خبردار۔۔۔۔ لکھنا منع ہے!

عبداللطیف ابو شامل  جمعـء 21 فروری 2014
شہرکوخوب صورت رکھنے کے لیے قانون منظور ۔ فوٹو : فائل

شہرکوخوب صورت رکھنے کے لیے قانون منظور ۔ فوٹو : فائل

 دیواریں، تشہیر اور ابلاغ کا سستا ترین ذریعہ ہیں اور خوش نویسوں کی بڑی تعداد ان سے اپنے کنبے کی کفالت کر رہی ہے۔

خیبر سے کراچی تک شاید ہی کوئی دیوار ہو، جو اشتہار بنی ہوئی نہ ہو۔ شہر کی یہی دیواریں عوام کی بھڑاس اور غصہ نکالنے کے ساتھ بعض عناصر کی طرف سے اپنے مخالفین کو دھمکانے کا ذریعہ بھی ہیں۔ حکیم، نجومی، ادویہ ساز اداروں، سیاسی، سماجی، مذہبی اور لسانی تنظیموں سبھی کا نشانہ یہ دیواریں ہیں۔ دیواروں میں ہمارے سماج کا چہرہ بھی نظر آتا ہے۔ ہم ان سے معاشرے کے مختلف رجحانات کا اندازہ کرسکتے ہیں۔

لیکن اب دیواروں پر لکھنا، پوسٹر اور جھنڈے لگانا جرم بن گیا ہے اور مجرم کو اس کی سزا بھگتنا ہوگی۔ سندھ اسمبلی نے ایک قانون منظور کیا ہے، جس کے تحت دیواروں کو تشہیری مقاصد کے لیے استعمال کرنے پر کم سے کم چھے ماہ قید اور پانچ ہزار جرمانہ کیا جائے گا۔ اس قانون کے مطابق سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں کی نجی اور سرکاری عمارتوں کی دیواروں اور دوسری جگہوں پر مالکان یا متعلقہ حکام کی مرضی کے بغیر کسی بھی قسم کی چاکنگ کرنا اور پوسٹر لگانا جرم تصور کیا جائے گا اور اس کی صفائی پر آنے والے اخراجات بھی ذمے داروں سے وصول کیے جائیں گے۔ اس جرم کا مقدمہ درج کرنے سے قبل خصوصی کمیشن صورت حال کا جائزہ لے گا، اور اس کی سفارش کی روشنی میں جرم کا تعین کیا جائے گا۔ اس کمیشن میں قانون داں، تاجر، سول سوسائٹی کے ارکان اور انجنیئر شامل ہوں گے، جب کہ چیئرمین کی تعیناتی کا اختیار حکومت سندھ کے پاس ہوگا۔

اس سلسلے میں صوبائی وزیر شرجیل میمن نے کہا کہ شہری علاقوں اور خاص طور پر کراچی میں ہر جگہ چاکنگ کی گئی ہے اور یہ غیرقانونی ہے۔ اس سے متعلق بل کی منظوری ایک اچھا قدم ہے۔ انہوں نے سیاسی جماعتوں کو مشورہ دیا کہ وہ رضاکارانہ طور پر اپنی پارٹی کے جھنڈے اتار دیں، ورنہ حکومت کو کارروائی کرنا ہوگی، سیاسی کارکن اجتماعات میں اپنے ساتھ جھنڈے لائیں اور بعد میں واپس لے جائیں۔ ایم کیو ایم کے رکن سندھ اسمبلی اور قائد حزب اختلاف فیصل سبزواری کا کہنا تھا کہ کئی سیاسی جماعتیں غریب ہیں، وہ ٹی وی پر اشتہارات کا خرچ برداشت نہیں کرسکتیں، ان کے لیے وال چاکنگ مددگار ثابت ہوتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی سید مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں اپنا کردار ادا کریں اور لوگوں کی املاک پر لگے ہوئے جھنڈے رضاکارانہ طور پر ہٹا دیں، کیوں کہ انہیں اس سے کسی نہ کسی طرح تکلیف پہنچتی ہے۔ مسلم لیگ ن کے رکن عرفان مروت نے بھی بل کی تعریف کی۔

 

مسلم لیگ فنکشنل کی رکن نصرت سحر عباسی کا موقف تھا کہ جھنڈے اتارنے کی ابتدا پاکستان پیپلز پارٹی کو کرنا چاہیے، کیوں کہ وہ حکم راں جماعت ہے، اس کے بعد کارروائی ہوتی ہے تو کسی دوسری جماعت کو اعتراض نہیں ہوگا۔ مہتاب اکبر راشدی نے جرمانے میں اضافے کی تجویز پیش کی۔ مسلم لیگ فنکشنل کی اس رکن کا کہنا تھا کہ پانچ ہزار روپے کا تو امیر لوگ برگر کھاتے ہیں، وہ یہ جرمانہ بہ خوشی ادا کردیں گے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے سینئر رکن سید سردار احمد کا کہنا تھا کہ یہ بل قابل تعریف ہے، لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کے ذریعے لوگوں کو انتقام کا نشانہ بنایا جائے، اس لیے مکمل تحقیقات کے بعد ہی کوئی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ سندھ اسمبلی میں بحث کے بعد وال چاکنگ کے خلاف بل منظور کرلیا گیا۔

اس قانون کی منظوری کے ساتھ ایک دل چسپ واقعہ یہ ہوا کہ سندھ اسمبلی کی عمارت میں نامعلوم افراد وال چاکنگ کر گئے۔ اس پر سیکیوریٹی انچارج سمیت پانچ اہل کاروں کو معطل کردیا گیا۔ اس پر عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ جب بااثر اور بااختیار سرکاری ادارے اور قانون بنانے اور ان کی منظوری دینے والے طاقت ور لوگوں کو بھی ایسی صورت حال کا سامنا ہو تو عام آدمی کے لیے ان سے بچنا کیسے آسان ہو گا۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت واقعی سندھ کو خوب صورت اور صاف ستھرا بنانا چاہتی ہے تو حقیقی معنوں میں اس قانون پر عمل درآمد یقینی بنائے اور حکم راں جماعت سب سے پہلے اپنے کارکنوں کو اس سلسلے میں پابند کرے۔ اس کا یہ عمل دوسروں کے لیے قابل تقلید ہو گا اور کسی کے پاس اپنی چاکنگ کے خلاف کارروائی کے خلاف بولنے کا جواز نہیں ہو گا۔

گذشتہ سال اپریل میں سندھ کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد نے بھی وال چاکنگ سے متعلق ایک آرڈی نینس جاری کرنے کی نوید دی تھی۔ آرڈی نینس کے تحت، کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہوگا کہ وہ کسی پر تنقید کرے یا اس کا مذاق اڑا سکے۔

یہ حقیقت ہے کہ دیواری تحریریں یا اشتہارات شہر اور عمارتوں کی خوب صورتی برباد کررہی ہیں۔ کراچی سمیت صوبے بھر میں کوئی ایسی سرکاری یا نجی عمارت، دفاتر، پولز اور دوسری جگہیں نہیں جنہیں تشہیری مقاصد کے لیے بے دریغ استعمال نہ کیا گیا ہو۔ اس عمل میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ نجی کمپنیاں بھی شامل ہیں، جو اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لیے معاوضہ دے کر خوش نویسوں اور پینٹرز سے کام کرواتی ہیں۔ حکومت نے سیاسی جماعتوں کے اراکین سے کہا ہے کہ وہ اپنے اپنے حلقوں میں وال چاکنگ کے خاتمے میں حکومت کا ساتھ دیں۔ کسی جلسے، جلوس اور تقریب کے موقع پر پارٹی پرچم کو کارکنان کے ہاتھوں اور گاڑیوں تک ہی محدود رکھا جائے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس سے قبل جو قوانین بنائے گئے ہیں، جو عمل سے محروم ہیں، کہیں یہ قانون بھی کتاب میں درج رہ جائے اور اس پر عمل نہ کیا جائے۔ لیکن ہمیں اچھے اقدامات کی تعریف کرنی چاہیے اور اس پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔