تصوراتی ادب، عالم رنگ و بو سے ماورا جہانوں کی سیر کراتا ہے

محمد عثمان ذوالفقار  اتوار 5 مارچ 2023
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

صدیوں قبل جب انسان نے رہنا سہنا اور زندگی کے دوسرے بنیادی فنون سیکھے تو لکھنا ان میں سے ایک تھا ۔ چیزوں کو یاد رکھنے کے لئے لکھنا شروع کیا گیا۔

شروع میں پتھروں، پتوں، ہڈیوں اور دوسری چیزوں پر لکھا جاتا رہا۔ شروع شروع میں لکھنے کا کام دستاویزی طور پر ہوتا رہا جس میں تاریخ ، قانون وغیرہ شامل تھے پھر انسان نے اپنے خیالات و جذبات کو لکھنا شروع کیا۔ اسی طرح قصے کہانیوں کا آغاز ہوا ۔

ان قصے کہانیوں میں زیادہ اساطیری ادب ہوتا تھا جیسا کہ یونان ، مصر، ہندوستان اور کچھ دوسرے ممالک کے مختلف دیوی دیوتاؤں کے متعلق ملتا ہے۔ حقیقی زندگی کی طرز پر کہانیاں لکھنے کا آغاز بعد میں ہوا جس میں روزمرہ زندگی کے واقعات بیان کئے جاتے ہیں۔ شروع میں کچھ ایسے قصے لکھے جانے لگے جس میں کسی اور جہان کی سیر کروائی جاتی تھی۔

اس میں کسی مخصوص شخص یا طبقے کی بہادری ، ظلم یا نیکی کی داستانیں سنائی جاتی تھیں۔ بعض کہانیوں میں ایسی تصوراتی باتیں بیان کی جاتیں جو حقیقت میں ناممکن دکھائی دیتیں۔ ایسی ہی مختلف محیرالعقول و مافوق الفطرت کہانیوں نے فینٹسی کی بنیاد ڈالی ۔

یورپ میں اس موضوع پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے جو مشہور بھی ہوا ہے ۔ عرب میں اس موضوع پر’’ الف لیلہ‘‘ کافی مشہور ہوئی جس کا اس تحریر میں مختصر ذکر ہے اور ہندوستان میں ’’ داستان امیر حمزہ ‘‘ نے کافی شہرت سمیٹی۔ ’ طلسم ہوش ربا ‘ بھی اسی داستان کا ایک حصہ ہے جس کے بارے میں بہت سے لوگوں نے سن رکھا ہوگا۔

اس داستان پر کئی ادبی شخصیات نے بہترین تحقیق کی ہے۔ اردو کے معروف ناول نگار اور محقق شمس الرحمٰن فاروقی نے بھی داستان امیر حمزہ پر تحقیقی کتاب لکھی جو ’’ س، ش ، ص‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ درج ذیل تحریر میں چند ایسی کتب کا ذکر ہو گا جو دنیا میں محیرالعقول واقعات کی وجہ سے مشہور ہیں ۔ اس صنف میں لکھنے والے کچھ بہترین مصنفین نے مل کر ایسی کتابوں کی فہرست تیار کی ہے جو فینٹسی کے میدان میں بہترین مانی جاتی ہیں۔ آئیے ! ان کے بارے میں بات کرتے ہیں :

1۔ الف لیلہ  ( Arabian Nights )

الف لیلہ ایک مشہور داستان ہے جس کا اصل نام ’ الف لیلہ و لیلہ ‘ ہے یعنی ایک ہزار ایک رات کی کہانی ۔ بیشتر مورخین کے مطابق یہ کتاب آٹھویں صدی عیسوی میں عباسی دور کے بغداد میں لکھی گئی ۔ محمد بن اسحاق نے اپنی کتاب’’ الفہرست ‘‘ میں کہانیوں کی ایک کتاب ہزار افسانہ کا ذکر کیا ہے جو بغداد میں لکھی گئی تھی اور اس کی ایک کہانی بھی درج کی ہے جو الف لیلہ کی پہلی کہانی ہے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پہلے کتاب کا نام ’ ہزار افسانہ ‘ تھا ۔

نیز اس میں ایک ہزار ایک داستانیں نہ تھیں بعد میں مختلف مقامات پر اس میں اضافے ہوئے اور کہانیوں کی تعداد ایک ہزار ایک کر کے اس کا نام ’ الف لیلہ و لیلہ ‘ رکھا گیا ۔ جان کیننگ کہتے ہیں کہ الف لیلوی داستانوں کا پہلا سراغ ایک عرب اسکالر المسعودی کے انسائیکلو پیڈیا میں ملتا ہے۔ یہ انسائیکلو پیڈیا 950ء میں مرتب کیا گیاتھا۔ اس کے مصنفین ہنوز گمنام ہیں ۔ یورپ اس داستان سے اس وقت آشنا ہوا جب18ویں صدی میں انتھونی گلینڈ نے پہلی بار اس داستان کا ترجمہ فرانسیسی میں کیا۔

اس داستان کی مختصر کہانی یہ ہے کہ سمرقند کا ایک بادشاہ شہر یار اپنی ملکہ کی بے وفائی سے دل برداشتہ ہو کر عورت ذات سے بدظن ہو گیا اور اْس نے یہ دستور بنا لیا کہ ہر روز ایک نئی شادی کرتا اور دلہن کو رات بھر رکھ کر صبح کو قتل کر دیتا۔ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو عورتوں کی تعداد کم پڑنے لگی۔

بادشاہ کے وزیر نے بھی اسے رائے دی کہ ایسا کب تک چلے گا اور کوئی عورت شادی کرنے کو بھی راضی نہیں ہوتی۔ بادشاہ نے اسے کہا تم اس کا بندو بست کرو ورنہ تمہیں قتل کر دیا جائے گا۔ آخر وزیر کی لڑکی شہر زاد نے اپنی صنف کو اس عذاب سے نجات دلانے کا تہیہ کر لیا اور باپ کو بہ مشکل راضی کر کے بادشاہ سے شادی کر لی۔

بادشاہ شہریار قصوں کہانیوں کا بہت شوقین تھا۔ اْس نے رات کے وقت بادشاہ کو ایک کہانی سنانا شروع کی، رات ختم ہو گئی مگر کہانی ختم نہ ہوئی۔ کہانی اتنی دلچسپ تھی کہ بادشاہ نے باقی حصہ سننے کی خاطر وزیر زادی کا قتل ملتوی کر دیا ۔

دوسری رات اس نے وہ کہانی ختم کر کے ایک نئی کہانی شروع کر دی۔ جب کہانی کلائمیکس پہ پہنچتی وہ اسے اگلی رات کے لیے ملتوی کر دیتی، اس طرح ایک ہزار ایک رات تک کہانی سناتی رہی۔ اس مدت میں اْس کے دو بچے ہو گئے اور بادشاہ کی بدظنی جاتی رہی۔ اس داستان کے اردوزبان میں متعدد تراجم ہوئے ہیں۔ جن میں رتن ناتھ سرشار کا زیادہ مشہور ہوا۔ ڈاکٹر ابوالحسن منصور احمد کا ترجمہ بھی اہمیت کا حامل ہے جو پہلی بار 1940 ء میں انجمن ترقی اردو، دہلی نے شائع کیا۔ یہ سات جلدوں پر مشتمل ہے۔

2۔ایلس ایڈونچر ان ونڈر لینڈ ( Adventures In Wonderland Alice’s  )

ایلس ایڈونچرز ان ونڈر لینڈ (عام طور پر ایلس ان ونڈر لینڈ) لیوس کیرول کا 1865 ء کا انگریزی ناول ہے۔ اس میں ایلس نامی ایک نوجوان لڑکی کی کہانی بیان کی گئی ہے جو خرگوش کے سوراخ سے گزر کر بشری مخلوق کی ایک خیالی دنیا میں آتی ہے۔ آرٹسٹ جان ٹینیل نے کتاب کے لیے لکڑی کے کندہ کردہ 42 ماڈل فراہم کیے۔ شائع ہونے کے بعد اسے بہت پذیرائی ملی اور اب یہ وکٹورین ادب کے سب سے مشہور کاموں میں سے ایک ہے۔

اس کی داستان، ساخت، کرداروں اور منظر کشی نے مقبول ثقافت اور ادب پر گہرا اثر ڈالا ہے، خاص طور پر خیالی صنف میں  بچوں کے ادب میں اصول پسندی کے دور کو ختم کرنے میں مدد دینے کا سہرا اس کے سر باندھا جاتا ہے۔ اس نے ایک نئے دور کا آغاز کیا جس میں بچوں کے لیے تحریر کا مقصد ’’ خوشی یا تفریح ‘‘ تھا ۔ یہ کہانی منطق کے ساتھ چلتی ہے، اس کہانی کو بڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں میں بھی دیرپا مقبولیت ملی ہے ۔ مرکزی کردار ’ ایلس کیرول‘ کی ایک دوست ایلس لڈل پر تخلیق کیا گیا ۔ اس کا دنیا کی 174 زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے ۔

کیرول نے 1871 ء میں The Glass Through Looking-  کے عنوان سے ایک سیکوئل شائع کیا اور 1890ء میں چھوٹے بچوں کے لیے ایک مختصر ورژن دی نرسری ’’ ایلس ‘‘ شائع کیا۔ اردو زبان میں اب تک اس ناول کے تین تراجم شائع ہو چکے ہیں جن میں ایک پاکستان میں، دو انڈیا میں شائع ہوئے۔

3 ۔ راکھ میں انگارہ  (An Ember in the Ashes)

یہ ایک امریکن مصنفہ صبا طاہر کا خوبصورت فینٹسی ناول ہے جو 2015ء میں شائع ہوا تھا ۔ یہ ایک بہن کی کہانی ہے جو اپنے بڑے بھائی کو سلطنت کے چنگل سے بچانا چاہتی ہے۔ جب ناول شروع ہوتا ہے تو لایا اور اس کا واحد زندہ بچ جانے والا بھائی ڈیرن، اپنے دادا دادی کے ساتھ رہ رہا ہوتا ہے کیونکہ ان کے والدین اور ان کی بہن بہت پہلے مارے جا چکے ہیں۔

لایا جانتی ہے کہ اس کے والدین مزاحمتی گروہ کے رکن تھے، اور جانتی ہے کہ انہوں نے سلطنت کے ساتھ دھوکہ کیا تھا ۔ وہ ڈیرن کو ایسی ہی قسمت سے دوچار ہونے سے بچانا چاہتی ہے کیونکہ وہ جانتی ہے کہ وہ نامعلوم وجوہات کی بناء پر رات کو چھپ کر باہر جاتا ہے ۔

سلطنت کے سپاہیوں نے گھر پر چھاپہ مارا ۔ لایا کے دادا دادی کو مار ڈالا اور ڈیرن کو پکڑ لیا ۔ ڈیرن لایا کو بھاگنے کو کہتا ہے جو وہ فوراً مان لیتی ہے۔ اس کے بعد اور بہت سے سنسنی خیز واقعات پیش آتے ہیں جو یقیناً قاری کو کہانی کے ساتھ باندھے رکھتے ہیں ۔ یہ کہانی تین ناولوں کی ایک سیریز پر مشتمل ہے جس میں مندرجہ بالا ناول اس سیریز کا پہلا ناول ہے ۔ اس ناول کو ٹائم میگزین کی سو بہترین کتابوں میں بھی شامل کیا گیا۔

4۔سٹی آف براس (City of Brass )

یہ ناول ایس اے چکرورتی کی تخلیق ہے جو2017 ء میں شائع ہوا ۔ یہ قاہرہ میں رہنے والی ایک لڑکی نہری کی کہانی ہے جو جادو کے ذریعے زخم ٹھیک کرنے کی صلاحیتوں کے ساتھ ایک ٹرک سٹار ہے۔ ایک دن وہ اسی کام کے دوران اتفاقی طور پر ایک دوسری دنیا کی مخلوق کو طلب کر لیتی ہے۔ اس کی مدد کرنے والا ’ دارا ‘ نام کا ایک جن ہوتا ہے جو اسے داؤد آباد شہر میں لاتا ہے۔ یہ ایک شاندار شہر ہے جہاں دیواس (دیوتا) کے قبیلے رہتے ہیں ۔

داؤد آباد کے راستے میں، نہری اور دارا کو نہ صرف افراتفری بلکہ ایک اور جادوئی مخلوق سے بھی خطرہ ہے ، جو دارا کو پورا نگل جاتا ہے ۔ جب ایسا ہوتا ہے تو نہری کو پتہ چلتا ہے کہ دارا نہ تو زندہ ہے اور نہ ہی مرا ہے بلکہ وہ جادو کی وجہ سے کہیں درمیان میں ہے ۔ جب وہ فرار ہو کر داؤد آباد کے بادشاہ سے ملتی ہے تو انکشاف ہوتا ہے کہ اس کی ماں بھی ان میں سے ایک تھی کیونکہ اس کے پاس شفا دینے والی صلاحیتیں تھی ۔ اس دوران میںمزید بہت سے حیران کن اور سنسنی خیز واقعات پیش آتے ہیں ۔

5۔نائٹ فال (Nightfall)

1941ء میں، اس وقت کے پریمیئر سائنس فکشن میگزین کے ایڈیٹر ، جان ڈبلیو کیمبل ، جونیئر نے نئے لکھنے والے مصنفین سے دلچسپ سوال کیا : اگر لوگ ہر ہزار سال میں صرف ایک بار ستاروں کو دیکھیں تو کیا ہو گا ؟ اس نے فرض کیا کہ لوگ پاگل ہو جائیں گے اور اکیس سالہ اسحاق عاصموف سے اس کے بارے میں ایک کہانی لکھنے کو کہا ۔ نتیجہ ’’ نائٹ فال ‘‘ تھا جو سب سے مشہور سائنس فکشن کہانیوں میں سے ایک ہے ۔

کہانی ایک ایسے سیارے کے بارے میں ہے جس پر رات نہیں پڑتی، سوائے ہر 2,049 سال میں ایک بار، کیونکہ یہ عام طور پر چھ سورجوں سے روشن ہوتا ہے۔ چونکہ ہر زندہ انسان رات کو ایک خوفناک تجربہ محسوس کرے گا جب وہ نایاب گرہن ہوتا ہے ، سائنس دانوں کو ان کی افراتفری کے بارے میں فکر ہے جو رات کے گرنے کے بعد پیدا ہو گی ۔ اس طرح یہ ایک حیرت انگیز کہانی بن جاتی ہے۔

6۔ بلینیم (Billennium)

یہ 1962 ء میں لکھی گئی ایک کہانی ہے جو ایک بہت زیادہ آبادی والے مستقبل میں ترتیب دی گئی ایک ڈسٹوپین کہانی ہے ۔ یہ وہ زمانہ ہوتا ہے جس میں دنیا کی آبادی20 بلین کے قریب ہے ۔ نتیجے کے طور پر لوگ وسیع شہروں میں غیر معمولی طور پر تنگ کمروں میں رہتے ہیں ۔

کہانی دو دوستوں وارڈ اور روسٹر پر مرکوز ہے ، جو نئے رہنے والے کوارٹر تلاش کرتے ہیں اور پھر اپنی الماریوں میں سے ایک کے پیچھے ایک بالکل نیا کمرہ دریافت کرتے ہیں ۔ مزید واقعات کے لئے کہانی پڑھنی پڑے گی۔

7۔ لارڈ آف رنگز  ( The Lord of the Rings)

دی لارڈ آف دی رِنگز انگریزی مصنف اور اسکالر Tolkien J.R.R. کا ایک اعلیٰ فینٹسی ناول ہے۔ اس کی کہانی ٹولکین نے1937 ء میں بچوں کی کتاب Hobbit The کیسیکوئل کے طور پر شروع کی تھی جو آخر کار ایک بہت بڑے کام میں بدل کر شاہکار کا درجہ حاصل کر گئی ۔

1937ء سے لے کر 1949ء کے درمیان مراحل میں لکھی گئی، دی لارڈ آف دی رِنگز اب تک کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں میں سے ایک ہے، جس کی 150 ملین سے زیادہ کاپیاں فروخت ہوئیں ۔

یہ کہانی مڈل ارتھ میں ہوتی ہے، جسے جے آر آر ٹولکین نے تخلیق کیا تھا۔ مڈل ارتھ پر ایک برائی کی طاقت چھپی ہوئی ہے ۔ ڈارک لارڈ سورون اپنی کھوئی ہوئی طاقت کو دوبارہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور ایک انگوٹھی کے ذریعے ہر ایک کو اس کے ساتھ غلام بنانا چاہتا ہے جسے وہ پہلے ہی ایک بار کھو چکا ہے ۔ اس مہاکاوی ڈرامے میں، فروڈو بیگنس انگوٹھی کے ساتھ ختم ہوتا ہے کیونکہ بلبو نے اسے گولم (ایک مخلوق) سے چرایا تھا ۔

وہ اس انگوٹھی کے بارے میں بہت کم جانتا ہے ۔ اسے اس وقت تک محفوظ رکھنا کتنا ضروری ہے جب تک کہ وہ اس سے چھٹکارا حاصل نہ کر لے یا کوئی اور نہ کرے۔ اس طرح یہ شاندار کہانی آگے بڑھتی ہے جو قاری کو اپنی گرفت سے باہر نہیں نکلنے دیتی۔ دی لارڈ آف دی رِنگز کو اب تک لکھی گئی سب سے بڑی فینٹسی کتابوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور اس نے جدید فینٹسی ناول کے سٹائل کو تخلیق اور شکل دینے میں مدد کی ہے ۔

ریلیز کے بعد سے، اسے کئی بار دوبارہ شائع کیا گیا ہے اور کم از کم 38 زبانوں میں اس کا ترجمہ کیا گیا ہے ۔ ٹولکین کے اس ناول پر بشمول پینٹنگز ، موسیقی، فلمیں ، ٹیلی ویژن، اور ویڈیو گیمز بہت کچھ آچکا ہے ۔

بی بی سی کے 2003 کے سروے دی بگ ریڈ میں اسے برطانیہ کا اب تک کا سب سے پسندیدہ ناول قرار دیا گیا ہے ۔ کافی عرصہ قبل ایک معروف ادیب ابن آسن اس ناول کا اردو میں آزاد ترجمہ کر چکے ہیں ۔ جب کہ ایک ڈیڑھ سال قبل معروف مترجم شوکت نیازی صاحب اس سلسلے کے پہلے ناول دی ہابٹ کا ترجمہ کر کے شائع کروا چکے ہیں اور ممکن ہے لارڈ آف رنگز کا ترجمہ بھی بہت جلد منظر عام پر آجائے ۔

8۔شیر، جادوگر اور الماری (The Lion,Witch And The Wardrobe)

یہ چار بہن بھائیوں پیٹر، سوسن، ایڈمنڈ اور لوسی پیونسی کی کہانی ہے جنہیں دوسری جنگ عظیم کے دوران ایک سنکی پروفیسر کے ساتھ ملک میں رہنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ بچے بارش کے دن گھر کا جائزہ لیتے ہیں اور سب سے چھوٹی لوسی کو ایک بہت بڑا الماری مل جاتی ہے ۔

لوسی اندر قدم رکھتی ہے تو اندر ایک دروازہ ہوتا ہے جب وہ اسے کھول کر باہر دیکھتی ہے تو خود کو ایک عجیب برفیلی جگہ پر پاتی ہے ۔ لوسی کا سامنا Faun Tumnus سے ہوتا ہے، جو ایک انسانی لڑکی سے مل کر حیران ہوتا ہے ۔ تمنس لوسی کو بتاتا ہے کہ وہ نارنیا میں داخل ہو گئی ہے جو ایک مختلف دنیا ہے۔

تمنس نے لوسی کو چائے پر مدعو کیا اور اس نے قبول کر لیا ۔ چائے پیتے ہوئے تمنس نے آنسو بہانے شروع کر دیئے اور پھر اعتراف کرتا ہے کہ وہ شیطانی وائٹ ڈائن کا خادم ہے ۔ چڑیل نے نارنیا پر جادو کر دیا ہے تاکہ یہ ہمیشہ سردیوں میں ہو اور کرسمس کبھی نہ ہو ۔ تمنس بتاتا ہے کہ اسے انسانوں کو پکڑنے کے لیے بھرتی کیا گیا ہے ۔

لوسی تمنس سے اسے رہا کرنے کی درخواست کرتی ہے ، اور وہ راضی ہو جاتا ہے ۔ لوسی آکر اپنے بہن بھائیوں کو بتاتی ہے مگر وہ یقین نہیں کرتے ۔ ایک دن اتفاقی طور پر وہ سب نارنیا چلے جاتے ہیں اور اس جادوگرنی کو پتہ چل جاتا تو وہ انہیں مارنے کی کوشش کرتی ہے کیونکہ ایک قدیم پیشین گوئی ہوتی ہے کہ ایک دن چار انسان نارنیا پر حکومت کریں گے ۔

کیا جادوگرنی اپنے مقصد میں کامیاب ہو پائی یا بچے جیت گئے؟ یہ ناول نارنیا کرونیکل سیریز میں پہلا ہے جو کہ سات کتابوں پر مشتمل ہے ۔ اردو میں اس ناول کے اب تک دو تراجم ہو چکے ہیں جن میں سے ایک غالباً امان اللہ شوکت نئیر نے ستر کی دہائی میں کیا تھا ۔

9۔ ایک ہیرو پیدا ہوا ( BORN  HERO A)

ہو سکتا ہے کہ جن یونگ دنیا میں ایک غیر مانوس نام ہے لیکن چینی بولنے والوں میں ایک سپر اسٹار ہے ۔ ان کے پہلے ناول 1950 کی دہائی کے دوران ہانگ کانگ میں سیریل کی شکل میں شائع ہوئے تھے ۔ جن یونگ، لوئس چا لیونگ ینگ کا قلمی نام ہے۔

جنہیں ان کی زندگی میں ہی بہت زیادہ پڑھا گیا ۔ ان کی وفات چند سال قبل ہوئی ہے۔ ان کی کتابوں کو ٹی وی سیریز، فلموں اور ویڈیو گیمز میں ڈھال لیا گیا ہے ۔ ’اے ہیرو بارن‘ ان کی پہلی کتاب ہے۔ جو 12 جلدوں پر مشتمل ایک سیریز’ لیجنڈ آف دی کونڈور ہیروز‘ کا حصہ ہے۔ یہ کہانی 13 ویں صدی کے چین میں ترتیب دی گئی ہے۔ یہ ناول اپنے ہیرو، گوو جِنگ کی پیدائش سے لے کر جوانی تک کی قسمت کے واقعات پیش کرتا ہے۔

اس کا آغاز یوٹیرو میں گوو سے ہوتا ہے، جب اس کے والد کو قابض جن فوج کی وفادار افواج نے قتل کر دیا اور اس کی حاملہ ماں منگولیا فرار ہو گئی ۔ یہاں، مڈل کنگڈم کے کنارے پر، گوو چنگیز خان کے خانہ بدوش جنگجوؤں کے درمیان پروان چڑھتا ہے ۔

جب کہ جنوب کے سات ہیروز، جنہوں نے اسے مارشل آرٹس کی تربیت دینے کا حلف اٹھایا ہے ، اسے ڈھونڈنے کے لیے ملک کا چکر لگاتے ہیں ۔ اس طرح یہ ایک بہترین کہانی کی طرح آگے بڑھتی ہے ۔ اس سیریز کا انگریزی میں ترجمہ ہو چکا ہے البتہ اردو میں ابھی تک نہیں ہو سکا ۔

10۔سرخ اہرام ( The Red Pyramid)

یہ امریکی مصنف Riordan Rick کا مصر کے اسرار اور دیوی دیوتاؤں پر مشہور ناول ہے ۔ مصنف اسے پہلے بچوں کی مشہور سیریز “پرسی جیکسن ” بھی لکھ چلے ہیں ۔ یہ ناول 2010 میں شائع ہوا تھا ۔’ دی ریڈ پیرامڈ‘ ایک دل چسپ اور دل لگی ناول ہے جو بھائی اور بہن کی جوڑی کی وفاداری اور مضبوطی کو ظاہر کرتا ہے ۔

سیڈی لندن میں اپنے دادا دادی کے ساتھ رہتی ہے، اس کے بھائی نے اپنے والد ڈاکٹر جولیس کین ’جو کہ مصری امور کے ماہرین ہیں‘ کے ساتھ دنیا کا سفر کیا ہے۔ ایک رات، ڈاکٹر کین برٹش میوزیم میں “تحقیقاتی تجربے” کے لیے بہن بھائیوں کو ساتھ لاتے ہیں، جہاں وہ اپنے خاندان کے لیے چیزیں درست کرنے کی امید کرتے ہیں ۔ لیکن اس کے بجائے، وہ مصری دیوتا “سیٹ” کو جگا دیتے ہیں اور کین بچوں کو اپنی جان بچانے کے لیے بھاگنے پر مجبور کرتا ہے ۔

جلد ہی، سیڈی اور کارٹر کو معلوم ہو جاتا ہے کہ مصر کے دیوتا جاگ رہے ہیں ، اور ان میں سے بدترین دیوتا سیٹ کی نظریں کینز پر ہیں ۔ اسے روکنے کے لیے بہن بھائی پوری دنیا میں ایک خطرناک سفر کا آغاز کرتے ہیں ، ایک ایسی جستجو جو انہیں اپنے خاندان کے بارے میں سچائی کے قریب لاتی ہے ، اور ان کے ایک خفیہ حکم سے جو فرعونوں کے زمانے سے موجود ہے ۔ یہ کہانی تین ناولوں سرخ اہرام، دی تھرون آف دی فائر اور دی سرپنٹ شیڈو پر مشتمل ہے جو بہت مقبول ہوئی ہے ۔

ضروری نہیں کہ آپ بھی میری بنائی گئی مذکورہ فہرست سے اتفاق کریں کیونکہ ایسے موضوعات پر بہت سے بہترین ناول لکھے گئے ہیں اور ابھی تک لکھے جا رہے ہیں جن کا تذکرہ اس مختصر تحریر میں لانا ممکن نہیں ۔ اگر یہ سب پڑھ چکے ہیں اور مزید کچھ پڑھنا چاہتے ہیں تو Divergent سیریز ،Neuromancer، Chronical Lunar، Kingdoms Falling،اور Game Ender’s سیریز پڑھ سکتے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔