تربیت اولاد

فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

عموماً ہم اولاد اس لیے چاہتے ہیں کہ اولاد سے ہمیں خوشی اور زندگی میں طاقت ملتی ہے جب کہ بے اولاد شخص زندگی میں تنہائی محسوس کرتا ہے۔

اولاد بڑھاپے کی لاٹھی سمجھی جاتی ہے جب کہ بے اولاد بڑھاپے کی اس امید سے محروم ہوتا ہے۔ اولاد ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہے اور بے اولاد کی زندگی اس رنگ و نُور سے خالی ہوتی ہے۔ صرف یہی نہیں بل کہ اولاد ہمارے مرنے کے بعد ہمارے وجود کی نشانی بھی ہوتی ہے۔ غرض یہ کہ اولاد اﷲ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہونے کے ساتھ دنیاوی زندگی کی زیب و زینت بھی ہے، جیسا کہ ارشاد ربانی کا مفہوم ہے: ’’مال اور اولاد دنیاوی زندگی کی زینت ہیں۔‘‘ (سورۃ الکہف) انبیائے کرامؑ نے اﷲ تعالیٰ سے اولاد عطا کرنے کی دعا بھی کی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اﷲ تعالیٰ سے دعا کی: ’’میرے پروردگار! مجھے ایک ایسا بیٹا دیدے جو نیک لوگوں میں سے ہو۔ چناں چہ ہم نے انہیں ایک بُردبار لڑکے کی خوش خبری دی۔‘‘

(سورۃ الصافات)

حضرت زکریا علیہ السلام نے دعا کی: ’’اور مجھے اپنے بعد اپنے چچا زاد بھائیوں کا اندیشہ لگا ہوا ہے اور میری بیوی بانجھ ہے۔ لہٰذا آپ اپنے پاس سے ایک ایسا وارث عطا کر دیجیے جو میرا بھی وارث ہو اور یعقوب کی اولاد سے بھی میراث پائے۔ اے پروردگار! اسے ایسا بنائیے جو (خود آپ کا) پسندیدہ ہو۔ (آواز آئی:) اے زکریا! ہم تمہیں ایک ایسے لڑکے کی خوش خبری دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہوگا۔‘‘ (سورۃ مریم)

اولاد سے متعلق نیک بندوں کی دعا بھی اﷲ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں ذکر فرمائی ہے، مفہوم: ’’ہمارے پروردگار! ہمیں اپنی بیوی بچوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما۔‘‘ (الفرقان)

مذکورہ بالا آیاتِ قرآنیہ سے معلوم ہوا کہ اولاد اﷲ کی عطا کردہ ایک عظیم نعمت ہے، لہٰذا ہمیں اس نعمت کی قدر کرنی چاہیے، اور وہ یہ ہے کہ ہم ان کی تعلیم و تربیت میں کوئی کوتاہی نہ کریں۔ اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔‘‘ (سورۃ التحریم) مفسرین کرام نے اس آیت کی تفسیر میں تحریر کیا ہے کہ ہر شخص پر فرض ہے کہ اپنی بیوی اور اولاد کو فرائض شرعیہ اور حلال و حرام کے احکام کی تعلیم دے اور اس پر عمل کرانے کی کوشش کرے۔ رسول اﷲ ﷺ نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور اس کی ذمہ داری کے متعلق پوچھا جائے گا۔ امیر اپنی رعایا کا، مرد اپنے اہل و عیال کا، عورت اپنے شوہر کے گھر اور بچوں کی ذمہ دار ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم)

بچوں کی دینی تعلیم و تربیت کے لیے درکار چند امور کا خاص خیال رکھیں:

بچوں کو توحید کی تعلیم دیں:

اولاد کی تربیت کے لیے والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو سب سے پہلے توحید کی تعلیم دیں۔ بچوں کی شروع سے ہی ایسی اسلامی تربیت کریں کہ وہ زندگی کی آخری سانس تک موحد رہیں۔ ان کا عقیدۂ توحید زندگی کے کسی موڑ پر نہ لڑکھڑائے۔ بچوں کے ذہن پر ایام طفولت سے یہ نقش کردیں کہ جس ذات کی ہم عبادت کرتے ہیں، اس کا نام اﷲ ہے، وہ اپنی ذات و صفات میں منفرد ہے، اس جیسی کوئی ذات نہیں، اس کی بادشاہت میں کوئی شریک نہیں، ساری کائنات کا نفع و نقصان، موت و حیات، بیماری و شفا، اس کے دست قدرت میں ہے۔

وہ غنی ہے، اور ہم سب اس کے محتاج ہیں۔ جس وقت بچہ بولنا سیکھے سب سے پہلے اسے اپنے خالق و مالک ’’اﷲ‘‘کا مبارک نام سکھائے، پھر کلمۂ توحید (لا الہ الا اﷲ) سکھائے۔ حضرت عبداﷲ بن عباسؓ کی روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اپنے بچوں کی زبان سب سے پہلے لا الہ الا اﷲ سے کھلواؤ۔‘‘ بچہ جب تھوڑا سا سمجھنے لگے تو اس کی سمجھ کے مطابق اسے حلال و حرام کی تعلیم دیں۔ (حاکم) اﷲ کی وحدانیت کی تعلیم کے ساتھ ان کو حضور اکرم ﷺ کے آخری نبی و رسول ہونے کی تعلیم دیں اور ان کو بتائیں کہ کل قیامت تک صرف اور صرف نبی اکرم ﷺ کے نقش قدم پر چل کر ہی دونوں جہاں کی کام یابی و کام رانی حاصل کی جاسکتی ہے۔

بچوں کو قرآن کریم پڑھائیں:

قرآن کریم اﷲ تعالیٰ کا پاک کلام ہے جو اﷲ تعالیٰ نے قیامت تک آنے والے انس و جن کی راہ نمائی کے لیے آخری نبی حضور اکرم ﷺ پر وحی کے ذریعہ نازل فرمایا۔ اپنے بچوں کو سب سے قبل ناظرہ پڑھائیں، چھوٹی چھوٹی سورتیں یاد کرائیں، اگر حافظ قرآن بنائیں تو نور علیٰ نور۔ رسول اﷲ ﷺ نے امت کو بہ کثرت قرآن کی تلاوت کا حکم دیا کیوں کہ قرآن کل قیامت کے دن پڑھنے والوں کی سفارش کرے گا اور قرآن کی سفارش قبول کی جائے گی۔ (مسلم) رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، ،مفہوم: ’’قرآن پڑھنے والے اور اس پر عمل کرنے والے کے والدین کو ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی اور چمک سورج کی روشنی اور چمک سے بھی زیادہ ہوگی۔‘‘ (ابوداود)

بچوں کی نماز کی نگرانی کریں:

ہر مسلمان کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنی ذات سے نمازوں کا اہتمام کرکے اپنی اولاد کی بھی نمازوں کی نگرانی کرے۔ جس طرح اولاد کی دنیاوی تعلیم اور ان کی دیگر ضرورتوں کو پورا کرنے کی دن رات فکر کی جاتی ہے اسی طرح بل کہ اس سے زیادہ ان کی آخرت کی فکر کرنی چاہیے کہ وہ کس طرح جہنّم کی آگ سے بچ کر ہمیشہ کی جنّت میں داخل ہونے والے بن جائیں۔ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’بچے جب سات سال کے ہو جائیں تو نماز کا حکم دیں اور جب دس سال کے ہوجائیں تو نماز میں کوتاہی کرنے پر ان کی سرزنش کریں۔ دس سال کی عمر میں ان کے بستر الگ کردیں۔‘‘ (ابوداود) عام طور پر بچے سات سال کی عمر میں سمجھ دار ہوجاتے ہیں۔

اس وقت ان کو خدا پرستی کے راستے پر ڈالنا چاہیے اور ان کو نماز پڑھنے کی ترغیب دینی چاہیے، دس سال کی عمر میں ان کا شعور کافی پختہ ہوجاتا ہے اور بلوغ کا زمانہ قریب آجاتا ہے، اس لیے نماز کے معاملہ میں ان پر سختی کرنی چاہیے، نیز اس عمر کو پہنچ جانے پر ان کو الگ لٹانا چاہیے، ایک ساتھ ایک بستر پر لٹانے میں مفاسد کا اندیشہ ہے۔ نماز کے ساتھ بچوں کو وقتاً فوقتاً روزے بھی رکھواتے رہیں تاکہ بلوغ سے قبل وہ روزہ رکھنے کے عادی بن جائیں۔

اﷲ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں ارشاد فرماتا ہے، مفہوم: ’’(اے محمد (ﷺ)!) اپنے گھر کے لوگوں پر نماز کی تاکید رکھیے اور خود بھی اس پر جمے رہیے۔‘‘ (سورہ طہ) اس خطاب میں ساری امت نبی اکرم ﷺ کے تابع ہے، یعنی ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود بھی نماز کی پابندی کرے اور اپنے گھر والوں کو بھی نماز کی تاکید کرتا رہے۔ اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا قرآن کریم میں ذکر فرمائی، مفہوم: ’’اے میرے پالنے والے! مجھے نماز کا پابند رکھ اور میری اولاد میں سے بھی۔ (یعنی مجھے اور میری اولاد کو نماز کا پابند بنادے)‘‘ (سورہ ابراہیم) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے ساتھ اپنی اولاد کے لیے بھی نماز کی پابندی کرنے کی دعا مانگی، جس سے معلوم ہوا کہ ہر شخص کو اپنے ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی نمازکی فکر کرنی چاہیے۔

بچوں کو قرآن و حدیث کی بنیادی تعلیم سے روشناس کریں:

اب عمومی طور پر ہمارے بچے اسکول و کالج پڑھنے جاتے ہیں۔ یقیناً ہم اپنے بچوں کو ڈاکٹر، انجینیر اور لیکچرار بنائیں لیکن سب سے قبل ان کو مسلمان بنائیں۔ لہٰذا اسلام کے بنیادی ارکان کی ضروری معلومات کے ساتھ حضور اکرم ﷺ کی سیرت اور اسلامی تاریخ سے ان کو ضرور رُوشناس کرائیں۔ اگر ہمارا بچہ ڈاکٹر یا انجینیر بنا لیکن شریعت اسلامیہ کے بنیادی احکام سے ناواقف ہے تو کل قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ کے سامنے ہمیں جواب دینا ہوگا۔

گرمی وغیرہ کی چھٹیوں کا فائدہ اٹھا کر بچوں کو قرآن و حدیث کی تعلیم دینے کا خصوصی بندوبست کریں۔ روز مرہ استعمال ہونے والی دعاؤں کو یاد کراکر ان کو پڑھانے کا اہتمام کرائیں۔ احادیث میں چالیس حدیثیں یاد کرنے کی خصوصی فضیلت وارد ہوئی ہے، لہٰذا چھوٹی حدیثیں اردو یا انگریزی یا عربی زبان میں یاد کرائیں۔ اس وقت اسلامی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، لہٰذا علماء کرام کی تحریر کردہ تاریخ کی کتابیں ان کو ضرور پڑھائیں۔

بچیوں کو شرم و حیا والے لباس پہنائیں:

ان دنوں ہماری مسلم لڑکیوں حتی کہ دینی گھرانوں کی بچیوں کا لباس غیر اسلامی ہوتا جارہا ہے۔ مختلف تقریبات میں ایسا لباس پہن کر ہماری مسلم بچیاں شریک ہوتی ہیں کہ دنیا کا کوئی بھی عالم اس کے جواز کا فتوی نہیں دے سکتا ہے، اس لیے ہمیں اپنی بچیوں کو ابتداء سے ہی تنگ لباس پہننے سے روکنا چاہیے تاکہ بالغ ہونے تک وہ ایسا لباس پہننے کی عادی بن جائیں جس میں شرم و حیا ہو، جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے سورۃ الاعراف میں تقوی کا لباس پہننے کی تعلیم دی ہے۔ تقوی کا لباس وہی ہوگا جو نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات کے خلاف نہ ہو، مثلاً ایسا تنگ اور باریک لباس نہ ہو جس سے جسم کے اعضاء نظر آئیں، نیز عورتوں کا لباس مردوں کے مشابہ نہ ہو۔

بچوں کو ٹیلی وژن اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے روکیں:

معاشرے کی بے شمار برائیاں ٹیلی وژن اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے پھیل رہی ہیں، لہذا فحش و عریانیت اور بے حیائی کے پروگرام دیکھنے سے اپنے آپ کو بھی دور رکھیں، اور اپنی اولاد و گھر والوں کی خاص نگرانی رکھیں تاکہ یہ نئے وسائل ہمارے ماتحت لوگوں کی آخرت میں ناکامی کا سبب نہ بنیں کیوں کہ ہم سے ہمارے ماتحت لوگوں کے متعلق بھی سوال کیا جائے گا جیسا کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ذکر کیا گیا۔

بچوں کو ادب سکھائیں:

بچوں کو بڑوں کا ادب کرنے، چھوٹوں پر شفقت کرنے، سب سے اچھے لہجے میں گفت گُو کرنے، پڑوسی، یتیم، رشتہ داروں اور بیواؤں کا خیال رکھنے اور عام لوگوں کی خدمت کرنے کی ترغیب دیتے رہیں۔ کھانے پینے اور سونے وغیرہ میں نبی اکرم ﷺ کی سنتوں پر عمل کرنے ترغیب دیتے رہیں۔ گالی گلوچ، جھوٹ، غیبت، چوری، رشوت اور سگریٹ نوشی سے دور رہنے کی ان کو تعلیم دیتے رہیں۔ خود بھی پوری زندگی صرف حلال روزی پر اکتفاء کریں اور بچوں کو بھی صرف حلال روزی کھانے کی ترغیب دیتے رہیں۔ وقتاً فوقتاً ان کو موت یاد دلاکر اخروی زندگی کی تیاری کے لیے ان کی ذہن سازی کرتے رہیں۔

والدین سے درخواست ہے کہ ہم اپنے بچوں کی دنیاوی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کی اپنی حد تک ضرور کوشش کریں لیکن یہ ذہن میں رکھیں: ’’جس دن نہ کوئی مال کام آئے گا، نہ اولاد۔ ہاں جو شخص اﷲ کے پاس سلامتی والا دل لے کر آئے گا۔‘‘

(سورۃ الشعراء) یعنی جو اس دنیاوی زندگی میں نیک عمل کرے گا، اسی کو نجات ملے گی۔ اگر ہم نے اپنی قیمتی زندگی‘ اپنی اور اولاد کی دنیاوی زندگی کے مسائل کو حل کرنے میں لگادی اور ہم اپنی اخروی زندگی کی تیاری نہ کرسکے تو ہمارے لیے ناکامی ہے۔ لہٰذا ہم یہ دنیاوی فانی زندگی اخروی زندگی کو سامنے رکھ کر گزاریں۔ اگر ہم نے اولاد کی صحیح تعلیم و تربیت کی ہی ہے تو ہمارے مرنے کے بعد اولاد کے ذریعہ کیے جانے والے نیک اعمال کا ثواب ہمیں بھی ضرور ملے گا ان شاء اﷲ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔