اُس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی

صدام ساگر  جمعـء 16 دسمبر 2022

پروین شاکر 24 نومبر 1952 کو کراچی کے ایک علمی اور ادبی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد گرامی سید ثاقب حسین خود بھی بہت کمال کے شاعر تھے اور ’’شاکر‘‘ تخلص کرتے تھے اسی نسبت پروین شاکر بھی اپنے نام کیساتھ ’’شاکر‘‘ تخلص کرتیں۔

انھیں شعرو شاعری کا شوق وذوق بچپن سے ہی تھا۔ انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے نسوانی جذبات کی بہترین عکاسی کی ہے۔ جس میں انھوں نے نہ صرف اپنے جذبات کو پیش کیا بلکہ دوسروں کے دُکھ، درد کو محسوس کرتے ہوئے ان کے حقیقی جذبات کو اپنی شاعری میں سمویا۔ ان کا اولین شعری مجموعہ ’’خوشبو‘‘جب شائع ہوا تو اسے ملک گیر شہرت حاصل ہوئی۔

پروین شاکر بے حد نرم دل خاتون تھیں۔ ان کے اندر ہمدردی کے جذبات کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے ان کی شاعری میں جہاں محبت، عورت اور اقدار کا گراں قدر احساس موجود ہے وہاں ان کی شاعری میں دُکھ اور شدتِ جذبات کی کیفیت بھی ابھر کر سامنے آتی ہے، جب کہ ماں کے جذبات، شوہر سے ناچاقی اور علیحدگی، ورکنگ وومن کے مسائل کو بہت خوبصورتی سے اپنی شاعری میں قلم بند کیا گیا ہے۔

اس لیے ان کی پوری شاعری ان کے جذبات اور دردِ کائنات کے احساسات کا اظہار لیے ہوئے ہیں۔ پروین شاکر جس قدر کم آمیز اور خاموش طبع شاعرہ تھیںاس قدر ہی ان کے کلام میں جذبوں کی سچائیوں کیساتھ پیدا ہونیوالی لازمی شکست وریخت پر گریہ کی بجائے لطیف طنز کی عملداری بھی شامل تھیں۔ انھوں نے خاص پیچیدہ صورتحال کو شاعری بنایا ہے۔

’’نسوانی خاکے‘‘ اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں تاریخِ ادب میں پہلی بار خواتین پر لکھے ہوئے خواتین کے خاکے پڑھنے کو ملتے ہیں، جس کو مرتب شاہد حنائی نے کیا ہے۔ اس کتاب میں پروین شاکر کے حوالے سے ایک خاکہ ’’دکھی عورت ‘‘ کے عنوان سے پڑھنے کو ملتا ہے۔

جس میںمحترمہ سرفراز اقبال اپنی چند ملاقاتوں کا احوال بیان کرتے ہوئے کچھ اس طرح سے رقم طراز ہے کہ’’سچ کہلوانے نے اُس گڑیا سی شاعرہ کو زندگی میں ہی تنہا کر دیا تھا، وہ تمام عمر محبت اور انا کی جنگ لڑتی رہی۔ نہ جانے وہ کسی ایک جذبے کو بھی پا سکی یا نہیں۔ کئی لوگوں کی خوش بختی اور بدنصیبی قدم قدم ساتھ چلتی ہے۔ بس پروین شاکر کا یہی مقدر تھا ۔‘‘

کیسے کہہ دو کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اُس نے

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رُسوائی کی

پروین شاکر پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جاتا رہے گا، مگر اُن کی شخصیت وفن کے حوالے سے میں اپنے عصر کے مقبول شاعر اعتبار ساجد کے ایک مضمون سے اقتباس پیش کرتا ضروری سمجھتا ہوں کہ’’پروین شاکر کو جس قدر میں نے دیکھا اور سنا ہے مجھے وہ ایک لفظ بھی فالتو بولتی نظر نہیں آئی۔

پروین، عبداللہ ہارون کالج میں میری ایک کزن کی اُستاد تھی۔ جب کبھی کراچی جاتا تو میری کزن پروین شاکر کے بارے میں بتاتی کہ میڈم اسٹاف سے الگ تھلگ کسی گوشے، کسی پیڑ کے نیچے تنہا کتاب خوانی میں مصروف ہوتیں۔ کلاس روم میں روایتی پروفیسرز کی طرح ڈانٹ ڈپٹ، رعب داب روکھے پن بہت شگفتگی سے کام نہیں لیتی تھی۔

ٹو دی پوائنٹ دھیمی مدھم اور سنجیدہ انداز میں گفتگو اور لیکچر انھیں دوسروں سے مختلف بناتا تھا۔فیض احمد فیض بھی عبداللہ ہارون کالج کے پرنسپل رہ چکے تھے وہ بھی روایتی پرنسپلوں کی طرح رعب و دبدبہ والے پرنسپل نہ تھے۔ اتنہائی مدھم اور ملائم لہجے کے سربراہ ادارہ تھے۔ بہت کم مسکراتے تھے اسی نسبت پروین شاکر پر بھی لاشعوری طور پر غالباََ ان ہی کا اثر پڑا تھا۔وہ بہت کم مسکراتی تھیں، ہنستی بہت کم تھیں، لباس سادہ مگر اچھا پہنتی تھیں، کام سے کام رکھتی تھیں۔‘‘

سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی

وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا

پروین شاکر کو جھوٹ سے نفرت تھیںاسی لیے وہ زندگی بھر اپنے اشعار میں سچی بات کو صاف گوئی سے پیش کرتی رہی۔ ان کے شعری مجموعوں میں خوشبو ٰ(1976)،صدِبرگ(1980)،خود کلامی اور انکار یہ دونوں کتابیں (1990) میں منظرعام پر آئی۔ اس کے بعد ’’ماہِ تمام‘‘(1994) میں شائع ہوئی۔ ان تمام مجموعوں میں جتنی اچھی غزلیں کہیں اتنی ہی اچھی ان کی آزاد نظمیں بھی پڑھنے کو ملتی ہے۔

اسی لیے خوبصورت الفاظ کا استعمال ان کے کلام کا وصف رہا ہے۔انھوں نے شاعری کیساتھ ساتھ کالم نگاری کے بھی جوہر دکھائے مگر اُنہیں کالم نگاری سے زیادہ شاعری میں بہت دلچسپی تھیں۔ان کی شاعرانہ عظمت کا کھل کر اعتراف اُس دور کے بڑے بڑے ادیبوں، شاعروں نے بھی کیا ۔

انھیں پانچ بڑے ادبی انعامات واعزازت سے بھی نوازا گیا جن میں خوشبو کے لیے 1978 میں آدم جی ایوارڈ جو پاکستان میں ایک قومی سطح کا اعزاز ہے، 1985 میں علامہ اقبال ایوارڈ، 1986میں یو ایس آئی ایس ایوارڈ اور فیض احمد فیض ایوارڈ کے علاوہ انھیں بہت قلیل متاعِ حیات میں وہ کارنامے سرانجام دیے جن کی بدولت ان کو پرائیڈ آف پرفارمنس کیساتھ ساتھ ’’خوشبو کی شاعرہ‘‘ کے خطاب سے بھی نوازا گیا۔یہاں مجھے ان کی مشہورِ زمانہ غزل کا مطلع یاد آر ہا ہے کہ:

کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی

اُس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی

اسی غزل کا ایک اور شعر ملاحظہ کیجیے:

وہ کہیں بھی گیا، لوٹا تو مرے پاس آیا

بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی

محبت کی خوشبو کو شعروں میں سمو کر بیان کرنے والی منفرد لبوں لہجے کی یہ شاعرہ 26 دسمبر1994 کو اسلام آباد اپنے آفس جاتے ہوئے ٹریفک حادثے میں ۴۲ برس کی عمر میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملیں،مگر آج بھی اُس کا ایک اک لفظ اُس کے ہونے کی یوں گواہی دے رہے ہیں۔

مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا دیں گے

لفظ میرے مرے ہونے کی گواہی دیں گے

پروین شاکر کی وفات کے بعد ان کا ایک مجموعہ ’’کفِ آئینہ‘‘ ان کی ہمشیرہ نسرین شاکر نے شائع کروایا۔ جنھیں ادبی حلقوں میں بے حد پذیرائی ملی۔محترمہ نسرین شاکر بتاتی ہے کہ’’اس مجموعہ کا نام وہ اپنی زندگی میں خود ہی تجویز کر چکی تھیں اور مکمل بھی۔مزید یہ بھی کہا کہ ہم ہر سال اُن کی برسی پر اُن کی یاد میں ’’پروین شاکر‘‘ ایوارڈ کی تقریب بھی منعقد کرواتے ہیں۔‘‘آخر میں جاتے جاتے پروین شاکر کو خراجِ تحسین کے طور پر اپنی نظم کے اشعار پیش کرتا اجازت چاہوں گا۔

وہ پروین شاکر تھیں رب کی رضا پر

ہمیشہ تھا جس کا بھروسہ خدا پر

کھلاتی رہیں غنچے شعروادب کے

بچھاتی رہیں خوشبوئیں جو صبا پر

بہت خوبصورت تھیں لہجے کی مالک

زمانہ تھا نازاں غزل کی ادا پر

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔