ترقی کا راستہ

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 2 فروری 2022
tauceeph@gmail.com

[email protected]

جب سابق صدر پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں نچلی سطح کا بلدیاتی نظام نافذ ہوا تو پیپلز پارٹی اس کے حامیوں میں شامل تھی۔ پیپلز پارٹی کے کئی رہنما اس بلدیاتی نظام کے ذریعے اپنے ضلعوں کے ناظمین منتخب ہوئے تھے۔

ان میں وزیر بلدیاتی سید ناصر حسین شاہ ، فریال تالپور اور نفیسہ شاہ وغیرہ شامل تھے مگر مذہبی جماعتوں خصوصاً جماعت اسلامی نے اس نظام کے خلاف مہم شروع کردی تھی۔ جماعت اسلامی کے دانشور اس نظام میں خواتین کی 40 فیصد نمایندگی کے حق میں نہیں تھے۔

ان دانشوروں کا کہنا تھا کہ ملک میں مخلوط نظام رائج کیا جارہا ہے، جس سے فحاشی پھیلے گی اور  معاشرہ کی ہئیت متاثر ہوگی مگر پھر جماعت اسلامی نے بلدیاتی انتخابات میں بھرپور حصہ لیا اور نعمت اﷲ خان پہلے ناظم کراچی منتخب ہوئے۔

پیپلزپارٹی کے رہنما تاج حیدرکو چند ووٹوں سے شکست ہوئی مگر جب نعمت اﷲ خان ناظم بنے تو انھیں اندازہ ہوا کہ ایک بااختیار ناظم اور مختلف ٹاؤن کے ناظمین شہرکی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ نعمت اﷲ خان نے ان اختیارات کے تحت شہر کی ترقی کے لیے بہت سی اسکیمیں بنائیں۔ کچھ پر عملدرآمد ہوا اور کچھ پر نہ ہوا ، مگر جماعت اسلامی اس نظام کی حامی ہوئی۔

جب 2008میں پیپلز پارٹی نے وفاق اور صوبہ سندھ میں حکومت بنائی تو ایم کیو ایم اتحادی تھی ، یوں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم میں عرصہ دراز تک نئے بلدیاتی ڈھانچہ پر مشاورت ہوئی۔ ایک قانون بھی نافذ ہوا مگر ایم کیو ایم کی حکومت سے علیحدگی کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت نے ایک قانون بنایا۔ اس قانون کا محور بلدیات کا محکمہ تھا ، کونسلرکا ادارہ بے اختیار ہوا۔ کراچی سمیت صوبے کے تمام شہر موئنجودڑو کی شکل اختیار کر گئے۔

پیپلز پارٹی کے وزراء اس قانون کی شان میں گن گاتے نہیں تھکتے تھے مگر گزشتہ سال پیپلز پارٹی کی قیادت کو صورتحال کی سنگینی کا احساس ہوا اور ایک نیا قانون تیار ہوا۔ پیپلز پارٹی نے صوبائی اسمبلی میں اکثریت کی بنیاد پر قانون منظور کرایا۔ اس قانون پر اسمبلی میں بحث کی اجازت نہیں دی۔

تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کی قائم کردہ روایت پر عمل کیا۔ وفاقی حکومت سے الیکٹرونک ووٹنگ مشین، اسٹیٹ بینک کی خود مختاری اور منی بجٹ کو منظور کراتے وقت اختیارکیا تھا۔ اس قانون کو صرف تحریک انصاف اور ایم کیو ایم نے ہی نہیں بلکہ عوامی نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام اور مسلم لیگ ن وغیرہ نے مسترد کیا تھا۔ ان جماعتوں نے پہلے اخباری بیانات کے ذریعے مہم چلائی جب کہ جماعت اسلامی نے پہل کی۔

جماعت اسلامی نے سندھ اسمبلی کے دروازہ پر دھرنا دیا ، اس دوران ٹنڈو الٰہ یار میں ایم کیو ایم کے کارکن کا قتل ہوا اور یوں یہ معاملہ لسانی شکل اختیار کرگیا۔ آفاق احمد جیسے انتہا پسندوں کو آگ برسانے کا موقع ملا ۔ ایم کیو ایم نے کراچی پریس کلب کے سامنے دھرنا کا اعلان کیا۔ ایم کیو ایم والے وزیر اعلیٰ ہاؤس چلے گئے، پولیس نے بربریت کی انتہا کی ، ایم کیو ایم کا ایک کارکن جاں بحق ہوا۔ رکن قومی اسمبلی کشور زہرہ جو سوشل ورکر اور سیکیولر خیالات کے لیے معروف ہیں آنسو گیس سے ان کی طبیعت اتنی بگڑی کہ ان کو اسپتال لے جانا پڑا۔ پولیس کے اس آپریشن سے جنرل ضیاء الحق کے دورکی یاد تازہ ہوگئی۔

احتجاج کا حق انسانی حقوق کا عالمی چارٹر اور 1973 کے آئین میں درج ہے۔ پرامن مظاہرین پر تشدد پیپلز پارٹی حکومت پر ایک سیاہ دھبہ ہے ، مگر وزیر اعلیٰ نے صورت حال کی سنگینی کو محسوس کیا اور انھوں نے ایم کیو ایم کے دھرنا پر پولیس کے تشدد پر افسوس کا اظہار کیا اور اس معاملہ کی تحقیقات کرانے کا اعلان کیا۔ وزیر اعلیٰ ایم کیو ایم کے ہلاک ہونے والے کارکن اسلم خان کے لواحقین سے تعزیت کرنے ان کے گھر گئے اور رکن صوبائی اسمبلی صداقت حسین سے ٹیلی فون پر بات چیت کی اور ان کی خیریت دریافت کی۔

سید مراد علی شاہ نے وفاقی وزیر امین الحق سے ٹیلی فون پر بات چیت میں بلدیاتی قانون پر مزید بات چیت کا عندیہ دیا۔ وزیر اعلیٰ نے یہ مناسب رویہ اس وقت اختیارکیا جب ان کے وزیر اطلاعات سعید غنی اور ترجمان مرتضیٰ وہاب ایم کیو ایم کے خلاف بیان بازی میں مصروف تھے مگر سید مرا د علی شاہ کے اس مناسب رویہ کی بناء پر کراچی کی فضاء میں تناؤ ختم ہوا۔ نامعلوم افراد نے اسی دن شام کو بازار اور دکانیں بند کرانی شروع کی تھیں ، البتہ رینجرز کے موٹر سائیکل پر سوار چاق و چوبند جوانوں نے فوری طور پر کارروائی کر کے دکانیں کھلوا دیں۔

ایم کیو ایم کی دوسرے دن ہڑتال کی اپیل کا کوئی خاطرخواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ بعض سینئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کے احتجاج کے لیے ایک گھنٹہ کا وقت طے تھا ، یہی وجہ ہے کہ دوسرے دن ایم کیو ایم کے بعض کارکنان کی دکانیں بند کرانے کی کوشش ناکام ہوئی۔

27 جنوری کو رات گئے پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی میں معاہدہ ہوا۔ جماعت اسلامی نے 29 دن سے جاری دھرنا ختم کیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس معاہدہ میں یقین دہانی کرائی کہ کراچی کے میئر اب واٹر بورڈ اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے چیئرمین ہوں گے۔ بلدیہ کراچی کے تعلیمی ادارے اور اسپتال اب دوبارہ بلدیہ کے کنٹرول میں دیے جائیں گے۔ ایم کیو ایم اور پی ایس پی نے اس معاہدے کو مسترد کیا ہے۔

ایم کیو ایم کے صوبائی اسمبلی میں قائد خواجہ اظہار الحسن کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی اپنے ناظم نعمت اﷲ خان  والے اختیارات واپس نہیں لے پائی ہے اور حافظ نعیم کو اس کا اندازہ اگلے پندرہ دن میں ہوجائے گا۔ پیپلز پارٹی کی معاہدوں پر عملدرآمد کے بارے میں شہرت خاصی ضعیف ہے مگر موجودہ بلدیاتی قانون میں وزیر اعلیٰ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ قانون میں ترمیم کرسکتے ہیں۔ اس بناء پر اس معاہدے کی شقوں کو فوری طور پر قانون کا حصہ بنانا چاہیے۔

وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کو ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کے اراکین صوبائی اسمبلی سے اس بلدیاتی قانون کو مزید بہتر بنانے کے لیے مذاکرات شروع کرنے چاہیئیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ آسمان سے بجلیاں گرانے والی قوت کی پالیسی کسی بھی وقت تبدیل ہوسکتی ہے۔ اس کا واضح اظہار 26 جنوری کی سہ پہر کو ہوگیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کو فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کرانے کا فیصلہ کرنا چاہیے اور منتخب میئر کو تمام اختیارات دینے کے فیصلہ پر عملی طور پر عملدرآمد کے لیے اپنے رہنماؤں کی ذہن سازی کرنی چاہیے۔

کوٹہ سسٹم کے قانون کو پامال کرتے ہوئے حکومت نے کراچی کے تمام اضلاع میں گریڈ 1سے گریڈ 16تک کی آسامیوں کو اندرونِ سندھ منتقل کیا۔ سندھ پبلک سروس کمیشن کی ساکھ ختم ہوئی اور ہائی کورٹ کے ایک فیصلہ کے تحت سندھ پبلک سروس کمیشن معطل ہوا، جس کا سارا نقصان کراچی اور حیدرآباد کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ہوا۔

ہر محکمہ میں سینئر عملہ کو نظر انداز کرتے ہوئے جونیئر افراد کو ترقی اور مختلف آسامیوں پر تقرر نے صورتحال کو مزید خراب کیا۔ اس صورتحال میں اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے ترقی پسند دانشوروں کی ذمے داری زیادہ ہوگئی ہے۔

انھیں کسی انتہا پسندانہ مہم کا حصہ بننے کے بجائے ترقی کے سائنسی اصولوں کے مطابق نچلی سطح کے اختیارکے بلدیاتی نظام کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے ملازمتوں میں قانون کی پامالی کے خلاف رائے عامہ کو ہموارکرنا چاہیے۔ یہی ذمے داری شہروں سے تعلق رکھنے والے ترقی پسند دانشوروں پر عائد ہوتی ہے۔ ان کا فرض ہے کہ رائے عامہ کو یہ باور کرایا جائے کہ سندھ میں آباد تمام برادریوں کا مستقل سندھ کی یکجہتی سے منسلک ہے۔

اسلام آباد نے کبھی سندھ کے شہروں کو اہمیت نہیں دی۔ ان کی طرف دیکھنے سے نہ پہلے کچھ ملا تھا نہ اب کچھ ملے گا۔ سندھ کی منتخب قیادت کا احتساب ضرور ہونا چاہیے مگر سندھ کی یکجہتی پرکوئی سوال نہیں اٹھنا چاہیے، یہی راستہ سندھ کی ترقی کا راستہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔