توقعات

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 26 نومبر 2022
tauceeph@gmail.com

[email protected]

عمران خان اقتدار میں آئیں یا نہ آئیں پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ پاکستان میں نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے بعد، کیا امریکا کے ساتھ تعلقات کا انحصار پاکستان کی نئی ڈاکٹرائن پر ہوگا۔

امریکا کے دارالحکومت واشنگٹن میں سابق صدر ٹرمپ کے دور میں وائٹ ہاؤس میں وسطی ایشیائی ممالک کی ڈسک کے نگراں Lisa Curtis نے ایک سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں پاکستانی غیر سول قیادت نے امریکا اور پاکستان کے تعلقات کو بہتر بنانے میں اہم کردار اد ا کیا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ہائبرڈ جمہوری تجربہ پاکستان کے لیے بہت زیادہ مفید نہیں ہے۔ امریکی سفارتی افسر کے یہ خیالات اس وقت سامنے آئے جب جنرل ہیڈ کوارٹر نے آرمی چیف اور جوائنٹ چیف آف اسٹاف کے تقرر کے لیے چھ سینئر لیفٹیننٹ جنرل پر مشتمل سمری وزیر اعظم ہاؤس بھجوا دی۔

برسر اقتدار اتحاد میں شامل جماعتوں کے سربراہوں نے وزیر اعظم کو نئے فوجی سربراہ کے تقرر کا اختیار دے دیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کابینہ کے اجلاس کے بعد سمری ایوانِ صدر بھجوا دی،صدر عارف علوی نے ’’کمالِ مہربانی‘‘سے سمری منظور کرلی۔ عمران خان نے پھر ایک نئے مؤقف کا اظہار کیا۔

انھوں نے کہا کہ صدر عارف علوی ان سے مشورہ کریں گے ، ہم لوگ آئین کے دائرہ میں کھیلیں گے ، اگر عارف علوی نے سمری کی منظوری میں دیر کی تو ملک میں ایک نیا بحران شروع ہو جائے گا۔

تاریخ میں پہلی دفعہ آرمی چیف کا تقرر میڈیا کی بحث کا موضوع بنا ہے جو اچھا عمل نہیں ،ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں فوج کے سربراہ ریٹائر ہوتے ہیں،نئے سربراہ اپنی ذمے داریاں سنبھالتے ہیں مگر ایک سطر پر مشتمل خبر کے سوا میڈیا میں کچھ نہیں آتا۔ عمران خان نے آرمی چیف کے تقرر کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی۔

انھوں نے الزامات کی سیاست کی اور یہ مؤقف اختیار کیا کہ نئی منتخب حکومت کو فوج کے سربراہ کے تقرر کا اختیار ہونا چاہیے اور نئی منتخب حکومت کے آنے تک جنرل باجوہ کے عہدہ میں توسیع ہونی چاہیے ، پھر عمران خان نے ایک اور بیانیہ اختیار کیا تھا کہ آرمی چیف کے تقرر کے لیے وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف میں مشاورت ہونی چاہیے۔

صدر ڈاکٹر عارف علوی نے بھی یہی مؤقف اپنایا جب کہ آئین میں اس طرح کی مشاورت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ عمران خان اور ان کے رفقاء نے پھر ایک اور مؤقف اختیارکیا کہ وہ میرٹ کے مطابق فوج کے نئے سربراہ کا تقرر چاہتے ہیں مگر انھوں نے اپنی کسی تقریر میں میرٹ کے مندرجات کی تعریف نہیں کی۔

پھر وہ بار بار کہتے رہے کہ آصف زرداری اور نواز شریف انھیں سیاست سے بے دخل کرنے کے لیے نئے آرمی چیف کو استعمال کریں گے، بہرحال اب تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے اپنے مؤقف میں مزید ترمیم کی کہ وہ اب کہتے ہیں کہ جو بھی آرمی چیف ہوگا وہ پاکستان کا ہوگا۔ انھیں آرمی چیف پر نہیں بلکہ ان کے تقرر کرنے والوں پر اعتراض تھا۔

عمران خان اور تحریک انصاف کے اکابرین کے بیانات سے قطع نظر امریکی افسر کے یہ خیالات پوشیدہ محرکات، ملک کے جمہوری ڈھانچہ اور جمہوری نظام کے مستقبل اور پاکستان کے بین الاقوامی امیج کے پس منظر میں انتہائی اہم ہیں۔

ہندوستان کے بٹوارہ کے بعد پہلے گورنر جنرل بیرسٹر محمد علی جناح نے لیاقت علی خان کو وزیر اعظم اور سر ظفر اﷲ خان کو وزیر خارجہ مقرر کیا۔ سر ظفر اﷲ خان نے گورنر جنرل بیرسٹر محمد علی جناح کی نگرانی میں ملک کی خارجہ پالیسی ترتیب دی۔

وزیر اعظم لیاقت علی خان نے اسی پالیسی کے تحت پہلا دورۂ امریکا کیا تھا مگر وزیر اعظم لیاقت علی خان کے قتل کے بعد چوہدری غلام محمد ، اسکندر مرزا اور فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان خارجہ پالیسی اور ملکی معاملات میں اہمیت اختیار کر گئے۔ وزیر خارجہ سر ظفر اﷲ خان نے وفاقی کابینہ سے پیشگی اجازت لیے بغیر معاہدہ بغداد میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ امریکا اور برطانیہ نے جنرل ایوب خان کے فوجی مارشل لاء کی بھرپور حمایت کی تھی۔

اس کے ساتھ ہی پاکستان سرد جنگ کا حصہ بنا۔ سوویت یونین کے خلاف فرنٹ لائن اسٹیٹ بن گیا اور نئی ریاست سیکیورٹی اسٹیٹ کی شکل اختیار کر لی۔ جنرل ایوب خان کے دورِ اقتدار میں ذوالفقار علی بھٹو وزیر خارجہ کے عہدے پر مامور ہوئے تو انھوں نے آزاد خارجہ پالیسی تیار کی اور وزارت خارجہ کو ایک حیثیت حاصل ہوئی مگر جنرل یحییٰ خان کے دورِ اقتدار میں صورتحال معمولی تبدیل ہوئی۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے پانچ سال کے دور میں وزارت خارجہ کو بنیادی اہمیت حاصل ہوئی۔ بھٹو حکومت کی نئی پالیسی کے تحت پاکستان سینٹو اور سیٹو سے علیحدہ ہوا۔ غیر جانبدار تحریک کا حصہ بنا۔ پاکستان ان چند ممالک میں شامل تھا جنھوں نے ویتنام کی کمیونسٹ حکومت اور شمالی کوریا سے سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔

اس دور میں سعودی عرب کے علاوہ ایران، لیبیا، الجزائر، مصر اور شام نے پاکستان سے قریبی تعلقات استوار کیے، مگر ناقدین یہ بھی کہتے ہیں کہ ملک میں کئی معاملات میں بھٹو حکومت کی اسٹیبلشمنٹ کا کردار بڑھ گیا تھا۔ ان میں سر فہرست بلوچستان میں ہونے والا آپریشن تھا۔

جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں وزارت خارجہ کی حیثیت ثانوی رہی۔ افغانستان کا پروجیکٹ وزارت خارجہ کی منظوری سے تیار نہیں ہوا اور اسٹرٹیجک ڈیپتھ Strategic Depth کی پالیسی وزارت خارجہ میں تیار نہیں ہوئی تھی۔

اس پالیسی کے نقصانات کا اعتراف بھی کیا جا چکا ہے۔ پھر 1988 میں پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو اقتدار میں آئیں۔ سابق لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب علی خان وزیر خارجہ کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ ایسی ہی صورتحال سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دونوں ادوار میں رہی۔ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے بھارت سے تعلقات بہتر کرنے کی پالیسی اختیار کی تو یہ دونوں حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری نہ کر پائیں۔ سابق صدر پرویز مشرف نے کشمیر کے مسئلہ کے حل کے لیے روایتی خارجہ پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے چھ نکات پیش کیے۔

اس وقت کی بھارتی حکومت ان نکات پر فوری طور پر مثبت انداز میں غور نہ کرسکی۔ جنرل پرویز مشرف آگرہ گئے اور Cross Border Terrorism پر اتفاق نہ ہونے کی بناء پر آگرہ سربراہ کانفرنس ناکام ہوئی۔

بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کے بعد بین الاقوامی دباؤ پر پرویز مشرف حکومت کو مجاہدین کے گروہوں پر قدغن لگانی پڑی۔ جنرل پرویز مشرف کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’’ پرویز مشرف حکومت اور بھارتی حکومت کشمیر کے مسئلہ کے حل کے قریب تھیں کہ ملک میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک شروع ہوئی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت اور مسلم لیگ کی حکومتیں بھارت سے اچھے تعلقات کی پالیسی پر معتوب ہوئیں۔

عمران خان ’’ایک پیج‘‘ کے نعرہ پر برسر اقتدار آئے۔ غیر ملکی صحافی کہتے ہیں کہ امریکا اور عمران خان کی حکومت میں فاصلے بہت بڑھ گئے تھے۔ طالبان کی حمایت کی پالیسی کس کی تھی ، عمران خان اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہہ رہے۔

فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے خطاب میں واضح کیا ہے کہ فوج مکمل طور پر ملکی معاملات سے غیر جانبدار ہوگئی ہے۔ ریٹائر ہونے والے سپہ سالار کا یہ مؤقف ایک مثبت قدم ہے۔ ملک کے مفاد میں سوچنے والے صاحبانِ علم و دانش کی تمنا ہے کہ اب پاکستان کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح کی اسٹاف کالج کوئٹہ کی جون 1948 کی تقریر کی مکمل طور پر پاسداری کی جائے گی، یوں اور امریکی دانشور کا مفروضہ غلط ثابت ہوگا، ملک میں جمہوری نظام مستحکم ہوگا اور بین الاقوامی سطح پر ملک کا امیج بہتر ہوجائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔