تاریخ کا منبع (دوسرا اور آخری حصہ)

ڈاکٹر توصیف احمد خان  جمعرات 3 نومبر 2022
tauceeph@gmail.com

[email protected]

سعید حسن خان کے بھارت اور پاکستان کے کئی اہم خاندانوں ، سیاسی شخصیتوں ، صحافیوں اور دانشوروں سے قریبی تعلقات تھے ، وہ بھارت کی کمیونسٹ پارٹی مارکسٹ کے رہنماؤں سے ملاقاتوں کا خاص طور پر ذکر کرتے تھے۔

انھوں نے اپنی انگریزی کی کتاب میں لکھا ہے کہ 1980 کی دہائی کے آخری دنوں میں برطانیہ کے چند دوستوں کے ذریعہ بنگال کمیونسٹ پارٹی کے رہنما ہاشم حلیم سے ملاقات ہوئی جو اس وقت مغربی بنگال اسمبلی کے اسپیکر تھے۔

ہاشم حلیم 30 سال تک اسپیکر کے عہدہ پر فائز ہونے کے بعد ریٹائر ہوئے تھے۔ حلیم صاحب کو دنیا میں طویل ترین اسپیکر بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ سعید حسن خان کی کمیونسٹ پارٹی کے کرشماتی رہنما جیوتی باسو سے کئی ملاقاتیں ہوئیں۔

سعید حسن خان نے لکھا ہے کہ جیوتی باسو نے انھیں بتایا تھا کہ جب وہ کمیونسٹ بن کر برطانیہ سے واپس آئے تو ان کی شادی ہوئی۔ جیوتی باسو کی اہلیہ بھگوان کی 1500 مورتیاں ساتھ لائی تھیں ، جب جیوتی باسو وزیر اعلیٰ بنے اور وہ اپنے عہدہ کا حلف اٹھانے کے لیے گھر سے روانہ ہونے والے تھے تو رپورٹروں نے جیوتی باسو کی اہلیہ سے ان کی کامیابی پر تاثرات معلوم کیے تو ان خاتون نے کہا کہ ان کے شوہر کی کامیابی بھگوانوں کے کرم سے حاصل ہوئی ہے۔

سعید حسن نے جیوتی باسو کی شخصیت  کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ کمیونسٹ پارٹی کے نظریہ پر ہمیشہ اٹل رہے لیکن وہ ایک حقیقت پسند سیاست دان تھے۔

انھوں نے عملی طور پر ثابت کیا کہ مختلف سیاسی جماعتوں کی قائم کردہ مخلوط حکومتوں کو کیسے کامیابی سے دیکھا جاسکتا ہے۔ سعید کہتے ہیں کہ اگر وہ ہندوستان کے وزیر اعلیٰ بننے کی پیشکش قبول کرتے تو آج بھارت زیادہ بہتر ملک ہوتا۔ سعید حسن خان کہتے ہیں کہ کمیونسٹ پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے انتہا پسندوں نے جیوتی باسو کے وزیر اعلیٰ کا عہدہ قبول کرنے کی مخالفت کی تھی۔

سعید حسن خان کی کلکتہ میں ملاقات ایک اور کمیونسٹ رہنما محمد امین سے ہوئی۔ محمد امین اردو ، بنگالی ، ہندی اور انگریزی زبانیں بول سکتے ہیں۔ محمد امین کو کچھ مسلمان کمیونسٹوں کے ساتھ پاکستان بھیجا گیا تھا جہاں انھیں گرفتار کرلیا گیا۔

انھوں نے سابقہ مشرقی پاکستان کے راج شاہی جیل میں طویل عرصہ گزرا اور بقول محمد امین انھوں نے اعلیٰ تعلیم راج شاہی جیل میں حاصل کی تھی۔ محمد امین رہائی کے بعد بھارت چلے گئے اور بھارت کی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ مزید انھوں نے اپنی یاد داشتوں میں لکھا ہے کہ کمیونسٹ پارٹی کے ایک مشہور رہنما انیس ہاشمی کا تعلق دہلی سے تھا۔

مسلم لیگ اور کمیونسٹ پارٹی کے درمیان جب رومانس کا آغاز ہوا تو وہ مسلم لیگ کے ایک عہدیدار بن گئے۔

انیس ہاشمی جمعیت علماء ہند کے رہنما مولانا احمد سعید کے بھتیجے تھے۔ جمعیت علماء ہند تحریک آزادی کے دوران کانگریس کے ساتھ مل کر جدوجہد کر رہی تھی۔ انیس ہاشمی نے سعید حسن خان کو بتایا تھا کہ گاندھی آخری دنوں میں کانگریس سے مایوس ہوچکے تھے۔ انھوں نے ان کمیونسٹوں سے رابطے شروع کر دیے تھے جن کے والدین کا تعلق کانگریس سے تھا۔ گاندھی نے موہن کمار منگھم کو طلب کیا۔ موہن کمار انیس ہاشمی کو ساتھ لے گئے۔

گاندھی جی نے ان لوگوں کو ان مشکلات کے بارے میں آگاہ کیا تھا جو اس کی بحالی کی راہ میں در پیش تھیں۔ یہ بات سن کر موہن نے گاندھی پر تقریباً الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’’ باپو ، اب آپ کیوں دکھی ہورہے ہیں؟ یہ سب کچھ آپ کی پالیسیوں کا منطقی نتیجہ ہے۔‘‘ گاندھی زمین پر آلتی پالتی مار کر بیٹھے ہوئے تھے۔

موہن کا جواب سن کر وہ غصہ میں آگئے اور اپنی لاٹھی کا سہارا لے کر اٹھ کر کھڑے ہوئے اور کہا کہ ’’ میں اس پاگل کو ہر قیمت پر روکوں گا ، چاہے اس کے لیے میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔‘‘ بلاشبہ گاندھی نے جو کہا تھا اسے سچ کر دکھایا۔ سعید حسن خان بریلی کے مولانا عبدالرؤف کا عموماً ذکر کرتے تھے۔

مولانا عبدالرؤف جمعیت علماء اسلام کی رسمی کھدر کی شیروانی اور ٹوپی پہنا کرتے تھے ، وہ پیدل ہی شہر کا چکر لگاتے تھے۔ وہ کم و بیش تنہا رہنما تھے۔ 1947 میں پاکستان وجود میں آیا۔ مسلم لیگ والے وہاں سے پہلے ہی چلے گئے تھے یا خاموشی سے گھروں میں بند ہوگئے تھے۔

شہر کے مسلمان جذباتی طور پر زوال پذیر تھے۔ مسلمانوں کے لیے آواز اٹھانے والے صرف مولانا عبدالرؤف تھے۔ دو سال کے اندر وہ شہر کی انتہائی مشہور شخصیت ابھر کر سامنے آئے۔ سعید حسن خان نے مولانا رؤف کے بارے میں لکھا ہے کہ رؤف صاحب پاکستان کا ویزا لینے کے لیے پاکستان ہائی کمیشن گئے جہاں سیکڑوں مسلمان دھوپ میں کھڑے تھے۔ جنرل ضیاء الحق اس وقت ہائی کمیشن کی عمارت سے نکل رہے تھے۔

مولانا رؤف نے جنرل ضیاء الحق کو روکا۔ پاکستانی ہائی کمیشن کے پریس اتاشی عسکری صاحب تھے۔ عسکری صاحب بھی اس وقت اپنے کمرے سے باہر آگئے تھے۔

رؤف صاحب نے جنرل ضیاء الحق سے کہا کہ ’’ ان کا پاکستان جانے کا کوئی ارادہ نہیں اور نہ ہی انھوں نے کبھی اس لیے ملک کی تخلیق کی حمایت کی تھی لیکن سفارت خانے کے احاطہ سے باہر جو سیکڑوں مسلمان قطار میں کھڑے ویزے کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں انھوں نے قیام پاکستان کی حمایت کی تھی۔ ذرا دیکھیے وہ آج کس مشکل ماحول میں کئی گھنٹوں سے خوف ناک دھوپ کی شدت برداشت کررہے ہیں۔‘‘

جنرل ضیاء الحق کی ہدایت پر ویزا لینے والے افراد کے لیے سائبان اور پانی کا انتظام کیا گیا۔ جب راقم الحروف وفاقی اردو یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کا سربراہ تھا تو ہم نے کئی بین الاقوامی کانفرنس منعقد کیں۔ نواب سعید حسن نے بھارت اور برطانیہ سے صحافیوں اور اساتذہ کو تیار کیا کہ وہ ہماری کانفرنس میں شرکت کریں۔

ان کے پسندیدہ موضوع پر شائع ہونے والی کتاب بھارت ، برطانیہ اور امریکا میں کہیں بھی دستیاب ہو تو وہ دوستوں اور رشتہ داروں سے رابطہ کرتے ہیں اور کچھ عرصہ بعد کتاب ان کے پاس آجاتی ہے۔

راقم الحروف نے نواب صاحب سے حاصل کردہ بہت سی نادر کتابوں سے استفادہ کیا۔ سعید حسن خان پاکستان میں ہونے والے حالات سے اتنے مایوس ہوئے کہ انھوں نے اپنی اردو کی یاد داشتوں کے پیش لفظ میں لکھا کہ انھوں نے جوانی میں ایک جدید ملک کا خواب دیکھا تھا، اب یہ خواب بکھر چکا ہے۔ برصغیر کے بٹوارے کا تجربہ ناکام ہوگیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔