قلندرز لاہور قلندرز

سلیم خالق  منگل 21 مارچ 2023
شکر ہے کرکٹ میں اب ایسا نہیں رہا،کوئی غریب کرکٹر بھی اگر باصلاحیت ہے تو موقع پا سکتا ہے۔ تصویر: لاہور قلندرز (ٹوئٹر)

شکر ہے کرکٹ میں اب ایسا نہیں رہا،کوئی غریب کرکٹر بھی اگر باصلاحیت ہے تو موقع پا سکتا ہے۔ تصویر: لاہور قلندرز (ٹوئٹر)

’’ہیلو میں فیصل حسنین بات کر رہا ہوں،اگر لاہور قلندرز کو پی سی بی سے تعلقات اچھے رکھنے ہیں تو عاقب جاوید کو برطرف کرنا پڑے گا‘‘

گزشتہ برس کی ہی بات ہے جب عاقب کے کسی بیان سے ناخوش سابق چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ نے لاہور قلندرز کی انتظامیہ سے یہ مطالبہ کیا تھا، جب انھیں جواب ملا کہ ’’کیا چیئرمین کو اس مطالبے کا پتا ہے‘‘ اس پر سی ای او (اب کچھ نہیں) کا جواب تھا جی ہاں اور یہ درخواست نہیں آفیشل مطالبہ ہے۔

اس پر ثمین رانا کا کہنا تھا کہ آپ کو جو کرنا ہے وہ کر لیں ہم ایسا کسی صورت نہیں کر سکتے‘‘۔معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا، پی ایس ایل گورننگ کونسل کی میٹنگ میں دوبارہ رمیز راجہ نے ثمین رانا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’تم لوگوں سے تو بات ہی نہیں کرنی، تم نے عاقب کو نہیں نکالا،وہ میرے سامنے آیا تو چپیڑے (تھپڑ) ماروں گا‘‘ یہ سن کر وہاں موجود افراد ہکا بکا رہ گئے تھے۔

یہ واقعہ مجھے میرے ایک صحافی دوست نے سنایا جس کی میں نے پی ایس ایل کے دوران  تصدیق بھی کرلی، دلچسپ بات یہ ہے کہ عاقب جاوید کا تو قلندرز کے ساتھ کوئی معاہدہ ہی نہیں ہے، نہ ہی کوئی تنخواہ طے ہے، وہ تو کرکٹرز کی تلاش اور انھیں گروم کرنے کا کام مشن سمجھ کر کرتے ہیں،فرنچائز کا جواب سن کر رمیز تلملا اٹھے تھے۔

شاید وہ چیئرمین ہوتے تو عاقب کے پیچھے پڑے رہتے ، کیا پتا کسی بیان کا بہانہ بنا کر پابندی ہی لگا چکے ہوتے لیکن پاکستان میں حالات بہت جلدی تبدیل ہوتے ہیں،رمیز آج کسی ٹی وی چینل پر بیٹھ کر تبصرے کر رہے ہیں اور عاقب کے ہاتھوں میں مسلسل دوسرے سال پی ایس ایل کی ٹرافی جگمگا رہی ہے۔

انھوں نے تنقید بھی بہت سہی ہے،ابتدائی برسوں میں قلندرز کی ناکامیوں کا سارا ملبہ عاقب پر ہی ڈال دیا جاتا تھا، کوچنگ نہیں آتی، پلیئرز پر کنٹرول نہیں ہے، پارٹی کرتے رہتا ہے وغیرہ وغیرہ، شاید کوئی اور فرنچائز ہوتی تو انھیں گھر بھیج چکی ہوتی لیکن قلندرز نے اعتماد برقرار رکھا جس کی وجہ سے ٹیم نے تاریخ رقم کر دکھائی، شاہین شاہ آفریدی ایمرجنگ کرکٹر کے روپ میں پی ایس ایل میں آئے۔

وہ واقعہ ہزاروں بار آپ نے سنا ہوگا جب وہ پرفارمنس نہ ہونے پر معاوضہ واپس کرنے کیلیے فرنچائز اونر کو تلاش کر رہے تھے، آج وہ ٹیم کو لگاتار 2 ٹائٹلز جتوا چکے،کسی اور فرنچائز میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ سینئرز کی موجودگی میں کسی نوجوان کو یہ ذمہ داری سونپتی، شاہین کو فری ہینڈ ملا، سلیکشن سمیت گراؤنڈ میں تمام تر فیصلے انھوں نے خود کیے جس کا صلہ بھی ملا،کراچی کنگز کیلیے بابر اعظم نے 500 سے زائد رنز بنائے لیکن وہ پانچویں نمبر پر رہی، لاہور قلندرز کے کسی بیٹسمین نے 450 رنز بھی نہیں بنائے لیکن وہ چیمپئن ہے، فخر زمان (423) رنز کے سوا کسی نے 300 رنز بھی نہیں اسکور کیے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیم ورک اہم ہے،کھلاڑی تھوڑا تھوڑا بھی حصہ ڈالیں توٹیم میچ جیت سکتی ہے،ایسا ہی ملکی اور غیر کرکٹرز نے کیا،چاہے وہ سکندر رضا ہوں یا سیم بلنگز اعدادوشمار غیرمعمولی نہیں لیکن سب نے اپنا کردار نبھایا،عبداللہ شفیق کو سب ٹیسٹ بیٹسمین سمجھتے تھے وہ نئے روپ میں سامنے آئے۔

بولنگ میں  افغان اسپنر راشد خان نے ایک بار پھر دھاک بٹھا دی، حارث رؤف کے ساتھ نوجوان زمان خان بھی اچھی بولنگ کرتے نظر آئے، فائنل میں حارث ناکام رہے تو شاہین کے ساتھ زمان نے کام سنبھالا، کپتان نے پلیئرز کا بہترین استعمال کیا،انھوں نے خود آگے بڑھ کر ذمہ داری نبھائی، بیٹنگ سے بھی شاہین نے ثابت کر دکھایا کہ ان میں اچھا آل راؤنڈر بننے کی صلاحیت موجود ہیں، گذشتہ سال تو ہر میچ کے بعد نمایاں پرفارمرز کو موبائل فونز دیے جاتے تھے اب تو پلاٹس بھی شامل ہو گئے۔

آپ نے ویڈیوز میں دیکھا ہو گا کہ مالدار کرکٹرز بھی انعامات ملنے پر کیسے خوشی سے سرشار دکھائی دیتے تھے،ثمین رانا نے یہ ’’نیلام گھر ‘‘ شاید پلیئرز کو ساتھ جوڑنے کیلیے ہی شروع کیا تھا، اس ٹیم کی خاصیت مل جل کر رہنا بھی ہے، کچھ سال قبل جب عاطف رانا نے پلیئرز ڈیولپمنٹ پروگرام شروع کیا تو سچی بات ہے مجھ سمیت بہت سے لوگ یہی سمجھتے تھے کہ یہ تشہیری سرگرمی ہے،کوئی فائدہ نہیں ہوگا لیکن ہم غلط تھے۔

جس طرح آپ کوئی پودا لگائیں تو وہ پہلے دن درخت بن کر پھل نہیں دینے لگتا، آپ کو اس کا خیال رکھنا پڑتا ہے، یہاں بھی ایسا ہی ہوا لیکن زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا اور پی ڈی پی سے ٹیلنٹ ملنا شروع ہوگیا، دیگر پانچوں فرنچائزز کھلاڑیوں کو ان کے نام پر منتخب کرتی ہیں لیکن قلندرز  پہلے خودپلیئرز کو ڈھونڈتے ہیں، پھر ان کی صلاحیتوں کو نکھارتے اور اپنی ہی ٹیم سے کھیلنے کا موقع فراہم کرتے ہیں،اس سے پاکستان ٹیم کا بھی بھلا ہونے لگا اور تیار شدہ پلیئرز مل رہے ہیں،کروڑوں روپے خرچ کر کے بھی اتنی تشہیر نہیں ہو سکتی تھی جتنی حارث رؤف جیسے پلیئرز سے ہوتی ہے۔

جہاں ان کا ذکرہو پی ڈی پی کی دریافت کہا جاتا ہے،اس سال مرزا طاہر بیگ اور زمان خان کی صلاحیتیں ابھر کر سامنے آئیں قلندرز کیلیے سب سے بڑی ٹرافی شاہین آفریدی، حارث رؤف، زمان خان اور مرزا طاہر جیسے کرکٹرز ہی ہیں، پی ایس ایل کی بیشتر فرنچائز سارے سال آرام سے بیٹھی رہتی ہیں، ایونٹ سے کچھ عرصے قبل ہی انھیں کچھ کرنے کا خیال آتا ہے،بعض نے ماضی میں ٹیلنٹ ہنٹ پروگرامز کیے مگر وہ کارآمد ثابت نہ ہوئے، اگر وہ بھی کوئی اچھا پلیئرز ڈیولپمنٹ پروگرام شروع کریں تو آپ سوچیں ملک میں کتنا نیا ٹیلنٹ آئے گا۔

قلندرز نے ٹیلنٹ کی قلت کی باتوں کو تو غلط ثابت کر دیا ہے، آپ دیکھیں جو پلیئرز سامنے آئے ان سب کا غریب گھرانوں سے تعلق ہے، اگر یہ پروگرام شروع نہ ہوتا تو ان میں سے کوئی الیکٹریشن تو کوئی دکاندار بن چکا ہوتا، آپ اکثر وائرل ویڈیوز دیکھتے ہیں کہ کوئی رنگ ساز زبردست گلوکاری کر رہا ہوتا ہے، کوئی ہوٹل کا ویٹر زبردست اداکاری کرتے دکھائی دیتا ہے، یہ وہ ٹیلنٹ ہے جو بدقسمتی سے مواقع نہ ملنے سے ضائع ہو گیا۔

شکر ہے کرکٹ میں اب ایسا نہیں رہا،کوئی غریب کرکٹر بھی اگر باصلاحیت ہے تو موقع پا سکتا ہے،شکریہ لاہور قلندرز کاش پی سی بی بھی آپ سے کچھ سبق سیکھے،البتہ بورڈ کو پی ایس ایل کے کامیاب انعقاد کا کریڈٹ ضرور دینا چاہیے، نجم سیٹھی اور ان کی ٹیم نے انتھک محنت سے اسے ممکن بنایا، اس بار چیلنجز بھی زیادہ تھے۔

سیاسی حالات کی وجہ سے میچز میں تعطل کا بھی خطرہ نظر آیا لیکن شکر ہے ایونٹ بروقت مکمل ہوا، سیکیورٹی ایجنسیز نے اس بار بھی بااحسن انداز میں فرائض نبھائے جس کی وجہ سے کوئی ناخوشگوار واقعہ نہ پیش آیا، پی ایس ایل کے دوران شائقین کو گراؤنڈ اور گھر پر ٹی وی اسکرین کے سامنے زبردست کرکٹ سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا، اچھا پرفارم کرنے والے پلیئرز قومی ٹیم میں بھی شامل ہو گئے، یہ ہماری لیگ ہے اور سب کو مل کر اسے آگے بڑھانا ہے، ابھی آئی پی ایل کے بعد نمبر ٹو قرار دیا جاتا ہے مگر وہ وقت بھی دور نہیں جب پی ایس ایل انشااللہ نمبر ون بن جائے گی۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔