قحط الرجال

سرور منیر راؤ  اتوار 31 جولائی 2022

قحط میں موت ارزاں اورقحط الرجال میں زندگی۔ یہ ہیں وہ الفاظ جو مرحوم مختار مسعود نے اپنی نامور تصنیف ’’آواز دوست‘‘ میں لکھے ہیں۔

مختار مسعود نے اپنی کتاب میں قیام پاکستان سے لے کر انیس سو ستر کی دہائی تک کہ قحط الرجال کا ذکر کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو مسلسل قحط الرجال کا سامنا ہے۔ہمارے سیاستدان اور دانشور ملک کو استحکام دینے میں ناکام رہے ہیں۔ عدلیہ بھی کوئی راستہ نہ نکال سکی۔ جب معاشرہ اس حال کو پہنچ جائے تو قحط الرجال کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔

جنرل ضیا الحق اور مشرف نے جس قسم کی قیادت فراہم تھی، اس نے ہماری معاشرت کو سیاسی سماجی اور فکری اعتبار سے منتشر کر دیا۔آصف علی زرداری کے بارے میں عوام کی مجموعی رائے کسی سے چھپی ہوئی نہیں۔ نواز شریف کے بارے میں جو بھی گمان تھا وہ ’’پانامہ کیس‘‘ نے طشت از بام کر دیا ۔

عمران خان نے اور اسکے Promoters نے نوزائیدہ جمہوریت کی گاڑی کو جس طرح Derail کیا، وہ ہماری سیاسی تاریخ کا منفرد باب ہے۔مذہبی قیادت کے دو بڑے نام جمیت علما اسلام کے مولانا فضل الرحمن اور جماعت اسلامی کے مولانا سراج الحق کے علاوہ بھی کئی علمائے کرام محترم اور معزز سمجھے جاتے ہیں لیکن کیا کیا جائے کہ مذہبی رہنماؤں نے اتحاد کے بجائے تقسیم کے عمل کو جلا بخشی ہے۔

افتخارمحمدچوہدری ایک عوامی تحریک کا ثمر انفرادی اعتبار سے تو ضرور حاصل کر سکے لیکن عدلیہ اور انصاف کے اصلاحی عمل میں انھوں نے کچھ نہ کیا۔ تاریخی اعتبار سے اب وہ ایک متنازع شخصیت شمار کیے جاتے ہیں۔ثاقب نثار صاحب نے سوموٹو نوٹس اور چھاپوں سے ’’تھرتھلی‘‘ تو مچائی لیکن عدالتی نظام اور انصاف کے عمل میں اصلاحات کہیں نظر نہیں آئیں بلکہ مزید زوال پذیر ہوئے۔

علم و ادب اور فکری اعتبار سے بھی اس وقت کوئی ایسا بڑا آدمی منظر نامے میں نہیں ہے کہ جس کی پیروی کی جا سکے۔ بچے کچھے چند لوگ جن پر تکیہ کیا جاسکتا ہے، انہوں نے سیاسی مصلحتوں اور چھوٹے چھوٹے سرکاری عہدوں کو اپنی منزل بنا رکھا ہے۔اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ قحط الرجال زندہ آدمی تو بہت ملتے ہیں لیکن انسان ڈھونڈنا مشکل ہے۔ پاکستانی تاریخ میں قحط الرجال کی مثالیں، اگر دیکھنی ہوں تو مختار مسعود مرحوم کی کتاب آواز دوست کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے۔ انہوں نے اس کتاب کو دو مضامین میںتقسیم کیا ہے، ایک ’’مینار پاکستان‘‘ اور دوسرا ’’قحط الرجال‘‘۔

مختار مسعود نے اسی کتاب میں مشہور برطانوی مورخ Arnold Joseph Toynbee  کا ذکر کیا ہے۔ آرنلڈٹائن بی نے A study of Histroy ’’تاریخ کی تاریخ‘‘ لکھ کر ابدی شہرت حاصل کی ہے۔ مختار مسعود پاکستان سے محبت کرنے والے ایک سچے اور کھرے انسان تھے۔وہ مصنف، محقق اور معلم ہونے کے ساتھ ساتھ فکر ی رہنما بھی تھے۔ صد افسوس کے اس وقت ملک میں بے داغ دانشور اور فکری رہنمائوں کا قحط ہی نہیں بلکہ روحانی اعتبار سے بھی رہنمائوں کی کمی ہے۔پیرفقیر تو بہت ہیں لیکن ’’اقبال‘‘ رکھنے والے نا پید ہیں۔خشک مغز، خشک پوست…از کجامی آید آواز دوست۔

کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ پاکستان کو قحط الرجال کا سامنا کیوں ہے؟ اس کی بنیادی وجہ پاکستان کی حکومتوں کی ایسی پالیسیاں ہیں جن کا مقصد کاغذی طور پر تو تعمیر پاکستان اور فلاح عوام رہا ہے لیکن انہوں نے تعمیر وطن کے لیے پاکستان کی افرادی قوت کو ایک قوم بنانے کے لیے دلجمی اور دانش سے کام نہیں کیا۔اگر کوئی محقق پاکستان کی وفاقی کابینہ کے سینکڑوں اجلاسوں کے ایجنڈوں کا تجزیہ کریں تو یہ بات کھل کر سامنے آجائے گی کہ تعمیر قوم یا تربیت قوم کے منصوبوں پر پالیسی سازوں نے کتنی بار بحث کی اور وہاں کیے جانے والے فیصلوں پر عملدرآمد کی جانب کیا کبھی کوئی سنجیدہ کوشش کی گئی۔

ہمارے سیاسی قائدین دانشور اور مذہبی رہنماؤں کی اکثریت معاشرے میں تقسیم اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے عمل کو اپنا مقصد عظیم سمجھتی ہے۔ملک کا سیاسی اور معاشرتی نظام دونوں مفلوج اور بانجھ ہوچکے ہیں۔ جب تک ہمارے حکمرانوں اور فیصلہ سازوں کی نیتیں ٹھیک نہ ہوںگی اور سمت کا صحیح تعین نہیں کیا جائے گا، قحط الرجال کی یہ فضا قائم رہے گی، کیونکہ قانون قدرت ہے کہ ’’جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے۔‘‘

ہمارا سیاسی اور معاشرتی نظام ’’جو‘‘کا بیج بو کر گندم کی فصل کاٹنا چاہتا ہے ۔

بقول حفیظ جالندھری :

چلتے پھرتے ہوئے مرُدوں سے ملاقاتیں ہیں

زندگی کشف و کرامات نظر آتی ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔