیت اختیار کی۔ ایف ڈی او یورینکو گروپ کا ایک ذیلی کنٹریکٹر تھا جو المیلو میں یورینیم افزودگی کا پلانٹ چلا رہا تھا اور نیدرلینڈ میں ایٹمی بجلی گھروں کے لیے جوہری ایندھن کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے گیس سنٹری فیوج کا طریقہ استعمال کرتا تھا۔ اس کے بعد، پھر آپ کو سینئر ٹیکنیکل عہدے کی پیش کش ہوئی، جو آپ نے قبول کرلی، ابتدائی طور پر یورینیم دھات کاری پر مطالعہ کیا، جو کہ ایک انتہائی مشکل عمل ہے۔

مئی 1974ء میں بھارت کے حیرت انگیز ایٹمی تجربے ''اسمائلنگ بدھا'' کے بارے میں جاننے کے بعد، ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایٹم بم بنانے کی کوششوں میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتے تھے، جس کے نتیجے میں وہ پاکستانی سفارت خانے کے عہدے داروں سے ملے، جنھوں نے آپ کو یہ کہہ کر مایوس کیا کہ 'پی اے ای سی' میں بطور میٹالرجسٹ نوکری تلاش کرنا نہایت مشکل کام ہے۔ 13 اگست 1974ء کو، آپ نے ایک خط لکھا، جس پر کسی کا دھیان نہیں گیا، لیکن انھوں نے کوشش جاری رکھی اور ستمبر 1974ء میں پاکستانی سفیر کے ذریعے وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں ایک اور خط پہنچایا۔ آپ کی ان تھک کوششوں کے بعد وزیرِاعظم سیکرٹریٹ نے آپ پر توجہ دی اور آپ پر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی توجہ مرکوز ہوئی۔

ذوالفقار علی بھٹو کی ایما پر 1976ء میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان میں 'انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹری' قائم کی اور 1981ء میں لیبارٹری کا نام ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹری رکھ دیا گیا۔ یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ اس لیبارٹری نے پاکستان کے لیے ایک ہزار کلومیٹر دور تک مار کرنے والے غوری میزائل سمیت چھوٹی اور درمیانی فاصلے تک مار کرنے والے متعدد میزائل تیار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

اسی ادارے نے 25 کلو میٹر تک مار کرنے والے ملٹی بیرل راکٹ لانچرز، لیزر رینج فائنڈر، لیزر تھریٹ سینسر، ڈیجیٹل گونیومیٹر، ریموٹ کنٹرول مائن ایکسپلوڈر، ٹینک شکن گن سمیت پاک فوج کے لیے جدید دفاعی آلات کے علاوہ ٹیکسٹائل اور دیگر صنعتوں کے لیے متعدد آلات بھی بنائے۔ وہ آپ ہی تھے، جن کی وجہ سے مئی 1998ء میں پاکستان اسلامی دنیا کا پہلا ایٹمی ملک بنا، جس کے لیے ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیا الحق سے لے کر نواز شریف تک، سبھی حکومتوں نے اپنا اپنا پورا کردار ادا کیا۔۔۔

اس امر میں کوئی دو رائے نہیں، اگر ہم آج خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں، سر اٹھا کر دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں، تو اس کی بنیادی اور بہت بڑی وجہ ڈاکٹر عبدالقدیرخان ہی ہیں۔ آپ نے اس ملک کی جو خدمت کی ہے، وہ کبھی فراموش نہیں کی جا سکتی، اور نہ ہی اس ملک کے حکم رانوں نے جو آپ کے ساتھ سلوک کیا اسے فراموش کیا جا سکتا ہے۔

آپ کی وفات کی خبر کے بعد ہی یہ اطلاع بھی موصول ہوئی کہ آپ کی نماز جنازہ فیصل مسجد اسلام آباد میں ہوگی، جس کے بعد آپ کو مکمل قومی اعزاز کے ساتھ سپردِ خاک کیا جائے گا۔ وزیراعظم عمران خان کا ایک تعزیتی بیان بھی سامنے آیا، جس میں وہ اپنے وزرا کو جنازے میں شرکت کی تاکید کر رہے تھے، لیکن قوم نے دیکھا کہ وہ وزرا کو تاکید تو کرتے رہے، لیکن اپنی شرکت کو نامعلوم وجوہات کی بنا پر یقینی نہ بنا پائے۔

ڈاکٹر صاحب کا جنازہ دیکھ کر کئی لوگوں نے 'سوشل میڈیا' پر یہ سوالات اُٹھائے کہ یہ کیسا 'اسٹیٹ فیونرل' (State Funeral) تھا؟ جس میں اس ملک کا وزیراعظم شریک ہوا، نہ تین ممالک کے وزرائے اعلیٰ اور دیگر قیادت۔۔۔! اس ملک کی قیادت، جس ملک کو دشمنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے قابل بنانے والے یہی ڈاکٹر عبدالقدیر خان تھے، نہ ہی دفاعی اداروں کے سربراہان، حتٰی کہ صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بھی نہیں سوائے صوبہ سندھ کے۔

یہ منظر دیکھ کر بحیثیت ایک عام پاکستانی، ہمیں بہت رنج ہوا اور دل میں کئی سوالات پیدا ہوئے، کیا قائداعظم محمد علی جناح کے بعد اور کسی کا بھی احسان، ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے بڑا ہے۔۔۔؟ اور اگر نہیں، تو اپنے محسن کے احسانات کو فراموش کر دینا کیا زندہ قوموں کی پہچان ہے۔۔۔؟

دوسری طرف کچھ لوگ ایسے بھی ہیں، جو یہ کہہ رہے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اس ملک میں کوئی اعزاز نہیں دیا گیا، تو وہ یاد رکھیں کہ 1996ء اور 1999 میں انھیں اعلیٰ سول اعزاز 'نشان امتیاز' سے نوازا گیا۔۔۔ جب کہ 1989 میں انھیں 'ہلال امتیاز' بھی دیا جاچکا۔۔۔ رہی بات ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر مختلف 'الزامات' کی، بلکہ نام نہاد الزامات کی، تو یہ جان لیجیے کہ قوموں کی تاریخ میں کچھ چیزیں صرف سمجھنے کے لیے ہوتی ہیں۔۔۔ اس کے لیے دنیا کے دہرے معیارات نہیں بلکہ اصولی پرکھ کرنی چاہیے۔۔۔ ڈاکٹر قدیر جیسی شخصیات کے بلند مرتبے، ایثار اور قربانی کا تعین تو آنے والا وقت کرتا ہے۔

یقیناً ڈاکٹر عبدالقدیر خان اس ملک کا وہ اثاثہ تھے، جنھیں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔۔۔ جیسے کچھ ریکارڈ تاقیامت کے لیے ہوتے ہیں، اور وطن عزیز کی تاریخ میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام ایسے ہی ریکارڈ ساز کھاتوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے درج ہو چکا ہے۔۔۔ ہمارے جدید میزائل اور دیگر جوہری آلات ترقی کرتے جائیں گے، ڈاکٹر قدیر کے رفقا اور ان کے بعد آنے والے ہنر مند اسے مزید آگے لیتے چلے جائیں گے، لیکن اس کی بنیاد میں اگر کسی شخص کا خون پسینا ہوگا، تو وہ صرف ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہوں گے۔۔۔ وہ ہم سب سے بڑھ کر پاکستانی اور محب وطن شخصیت تھے۔۔۔ وہ صرف ہمارے حربی دفاع کو ناقابل تسخیر بنا کر گئے، بلکہ وہ ہمارے بہت سے قومی رازوں کے امین بھی تھے، جو ان کے ساتھ ہی اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

عالمی ذرایع اِبلاغ انھیں ایک 'خطرناک شخص' کے طور پر پیش کر رہا ہے، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے کتنا جان جوکھم میں ڈال کر پاکستان کو 'جوہری قوت' بنایا۔۔۔ ہم صرف ظاہری خبروں اور عالمی دنیا کے پروپیگنڈے کو جانتے ہیں، جس پوزیشن پر وہ تھے۔

یہ صرف انھی کو خبر تھی، انھیں اپنی زندگی کی آخری سانس تک کس کس محاذ پر سرگرم رہنا پڑا، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ صرف پاکستان کو جوہری قوت بنانے کا خراج تاعمر ادا کرتے رہے۔۔۔ یہ یقیناً کوئی آسان قیمت نہیں ہوتی، کہنے والوں کا کچھ نہیں جاتا۔۔۔ اس لیے آج کچھ لوگ ان کی بلند پایہ شخصیت کی خامیوں کو اجاگر کر رہے ہیں، تو کوئی دہرے معیار کا دانش ور اپنے تئیں ''امن پسند'' بن کر ڈاکٹر قدیر کا قد گھٹا رہا ہے، لیکن وہ نہیں جانتے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر کا 'ایٹم بم' اِس خطے میں طاقت کے توازن کا باعث اور امن کا ذریعہ ہے۔۔۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنی زندگی اس ریاست پر وار کر اس دنیا سے جا چکے ہیں۔۔۔ انھیں زبانی اور طبعی طور پر گزند پہنچانے والے اس دنیا کے سجن اور دشمنوں سے بہت پرے۔۔۔

'آسماں تری لحد پہ شبنم افشانی کرے!'

مقبول خبریں