آسمان تیری لحد پر شبم افشانی کرے

نادیہ حسین  بدھ 15 فروری 2023
جنرل پرویز مشرف اس سفر پر روانہ ہوگئے جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ (فوٹو: فائل)

جنرل پرویز مشرف اس سفر پر روانہ ہوگئے جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ (فوٹو: فائل)

سابق صدر پرویز مشرف بھی راہی ملک عدم ہوئے۔ بے شک موت اس دنیا اور زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ موت کا ذائقہ ہر نفس نے چکھنا ہے۔ دنیا میں روز ہزاروں لوگ پیدا ہوتے ہیں، ہزاروں مرتے ہیں، لیکن بہت کم ایسے ہوتے ہیں جو اپنے افعال اور کردار سے دنیا والوں کو اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلا کر اس جہاں فانی سے رخصت ہوتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف بھی انہی لوگوں میں شامل تھے جو اپنے بھرپور نقوش دنیا میں ثبت کرکے گزرے ہیں۔

جنرل پرویز مشرف کا دور اقتدار بلاشبہ پاکستانی تاریخ کا بہت ہنگامہ خیز دور رہا۔ ویسے تو وطن عزیز کی 77 سالہ تاریخ زیادہ تر ہنگامہ خیز ہی رہی ہے، مشکل سے چند ماہ و سال ہی ایسے رہے ہوں گے کہ بحیثیت قوم ہم نے امن و سکون سے گزارے ہوں لیکن جنرل پرویز مشرف کا دور حکومت اس حوالے سے اہم ہے کہ اس وقت تبدیل ہوتی عالمی سیاست میں پاکستان انتہائی اہم کردار ادا کررہا تھا۔ اس اداکاری کا خمیازہ قوم تاحال بھگت رہی ہے اور نہ جانے کب تک اور ہماری کتنی نسلیں بھگتیں گی۔

پرویز مشرف کی رحلت پر ملک میں ان کے حامیوں اور مخالفین کی جانب سے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے۔ مخالفین کا جہاں تک تعلق ہے، ان کا بس چلے تو وہ ہندوستان پر انگریزوں کے قبضے اور 1857 کی جنگ آذادی کا ذمے دار بھی پرویز مشرف کو ٹھہرا دیں۔ حکمرانوں کی پالیسیز کی بات کی جائے تو ہم وطن عزیز کی تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ اولین گورنر جنرل محمد علی جناح کو تو وقت ہی بہت کم ملا۔ اس کے بعد لیاقت علی خان سے لے کر تاحال ایک بھی فوجی یا سول حکمراں ایسا نہیں گزرا جس کے دور حکومت کو ہر لحاظ سے مثالی قرار دیا جاسکے۔ ملکی تاریخ پر سب ہی نے مثبت اور منفی دونوں اثرات چھوڑے ہیں۔ کسی کے بھی اچھے کارناموں کو نظر انداز کرکے صرف بداعمالیوں پر تنقید کرنا سراسر ناانصافی ہے۔

بحیثیت ایک صحافی میں سمجھتی ہوں کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں پاکستان میں میڈیا کو جتنی آزادی ملی اس سے پہلے اس کا صرف خواب ہی دیکھا جاسکتا تھا۔ انہی کے دور میں ملک میں نجی ٹی وی اور ریڈیو چینلز کی بھرمار ہوئی۔ صرف یہی نہیں، کامیڈی شوز میں ان کے کیری کیچرز بنائے جاتے تھے۔ اس سے پہلے فوجی حکمراں تو دور کی بات، سول حکمراں تک کا مذاق نہیں بنایا جاسکتا تھا۔ پاکستان میں میڈیا کی آزادی جنرل پرویز کی ہی مرہون منت ہے۔

پرویز مشرف کے دور حکومت کی اہم ترین بات یہ تھی کہ انہوں نے ہمیشہ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی۔ وہ کبھی بھارت کی عددی برتری کو خاطر میں نہیں لائے۔ اپنے پورے دور میں انہوں نے کبھی بھارت کو پاکستان پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ مسئلہ کشمیر کے حل کےلیے جتنی کوششیں جنرل پرویز مشرف نے کیں وہ پاکستان کی کسی سول یا فوجی قیادت نے نہیں کیں۔ بھارت سے جس سطح اور فورم پر جب بھی بات کی انہوں نے ہمیشہ دو ٹوک موقف اپنایا۔ بھارتی صحافی ارنب گوسوامی کی براہ راست شو میں جس طرح اس کی طبعیت صاف کی تھی, یہ انہی کا خاصا تھا۔

تقسیم کے بعد جنرل پرویز مشرف کا خاندان کراچی میں قیام پذیر ہوا۔ اس حوالے سے وہ کراچی والے تھے۔ اپنے دور حکومت میں انہوں نے اس شہر کا حق بخوبی ادا کیا۔ جو بلدیاتی نظام انہوں نے متعارف کروایا تھا بلاشبہ اس وقت اس نظام کی بدولت شہر کی حالت ہی بدل گئی تھی۔ جنرل پرویز نے شہر کے انفرااسٹرکچر کی تعمیر کےلیے ضلعی حکومتوں کو اربوں روپے دیے۔ ہماری بدقسمتی کہ بعد کی حکومتوں نے اپنی نااہلی سے سب کچھ برباد کردیا۔ کراچی سے تعلق کی وجہ سے وہ یہاں عوامی سطح پر بھی بہت مقبول تھے۔ جب انہوں نے انتخابات میں حصہ لینے کےلیے کراچی کے حلقے سے اپنے کاغذات نامزدگی داخل کیے تو یہاں کے عوام نے بہت خوشی کا اظہار کیا۔ اگر جنرل صاحب کو عدالت کی طرف سے نااہل قرار نہ دیا جاتا تو وہ کراچی سے ضرور انتخاب جیت جاتے۔

صدارت سے استعفیٰ دینے کے بعد جنرل صاحب نے اپنی سیاسی جماعت بنائی۔ وہ ملک کی عملی سیاست میں حصہ لینا چاہتے تھے مگر ان پر بننے والے غداری کے مقدمات نے انہیں ملکی سیاست میں حصہ لینے سے روکے رکھا۔ پھر ان کی صحت کے مسائل نے بھی انہیں سیاست میں حصہ لینے کا موقع نہیں دیا۔ اگر زندگی انہیں موقع دیتی اور وہ عملی سیاست میں حصہ لیتے تو یقیناً وہ ایک متبادل قیادت فراہم کرنے میں کامیاب ہوجاتے۔

بلاشبہ وہ ایک دبنگ اور کرشماتی شخصیت کے مالک تھے۔ سیاسی جماعتوں سے قطع نظر عوامی سطح پر وہ ایک مقبول شخصیت تھے۔ ان کا دور حکومت جتنا ہنگامہ خیز تھا، شاید ان کی جگہ کوئی اور حکمراں ہوتا تو ان حالات کی ہنگامہ خیزی سے اس انداز میں مقابلہ نہیں کرسکتا تھا جیسے مقابلہ جنرل پرویز مشرف نے کیا۔ اس کے پیچھے ان کی فوجی تربیت کارفرما رہی۔ عالمی سیاسی رہنماؤں خصوصاً عرب دنیا کے حکمرانوں اور امریکا، برطانیہ، چین سمیت دیگر اہم ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ ان کے تعلقات خطے میں خصوصاً اور عالمی سطح پر عموماً پاکستان کے کردار کو بہترین طور پر ادا کرنے میں معاون ثابت ہوتے۔

جنرل پرویز مشرف نے اپنے بچپن کے کچھ سال ترکی میں بھی گزارے۔ ان کی شخصیت پر ترک معاشرت کے بھی اثرات تھے۔ وہی اثرات جو ہمیں موجودہ ترک صدر طیب اردگان کی شخصیت میں بھی دکھائی دیتے ہیں۔ دونوں رہنماؤں کی خواہش رہی کہ اپنے ملک اور قوم کو مضبوط بنایا جائے۔ اگر ان دونوں رہنماؤں کو ایک ساتھ کام کرنے کا موقع مل جاتا تو یقیناً عالمی سطح پر پاکستان اور ترکیہ کی حیثیت پہلے سے بہت بہتر ہوتی۔ اور پاکستانیوں کو بھی متبادل قیادت نصیب ہوتی۔ مگر کیا کیا جائے کہ ہمارے نصیب میں کوئی قابل اور معقول رہنما ہے ہی نہیں، جو قوموں کی برادری میں ہمیں عزت کا مقام دلا سکے۔ فی الحال تو جو موجود ہیں انہی سے گزارا کرنا پڑے گا۔

جنرل پرویز مشرف کی تدفین مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ کی گئی۔ نماز جنازہ میرے گھر کے قریب پولو گراؤنڈ میں تھی، میں اپنے بھائی کے ساتھ اس خیال سے جنازہ گاہ پہنچی کہ شاید خواتین کا الگ سے انتظام ہو۔ ظہر کی اذان ہوچکی تھی، فوجی جوانوں اور افسران کے علاوہ عام افراد بھی نماز جنازہ میں شریک ہونے کےلیے جوق در جوق جنازہ گاہ پہنچ رہے تھے۔ سیکیورٹی پر مامور اہلکار نے ہمیں کہا کہ آپ قریبی میس میں چلی جائیں، وہاں جنرل صاحب کے اہل خانہ کو ٹھہرایا گیا ہے، خواتین وہاں ہیں۔ چنانچہ ہم میس پہنچ گئے۔ اندر ہال میں داخل ہوئے تو پرویز مشرف دور کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نظر آئے۔ وہ جنرل پرویز کے صاحبزادے بلال مشرف کو پرسا دے رہے تھے۔ ہال میں خاندان کے قریبی افراد موجود تھے۔ ایک کونے میں جنرل صاحب کا جسد خاکی پاکستانی پرچم میں لپٹے تابوت میں رکھا تھا۔ تابوت کے قریب بیگم صہبا مشرف بیٹھی ہوئی تھیں۔ بیگم صاحبہ شدتِ غم سے نڈھال تھیں۔ خواتین انہیں پرسا دے رہی تھیں۔ فضا خاصی سوگوار تھی۔ تھوڑی دیر میں پاک فوج کے جوان ہال میں داخل ہوئے، تابوت کو سلامی دی اور پھر نماز جنازہ کےلیے لے چلے۔ نماز کے بعد تابوت کو دوبارہ میس منتقل کیا گیا جہاں سے بذریعہ ہیلی کاپٹر جسد خاکی پرانے فوجی قبرستان پہنچایا گیا اور تدفین عمل میں لائی گئی۔ جنرل پرویز مشرف اس سفر پر روانہ ہوئے جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ الوداع جنرل پرویز مشرف۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔