اُس روز ایک بنگالی گھرانے پر کیا گزری

روخان یوسف زئی  اتوار 25 دسمبر 2022
کراچی میں ہونے والے ایک سانحے کا آنکھوں دیکھا اور دل پر بیتا احوال، سانحۂ مشرقی پاکستان سے جُڑی ایک دردناک یاد ۔ فوٹو : فائل

کراچی میں ہونے والے ایک سانحے کا آنکھوں دیکھا اور دل پر بیتا احوال، سانحۂ مشرقی پاکستان سے جُڑی ایک دردناک یاد ۔ فوٹو : فائل

سانحہ مشرقی پاکستان 16 دسمبر 1971 سے میری بھی بچپن کی ایک ایسی یاد وابستہ اور ایک ایسا آنکھوں دیکھا حال ہے کہ جب بھی کسی کی زبانی، تحریر میں یا کسی کتاب کا مطالعہ کرنے کے دوران یہ واقعہ یا عنوان سامنے آتا ہے تو میرا سر چکرا جاتا ہے۔

زبان لڑکھڑا جاتی ہے اور پورے وجود پر سکتہ طاری ہوجوتا ہے، کیوںکہ اس سانحے کے دن میں نے اپنی آنکھوں سے جو کچھ دیکھا اور اپنی کانوں سے جو کچھ سنا۔ وہ فلم کی طرح آج بھی میری آنکھوں کے سامنے چلتا رہتا ہے۔

انسان کی زندگی میں کچھ واقعات اور لمحات ایسے واقع ہوتے ہیں جو دل و دماغ پر ایسے نقش ہوجاتے ہیں۔ جسے بھلایا جاسکتا اور نہ ہی انسان اپنے حافظے سے باہر نکال سکتا ہے۔ ایسے ہی واقعات میں سے ایک ناقابل فراموش واقعہ سانحہ مشرقی پاکستان کا بھی ہے، جو ہماری تاریخ کا ایک ایسا سیاہ ترین باب ہے جس کے اندھیرے آج بھی ہمارا پیچھا کررہے ہیں۔

یہ ہماری تاریخ کے دامن پر ایک ایسا داغ ہے جسے نہ دھویا جاسکتا ہے اور نہ ہی مٹایا جاسکتا ہے۔ بہرکیف، اب میں اس واقعے کی طرف آتا ہوں۔

میرے والد رضاخان کراچی کی ایک نجی کمپنی ’’کاؤس جی اینڈ سنز‘‘ میں بطور فورمین ملازم تھے۔ گھر میں ملنے والے پرانے کاغذات کے مطابق میرے والد ’’کاؤس جی اینڈ سنز‘‘ میں 1940ء میں بطور فورمین بھرتی ہوئے تھے۔ محتصر یہ کہ کافی عرصہ ملازمت کرنے کے بعد میرے والد پر فالج نے حملہ کردیا جس سے ان کا دایاں ہاتھ اور دایاں پاؤں متاثر ہوئے۔ والد کی خرابیٔ صحت کی وجہ سے ہم کراچی سے اپنے گاؤں موضع جلسئی صوابی منتقل ہوگئے۔

اگرچہ اس زمانے میں ہم کراچی میں جہاں مقیم تھے یعنی بھٹہ ولیج کیماڑی، وہاں کے بیشتر مکان کچے اور لکڑیوں کے تختوں سے بنی تھے، مگر اس وقت بھی ہمارا اپنا مکان سیمنٹ کا بنا ہوا تھا، جس میں آٹھ کمروں پر مشتمل ایک کمپاؤنڈ بھی تھا، جسے ڈیرہ کہا جاتا ہے۔

ہمارا کنبہ والد اور والدہ سمیت چھے افراد پر مشتمل تھا، جس میں ہم چار بھائی اور ایک بہن شامل تھے۔ دو بھائی ایک سب سے چھوٹا صادق رحمان بھی فالج کی طویل بیماری کے باعث لڑکپن میں اور ایک مجھ سے بڑا سرطان میں مبتلا صفدر شاہ دو بچوں ایک بیٹا اور ایک بیٹی کو سوگوار چھوڑ کر 29جون1991ء کو دار فانی سے کوچ کرگئے۔

اس کی موت سے دو دن قبل اس کی اہلیہ بھی اچانک دل کے دورے کے باعث فوت ہوگئی تھی۔ ہمارے سب سے بڑے بھائی ظاہرشاہ ملنگ اور مجھ سے چھوٹی بہن زاہدہ عرف ککئی اب بھی حیات ہیں۔ بہرحال یہ ذاتی زندگی کے حوالے سے ایک الگ تاریخ ہے۔ 1969ء میں جس وقت میرے والد کا اپنے گاؤں میں انتقال ہوا اس وقت میں چھوٹا تھا، تاہم مجھے اپنے والد کے ہاتھ کی مار، اپنا بچپن اور ان کی وفات اب بھی اچھی طرح یاد ہیں۔

والد کی وفات کے بعد ہم اپنے ماموں وطن میر کی سربراہی اور نگہ داشت میں پھر کراچی چلے گئے۔ چوںکہ والد کی بیماری کے دوران ان کے علاج کے لیے قرض لیا گیا تھا، چناں چہ وہ قرض اتارنے اور ہماری دیکھ بھال کے لیے میری والدہ کمپاؤنڈ سمیت اس پکے مکان کو بھی فروخت کرنے پر مجبور ہوگئیں جس میں ہم سب بھائی بہن پیدا ہوئے، پلے بڑھے اور کھیلے کھودے تھے۔ اپنے پکے مکان کو چھوڑ کر ہم نے کرائے کے کچے مکان میں رہائش اختیار کرلی۔ گھر سے تھوڑے فاصلے پر واقع اسکول میں ہم تین بھائیوں کو داخل کرادیا گیا۔

بہرحال ’’یہ نصف صدی کا قصہ ہے دوچار برس کی بات نہیں‘‘ آتے ہیں اپنے موضوع کی جانب۔ سولہ دسمبر1971ء کو میں اپنے گھر کے قریب پان کی ایک دکان سے پان خریدنے گیا تھا۔

اس زمانے میں زبردست پان خور تھا۔ اچانک گولیوں کی آواز اور توپوں کی گھن گرج کانوں میں پڑی۔ لوگ اپنے اپنے گھروں کی جانب دوڑ پڑے۔ کیماڑی کے جیکسن میں واقع تیل کے سب سے بڑے ڈپو ’’برمارشل‘‘ سے آگ کے ایسے شعلے بڑھک رہے تھے جیسے یہ شعلے چند منٹوں میں ہمارے گھروں اور پوری گلی کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ ہمارے پڑوس میں ایک بنگالی ڈاکٹر رہتا تھا۔

اس کا کلینک بھی گلی کے قریب سڑک کنارے تھا۔ اس ڈاکٹر کا پورا نام مجھے اس لیے یاد نہیں کہ اسے سارے محلے دار ڈاکٹر بنگالی کہتے تھے۔ چھوٹا قد، چہرے پر ہلکی ہلکی کالی داڑھی، سفید کُرتے اور تہمد میں ملبوس اس ڈاکٹر کو میں نے کبھی بھی کسی دوسرے رنگ کے لباس میں نہیں دیکھا تھا۔ وہ انتہائی پرہیزگار اور نماز کا سخت پابند تھا۔

ہم جس مسجد میں ہم شام کے وقت ابتدائی قاعدہ پڑھنے جایا کرتے تھے وہاں اکثر ڈاکٹر صاحب کو قرآن پاک کی تلاوت میں مشغول پاتے تھے۔ ان کے گھر میں بھی مکمل مذہبی ماحول تھا۔ ان کے گھر اور ہمارے گھر کے درمیان بس ایک لکڑیوں کے تختوں سے بنی دیوار تھی جس میں ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے کے لیے ایک دروازہ نما کھڑکی بھی تھی۔ ڈاکٹر بنگالی کی دو جوان پڑھی لکھی بیٹیاں تھیں۔ ایک کا نام فاطمہ اور دوسری کا کلثوم تھا۔

ایک چھوٹا بیٹا تھا جس کا نام محمدعلی تھا۔ وہ اسکول میں میرا ہم جماعت تھا۔ ہم اکٹھے اسکول جایا کرتے تھے اسکول سے آنے کے بعد کبھی اس کے گھر اور کبھی ہمارے گھر میں ایک ساتھ اس زمانے کے مختلف روایتی کھیل کھیلتے تھے۔ ان کھیلوں میں ڈاکٹر بنگالی کی دونوں جواں سال بیٹیاں بھی ہمارے ساتھ باقاعدہ حصہ لیا کرتی تھیں۔ وہ ہم بھائیوں سے سگی بہنوں کی طرح پیار کرتی تھیں۔ ہمیں ٹافیاں، چیونگم اور بسکٹ دیا کرتی تھیں۔

ڈاکٹربنگالی سے میری والدہ ہی نہیں بلکہ تمام محلے کی خواتین پردہ نہیں کرتی تھیں۔ اسی طرح ان کی بیوی جو پڑھی لکھی اور اپنے شوہر کی طرح مذہبی خاتون تھیں وہ خود اور ان کی بیٹیاں بھی محلے کے مردوں سے پردہ نہیں کرتی تھیں۔

ہم اکثر اوقات شام کا کھانا بھی اکٹھے کھایا کرتے تھے، بلکہ زیادہ تر کھانا ڈاکٹر بنگالی کے گھر اس لیے کھاتے تھے کہ ان کی بیوی سادہ سفیدچاول میں مچھلی ڈال کر بہت عمدہ پکانے کی ماہر تھیں۔ کبھی کبھار وہ شوربے والی مچھلی بناتیں، جس کا الگ ہی مزہ ہوا کرتا تھا۔

انہی آیام میں میری آنکھوں نے وہ منظر بھی دیکھا جسے یاد کرنے سے آج بھی میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور مجھ پر ایک عجیب سی حالت اور کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔

شام کا اندھیرا چھا گیا تھا ہم اپنے گھر میں تھے کہ اچانک ’’غدار بنگالی باہر نکلو‘‘ کے نعرے کانوں پر پڑنے لگے، اور پھر ہماری دیکھا دیکھی پولیس کی وردی میں ملبوس چند افراد اور کچھ ارد گرد کے جوشیلے اور جذباتی نوجوانوں نے ڈاکٹر بنگالی کے لکڑیوں سے بنے ہوئے کچے گھر پر دھاوا بول دیا۔ لگ رہا تھا جیسے یہ کسی مسیحا، پنج وقتہ نمازی اور پکے مسلمان کا گھر نہیں سومنات کا مندر ہو، سب کچھ تہس نہس کردیا گیا۔

حملہ آوار گھر میں موجود سامان کو لوٹنے میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوشش کر رہے تھے۔ ڈاکٹر بنگالی کو مارا پیٹا یہاں تک کہ ان کی بیوی اور جواں سال بیٹیوں اور چھوٹے بیٹے کی آنکھوں کے سامنے ان کی تہمد اتار ڈالی۔ اس پر بھی ان کا جوش اور غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا تو ڈاکٹر بنگالی کی بیوی (جسے ہم سب آپاجی کے نام سے پکارتے تھے) اور جواں سال بیٹیوں فاطمہ اور کلثوم کے ساتھ پورے محلے والوں کی موجودگی میں اور ان کی آنکھوں کے سامنے جو وحشیانہ، غیرانسانی اور غیراسلامی سلوک کیا گیا اس سلوک اور برتاو کو مارے شرم کے بیان کرنے سے اب بھی میرے ہاتھ کانپتے ہیں اور آنکھوں میں آنسو امڈ آتے ہیں، بدن پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے۔ پھر وہ منظر بھی اف خدایا!۔۔۔ جب ڈاکٹر بنگالی اپنے اہل وعیال کے ساتھ تھوڑے بہت بچ جانے والے ٹوٹے پھوٹے برتنوں کو سمیٹ کر ہم سے رخصت لے رہے تھے۔

اور اپنے ہم جماعت اور بچپن کے پکے دوست محمدعلی سے گلے ملتے وقت ہم دونوں جس طرح زاروقطار روئے وہ لمحات میں کیسے بھول سکتا ہوں؟ پورے محلے کے مرد و خواتین کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ ہر ایک غم سے نڈھال تھا۔ اور انہیں آنسوؤں کی بارش اور غم زدہ منظر میں ہم سے ہمارے پڑوسی ڈاکٹر بنگالی، ہماری ماں جیسی آپاجی، ہماری بہنوں کی طرح پیار کرنے والی فاطمہ اور کلثوم اور ہمارا جگری یار اور ہم جماعت محمدعلی نے الوداع کہہ کر اپنا بوریا بستر اٹھایا اور کالی ٹیکسی میں بیٹھ کر خدا حافظ دیار بھیا (میرا اصل نام دیارخان ہے) کہہ کر ایسے جدا ہوئے کہ آج تک نہ انہیں ہمارے زندہ یا مردہ ہونے کی کوئی خبر ہے اور نہ ہی ہمیں کچھ اتا پتا ہے کہ ڈاکٹربنگالی اور ان کا کنبہ کس حال میں ہے۔

ان میں سے کون کون حیات اور کون کون اس دنیا کو مغربی پاکستان کی طرح چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ چکا ہے؟اس بارے میں فقط قتیل شفائی کے یہ اشعار میری کیفیت بیان کرسکتے ہیں:

وہ دل ہی کیا ترے ملنے کی جو دعا نہ کرے

میں تجھ کو بھول کے زندہ رہوں خدا نہ کرے

رہے گا ساتھ ترا پیار زندگی بن کر

یہ اور بات مری زندگی وفا نہ کرے

یہ ٹھیک ہے نہیں مرتا کوئی جدائی میں

خدا کسی کو کسی سے مگر جدا نہ کرے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔