ہرا رنگ ڈالا ہری ہری نے
سامعین ناظرین اور حاضرین غیر حاضریں سب کو چینل ’’ہیاں سے ہواں تک‘‘ کی طرف سے مبارک باد
سامعین ناظرین اور حاضرین غیر حاضریں سب کو چینل ''ہیاں سے ہواں تک'' کی طرف سے مبارک باد، کیوں کہ مملکت ناپرسان کی ایک ولدیت ''خیر پہ خیر'' کو سرسبز و شاداب بنانے کا اعلان کر دیا گیا ہے، اس سبز و شاداب خوش خبری پر چرچا کرنے کے لیے آج ہم نے اپنے سر سبز پروگرام سوری ٹاک شو ''چونچ بہ چونچ'' میں ایک مشہور سبز قدم جناب سبز علی خان شاداب کو دعوت دی ہے، ظاہر ہے کہ ایسے سرسبز پروگرام کو شاداب بنانے کے لیے ہم اپنے مانے ہوئے سبز قدم تجزیہ نگاروں کو بلانا کیسے بھول سکتے ہیں۔ ان میں یہ جو علامہ بریانی عرف برڈفلو ہیں، یہ تو خاندانی سبز قدم ہیں ۔
اس پشتنی سبز قدمی کا ثبوت وہ یوں فراہم کرتے ہیں کہ ان کی تین پشتیں مسلم لیگی تھیں جس کی سبز قدمی کے قصے کتابوں میں لکھے ہوئے ہیں، دوسرے تمام سبز قدموں کی طرح ان کا بھی دعویٰ ہے کہ ان کے دادا جناب قائداعظم کو ایک جلسے میں دیکھنے کا شرف حاصل کر چکے ہیں اور والد صاحب ایک ایسے صاحب کے لنگوٹیا یار تھے جو قائداعظم کے ایک باڈی گارڈ کے داماد کے ساڑھو تھے، والدہ ماجدہ اور دادی قائدہ تو اتنی پکی مسلم لیگی تھیں کہ دونوں نے اپنے ماتھے ناک کان بلکہ ٹھوڑی تک پر سبز خال کھدوا رکھے تھے، ہمارے دوسرے سبز قدم یعنی تجزیہ نگار کو تو آپ جانتے ہیں کہ چشم گل چشم عرف قہر خداوندی عرف سابق ڈینگی مچھر اتنے پکے مسلم لیگی ہیں کہ کھانے میں سوائے پالک ساگ ہرے دھینئے اور سلاد کے علاوہ اور کچھ کھاتے ہی نہیں، چائے بھی سبز ہی پیتے ہیں اور زندگی بھر انھوں نے ٹماٹر کو کبھی ڈنڈے سے بھی نہیں چھوا ہے، تو آیئے اپنے پروگرام کوان ہری بوٹیوں کو ہرا کرتے ہیں ۔۔۔۔ ہاں تو جناب شاداب علی خان سبز صاحب
شاداب : یہ آپ کس سے بات کر رہے ہیں۔
اینکر : آپ سے
شاداب : مگر میرا نام شاداب خان سبز نہیں بلکہ سبز خان شاداب ہے۔
اینکر : سوری ۔۔۔ ہاں تو سبز خان شاداب صاحب سنا ہے۔ آپ کی ولدیت کو سرسبز بنانے کا پروگرام شروع ہو گیا ہے۔شاداب : بالکل ۔۔۔ تھوڑا دیر سے شروع ہوا ہے کیونکہ شجر کاری کا موسم تقریباً ختم ہو چکا ہے لیکن دیر آئد درست آئد ۔۔۔ آیندہ موسم میں سہی ۔۔۔ لیکن ہم ولدیت کو سر سبز و شاداب کر کے ہی چھوڑیں گے
چشم : گویا جب تک سر سبز و شاداب نہ ہو گی تب تک آپ اسے چھوڑیں گے نہیں۔شاداب : کیسے چھوڑ سکتے ہیں، ہم نے تہیہ کر لیا ہے اور جب ہم تہیہ کرتے ہیں تو جب تک تہیئے کو توبہ گار نہیں کرتے تب تک اسے چھوڑتے نہیں۔
علامہ : کیسے نہیں چھوڑتے، اب تک تو آپ نے صرف ''چھوڑنے'' کا کام کیا ہے اور کچھ بھی نہیں کیا ہے۔
شاداب : چھوڑنے سے آپ کا مطلب کیا ہے۔
علامہ : میرا مطلب چھوڑنے سے چھوڑنا ہی ہے۔
شاداب : لیکن میں نے کہہ دیا ہے کہ ہم ''چھوڑتے'' نہیں ہیں اور ولدیت کو بھی جب تک سرسبز و شاداب نہیں کریں گے نہیں چھوڑیں گے۔
چشم : ایسے تو آ پ نے کرپشن کو بھی نہ چھوڑنے کی چھوڑی تھی۔شاداب : وہ تو کم بخت کرپشن نے خود کو غوڑ بابا بنایا ہے اس لیے ۔۔۔۔چشم : ''غوڑ بابا'' کا کیا مطلب ہے
شاداب : غوڑ بابا دراصل ایک چور تھا جو رات کو ننگا ہو کر اپنے پورے جسم پر تیل لگا لیتا تھا اور اگر کوئی اسے پکڑتا تو تیل کی وجہ سے پھسل کر نکل جاتا۔علامہ : ہاں میں نے بھی اس کے بارے میں سنا ہے، غوڑ بابا بڑا مشہور چور تھا۔
اینکر : غوڑ بابا کا ترجمہ کیا ہے۔علامہ : مرغن بابا۔
چشم : وہ کوئی کھانے کی چیز نہ تھا آپ کو تو ''مرغن چرغن'' کے سوا اور کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ شاداب : میں بتاتا ہوں غوڑ بابا کا ترجمہ ''چکنا بابا'' ہو سکتا ہے۔
اینکر : غوڑ بابا اور چکنے بابا کو گولی ماریے اصل موضوع پر آیئے
شاداب : وہی بتا رہا تھا میں ۔۔۔۔ ہم نے کرپشن ختم کیے بغیر نہ چھوڑنے کا کہا تھا۔چشم : اسے کہنا نہیں بلکہ چھوڑنا کہتے ہیں۔علامہ : چھوڑتے تو تب جب پکڑتے ناں
شاداب : کوشش ہم نے کی لیکن وہ کم بخت ''غوڑ بابا'' کی طرح پھسل کر نہ جانے کہاں بھاگ گیا۔
چشم : یعنی لڑکا بغل میں اور ڈھنڈورا شہر میں۔
علامہ : یعنی شہر میں ڈھنڈورا اور بغل میں چھورا
شاداب : مگر میں نے تو بغل میں ''چھری'' سنا ہے
چشم : میں نے کرپشن پر ایک گانا لکھا ہے
شاداب : ارشاد۔چشم : میں نے کرپشن سے کہا ہے کہ
تو میری اغل بغل ہے میں ترے اغل بغل ہوں
ترے ڈاگی کو مجھ پر بھونکنے کا نہیں
علامہ : یہ ڈاگی کون ہے۔چشم : جو بھونکتے ہیں
علامہ : مگر بھونکتے کون ہیں۔چشم : ڈاگی
اینکر : باس باس چپ چپ اصل موضوع پر آیے پلیز
شاداب : تو پوچھئے۔اینکر : یہ بتایئے کہ گرینری کا موسم جب گزر چکا تب تمہاری ولدیت والے ولدیت کو گرین بنانے لگے ہیں۔شاداب : گرینری کا تو کوئی موسم نہیں، جب چاہو جتنی چاہو جہاں چاہو جیسی چاہو گرینری پھیلاؤ
اینکر : اس کا کیا مطلب ہوا، درخت لگانے یعنی شجر کاری کا ایک اپنا موسم ہوتا ہے جو ویسے تو دسمبر سے شروع ہو جاتا ہے لیکن چونکہ سرکار ہمیشہ ''لیٹ لطیف'' ہوتی ہے اس لیے سرکاری شجر کاری 8 فروری سے شروع ہوتی ہے۔
چشم : درختوں کے کونپل کھولنے پر ختم ہو جاتی ہے۔
اینکر : اور تمہاری حکومت اب گرینری شروع کر رہی ہے، جب سب کچھ اگ چکا ہے پھوٹ چکا ہے۔
شاداب : میرا خیال ہے تمہیں کچھ غلط فہمی ہوئی ہے تم کس گرینری کی بات کر رہے ہو۔
اینکر : وہی جب زمین سرسبز ہو جاتی ہے ہر طرف ہریالی ہی ہریالی پھیل جاتی ہے۔شاداب : اوہو ہو یہ توبڑا کنفیوژن پیدا ہو گیا ہے بھائی میرے وہ گرینری تو سرزمین ناپرسان پر روز اول سے چھائی ہوئی ہے۔چشم : کہاں ہے کدھر ہے۔شاداب : دیکھو جب سے ناپرسان وجود میں آیا اس پر گرین سٹپ یعنی سبز قدموں کی حکومت ہے نا۔
علامہ : نہیں بیچ بیچ میں اور بھی پارٹیاں آئی ہیں
شاداب : غلط فہمی ہے تمہاری، ان سب کے صرف اوپر کا لبادہ ہی دوسرے رنگ یا رنگوں کا ہوتا تھا اندر وہی گرین شرٹ تھی۔اینکر : یہ کیا شرٹ اور لبادوں کی بات کر رہے ہو، میں مملکت ناپرسان کی ولدیت خیر پہ خیر کی گرینری کی بات کر رہا ہوں جس کا اعلان وہاں کے والی اور رہبر اعلیٰ کر رہے ہیں۔شاداب : تو ٹھیک ہے نا ۔۔۔ وہ تو جو کہتے ہیں سچ کہتے ہیں اور سچ کے سوا اور کچھ نہیں کہتے۔
اینکر: تو گرینری کہاں ہے، زمین تو ویسے ہی ۔۔۔۔
شاداب : ٹھہرو ٹھہرو تمہیں شاید غلط فہمی ہوئی ہے جو بار بارزمین کی سرسبزی و شادابی کا ذکر کر رہے ہو۔
اینکر : تو سرسبزی اور کہاں آتی ہے۔
شاداب : کمال ہے ہم نے ولدیت کو گرین بنانے کا وعدہ کیا ہے اور ولدیت کو ہم دو منٹ میں ہرا بھرا کر لیں گے۔
اینکر : کیسے؟
شاداب : ولدیت کا نقشہ لے کر اس میں گرین رنگ بھردیں گے اور کیا؟