ریکوڈک معاہدہ اور بلوچستان

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 21 دسمبر 2022
tauceeph@gmail.com

[email protected]

وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں قائم مخلوط حکومت نے ریکوڈک معاہدے کے حوالے سے قانون سازی کرلی ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے سینیٹ کے ایجنڈا میں غیرملکی سرمایہ کاری بل   2022 شامل نہیں تھا۔

وفاقی حکومت نے سینیٹ کے اجلاس کے دوران اس بل کو بغیر بحث و مباحثہ کے منظور کرالیا۔ سینیٹ میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے سینیٹر طاہر بزنجو، پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی، پختون خواہ ملی عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے سینیٹرز نے مخالفت کی مگر کثرت رائے سے یہ بل منظور ہوگیا۔

نیشنل پارٹی کے سینیٹر طاہر بزنجو کا خیال ہے کہ اس بل کے نفاذ کے بعد صوبے کے قدرتی وسائل کی ملکیت وفاق کو منتقل ہوجائے گی۔یوں اٹھارہویں ترمیم عملاً بے اثر ہوجائے گی۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے اتحادی جماعتوں کے تحفظات دور کرنے کے لیے دو سینئر وزراء سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی ہے۔

اس کمیٹی نے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل اور دیگر رہنماؤں سے مذاکرات کیے۔ وفاقی وزراء کا کہنا ہے کہ اختر مینگل سے اس مسئلے پر اتفاق رائے ہوگیا ہے،اس قانون کو صرف ریکوڈک تک محدود رکھاجائے گا اور اس میں بلوچستان کے حصے میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔

بقول سنیٹر طاہر بزنجو بلوچستان کے نمایندوں نے شکوہ کیا ہے کہ سندھ اسمبلی کے اراکین نے حقائق جانے بغیر ان معاہدوں سے یکجہتی کا اظہار کیا۔

ان کا کہنا ہے بلوچستان حکومت نے ریکوڈک پروجیکٹ کے معاہدوں کی منظوری کے لیے قرارداد اچانک صوبائی اسمبلی میں پیش کی اور رائے شماری کرالی۔ سینئر صحافی انور ساجدی نے لکھا ہے کہ صوبائی اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعتیں بلوچستان نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے راکین اس قرارداد کے بارے میں پہلے سے تیار نہیں تھے، بہرحال یہ قرارداد بلوچستان اسمبلی میں معمولی سی مزاحمت کے بعد منظور ہوگئی۔

حکومت نے قومی اسمبلی میں سے بھی ایسے ہی قرارداد منظور کرائی ہے۔ وفاقی حکومت نے ریکوڈک میں کان کنی کے معاہدہ کو قانونی جواز فراہم کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس بھیجا تھا۔

وفاق اور بلوچستان کی حکومتوں کے وکلاء نے سپریم کورٹ میں یہ مدعا پیش کیا کہ بلوچستان اسمبلی کو اس معاہدہ پر اعتماد میں لیا گیا ہے اور اسمبلی اراکین نے اس معاہدہ پر اتفاق کیا ہے۔

حکومت نے سپریم کورٹ کو بلوچستان کے حقوق کے تحفظ ، مقامی افراد کو ملازمتیں دینے اور ریکوڈک منصوبہ میں پانی استعمال ہونے سے ممکنہ خشک سالی نہ ہونے کی یقین دہانی کرائی۔ سپریم کورٹ نے اس ریفرنس کی منظوری دیدی ۔ یوں وفاقی حکومت نے بیرونی سرمایہ کاری کا قانون نافذ کردیا۔

ریکوڈک بلوچستان کے ضلع چاغی کا ایک پسماندہ علاقہ ہے۔ ریکوڈک بلوچی زبان کا لفظ ہے جس کے لفظی معنی Sandy Peak کے ہیں۔ ریکوڈک کو کبھی قدیم آتش فشاں کہا جاتا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ریکوڈک میں زیر زمین سونا اور تانبہ کے وسیع ذخائر ہیں۔

ایک اندازہ کے مطابق ان کانوں میں 5.9 بلین خام گرنیٹ، تانبہ اور 41.5 ملین سونے کے ذخائر ہیں۔ وفاق اور صوبائی حکومتوں کی عدم توجہ اور دیگر نامعلوم وجوہات کی بناء پر 2006 تک ریکوڈک کی کانوں سے معدنیات نکالنے کے لیے کوئی اہم کام نہیں ہوا تھا۔

جنرل پرویز مشرف کے دور میں اس پر کام شروع ہوا۔ 2012میں سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس جسٹس افتخار چوہدری نے یہ معاہدہ غیر قانونی قرار دے کر منسوخ کرنے کا فیصلہ دیا۔

غیر ملکی کمپنیوں کے کنسورشیم نے معاہدہ کے منسوخ ہونے کے خلاف ورلڈ بینک میں مقدمہ دائر کیا۔ ورلڈ بینک اربیٹریشن ٹریبونل نے پاکستان پر 11 بلین ڈالر کا جرمانہ عائد کیا۔ حکومت پاکستان نے اس جرمانہ کو ختم کرنے کے لیے اس کنسورشیم سے مذاکرات کیے اور ایک نئے معاہدہ پر اتفاق ہوا جس پر اب عمل کیا جارہا ہے۔

2010میں اٹھارہویں ترمیم کے تحت قدرتی وسائل پر پہلا حق صوبہ کا قرار پایا۔ اٹھارہویں ترمیم کی اس شق کا صوبوں کو خاطرخواہ فائدہ ہوا ہے تاہم بلوچستان کے اسٹیک ہولڈرز نے سی پیک کے حوالے سے صوبے کی محرومی کا ایشو اٹھایا۔ گودار اور گوادر بندگاہ کو لے کر شکوے اور شکایات سامنے آئیں۔

گوادر کے عوام کی 95 فیصد آبادی کا انحصار ماہی گیری پر ہے، مگر اب یہ ماہی گیر پورے مہینہ سمندر میں مچھلی کے شکار پر نہیں جاسکتے۔ چینی ساختہ بڑے بحری جہاز جن میںکولڈ اسٹوریج کی جدید سہولت موجود ہے ، پورے مہینہ مچھلیاں پکڑے ہیں۔

جب مختصر ترین وقت کے لیے مقامی ماہی گیروں کو شکار کی اجازت دی جاتی ہے تو سمندر مچھلیوں اور جھینگوں سے خالی ہوجاتا ہے، یوں مقامی ماہی گیر وں کو کا روزگار بری طرح متاثر ہوا ہے۔ تاحال اس معاملے کا دیرپا حل سامنے نہیں آسکا۔

بلوچستان پر متعدد کتابوں کے مصنف معروف صحافی عزیز سنگھور کا بیانیہ ہے کہ ریکوڈک کے 70مربع کلومیٹر کے علاقہ میں 12 ملین ٹن تانبہ اور 21ملین اونس سونے کے ذخائر موجود ہیں۔

بلوچستان کے ماہرین ان ذخائر کی مالیت ایک ہزار ارب امریکی ڈالر سے زیادہ بتاتے ہیں۔ عزیز سنگھور نے لکھا ہے کہ حکومت نے اتنے قیمتی ذخائر کا سودا کم قیمت پر کیا ہے حالانکہ تھوڑی محنت کرکے زیادہ رقم وصول کی جاسکتی تھی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔