فوجی سربراہ کو دی جانے والی ’ملاکا اسٹک‘ آخر ہے کیا؟

خالد محمود  پير 28 نومبر 2022
(فوٹو : فائل)

(فوٹو : فائل)

 اسلام آباد: نئے آرمی چیف کو سونپی جانے والی ’’ملاکا اسٹک‘‘ کو کمانڈ اسٹک بھی کہا جاتا ہے، آرمی کمان کی یہ چھڑی انگریزوں کے دور سے فوجی روایت کا حصہ چلی آ رہی ہے۔

جنرل سید عاصم منیر کل فوجی قیادت کی تبدیلی کی تقریب میں آنے سے پہلے فور اسٹار جنرل کے شولڈر رینکس اور کالر میڈل لگا کر پاکستان آرمی کے 17 ویں چیف آف آرمی اسٹاف کا عہدہ سنبھالیں گے۔ اس تقریب میں سبک دوش ہونے والے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ایک پروقار عسکری تقریب میں آرمی کمان کی علامت ’’ملاکا اسٹک‘‘ جنرل سید عاصم منیر کو دیں گے۔

اصل اہمیت آرمی کمان کی اسٹک کی نہیں بلکہ عہدے اور اس سے منسلک ذمہ داریوں کی ہے جو پرانا افسر نئے آنے والے افسر کو یہ چھڑی سونپ کر خود نئی چھڑی تھامے نئے عہدے پر ترقی کرجاتا ہے۔ ملاکا اسٹک کو سنگاپور کے ایک جزیرے ملاکا کی ایک خاص کین سے تیار کیا جاتا ہے۔

ملاکا رتن کی ایک قسم ہے جو انڈونیشیا میں سماٹرا کے ساحل پر بھی پائی جاتی ہے۔ رتن کے درخت میں لمبے، پتلے تنے ہوتے ہیں جو واکنگ اسٹکس بنانے کے لیے بہترین سمجھے جاتے ہیں۔ اگر اس چھڑی کی بناوٹ پر غور کریں تو اس میں2، 2 انچ کے فاصلے پر گانٹھ ہوتی ہےجو دیکھنے میں بانس کی لکڑی کی طرح ہی دکھائی دیتی ہے لیکن اس کے مقابلے پتلی ہوتی ہے۔

یہ وزن میں بہت ہلکا لیکن مضبوط ہوتا ہے اور اس میں کوئی دو نمونے ایک جیسے نہیں ہیں۔ دنیا بھر کی افواج کے سربراہان اسے کمان اسٹک کے طور پر زیر بازو اور کبھی ہاتھ میں اپنی میعاد کے دوران رکھتے ہیں۔ یہ کوئی معمولی اسٹک نہیں ہوتی، اس کی قیمت 10 ہزار روپے سے بھی زیادہ بتائی جاتی ہے۔

فوج میں اس چھڑی کو کمانڈ کی علامت سمجھا جاتا ہے، نئے آرمی چیف کو ملاکا چھڑی دینے کی روایت برطانوی دور سے چلی آ رہی ہے۔ ملاکا کی چھڑی سری لنکا، ہندوستان، برطانیہ سمیت کئی ممالک میں فوجی وردیوں کا حصہ ہے۔

اس سے قبل سبک دوش ہونے والے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے راولپنڈی میں ایک تقریب میں کمانڈ اسٹک اپنے جانشین جنرل قمر جاوید باجوہ کے حوالے کی تھی۔ جنرل شریف کو 2013ء میں اس وقت کے جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ملاکا چھڑی ملی تھی جب کہ یہ مشرف ہی تھے جنہوں نے 2007ء میں چارج چھوڑنے کے بعد جنرل کیانی کو چھڑی سونپی تھی۔

ملاکا کین اسٹک محض فوج میں کمانڈ کی علامت ہے، چھڑی ٹوٹ جانے کی صورت میں (جو ابھی تک کبھی نہیں ہوا)، فوجی سربراہ کے اختیارات پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔