سوال تو اٹھتے ہیں

شہلا اعجاز  جمعـء 14 اپريل 2023

اسلام میں حکومت اور سیاست کا عمل بڑا واضح ہے جو عام انسانوں کے لیے فائدہ مند ہی ہے۔ عدل کا جو پیمانہ اسلام میں مقرر ہے اس کی بنیاد ٹھوس ہے یعنی اگر کسی نے جس انداز سے حق تلفی کی اس کی سزا مقرر ہے جو امیر غریب، اعلیٰ حسب و نسب غرض کسی کو بھی نہیں دیکھتی۔

یہ الگ بات ہے کہ اس پر عمل کرنا آج کل کے انسانوں کے لیے مشکل ترین ہوتا جا رہا ہے اور اگر اس پر عمل درآمد شروع ہو جائے تو ہمارے یہاں جس قدر مسائل اور ابتری کا رونا رویا جا رہا ہے اس میں قدرے بہتری آنا شروع ہو جائے لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے۔

مشہور ہے کہ ایک دفعہ بیت المال سے ایک اونٹ بھاگ گیا تو حضرت عمر ؓ خود اس کی تلاش میں نکلے۔ اسی دوران ایک قبائلی سردار آپؓ سے ملنے کو آئے تو آپؓ نے اس پر وہ توجہ نہ دی، سردار کو بھی اونٹ کے کھونے کا معاملہ پتا چلا، آپؓ نے فرمایا کہ کسی کو کیا معلوم کہ اس اونٹ پر کتنے غریبوں کا حق ہے۔

جب اس سردار نے کہا کہ کسی خادم کو ڈھونڈنے کے لیے بھیجیں تو آپ نے فرمایا کہ مجھ سے بڑھ کر امت مسلمہ کا کون خادم ہو سکتا ہے۔

ایک حکومت آتی ہے تو پچھلی حکومت کے مقرر کردہ ملازمین کو فارغ کردیتی ہے یہ حال صرف حکومتوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ یہ عام سرکاری اداروں میں رائج ہو چکا ہے۔ کون سا ملازم کس سربراہ ادارہ کے قریب ہے یا منہ چڑھا ہے اسے برتری حاصل ہے اور باقی سارے اپنے تمام تر اعلیٰ صفات و اسناد کے ساتھ صفر ہو کر یا تو پس پشت ڈال دیے جاتے ہیں یعنی ترقیوں کے معاملے میں طویل انتظار یا نکال دیے جاتے ہیں۔

یہ بھی درست ہے کہ سرکار کا کام ہے عوام کے لیے نوکریاں نکالنا اور انھیں ملازمتیں فراہم کرنا لیکن اگر ایسا ہونے لگے کہ بڑی بڑی تنخواہوں پر چڑیا اڑانے کا کام تھما دیا جائے تو چڑیا تو پھر چڑیا ہی ہوتی ہے اور اس پر سوال تو اٹھتا ہی ہے۔

پاکستان جیسے غریب ملک میں جہاں آٹے کے حصول کے لیے لمبی قطاریں اور خون خرابا دیکھنے میں آ رہا ہے ایسے میں بڑی تنخواہوں کی بازگشت، دھاندلیاں اور پکڑ دھکڑ سن کر اعصاب شل کر دینے کے مترادف ہے لیکن شاید اب ہم سب ان حالات کے عادی ہو چکے ہیں کرپشن ہمارے ارد گرد اس طرح رچ بس گئی ہے کہ اسے اپنے سے الگ کردینا ایسا ہو گیا ہے جیسے جسم سے خون۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے بدعنوانی کی جو نئی کہانی سامنے آئی ہے، اس سے ایک بات تو واضح ہو گئی ہے کہ کرپشن کے اس میدان میں ہمارے ملک کے بڑے بڑے نام ہی نمبروں کی دوڑ میں آگے نہیں ہیں۔

امریکا بھی اب اس دوڑ میں آگے جا رہا ہے بھلا ہو اس ڈونلڈ ٹرمپ کا کہ جس نے ہمیں اس احساس محرومی سے کچھ تو نکالا ورنہ ہم تو اسی ٹینشن میں گھلے جا رہے تھے کہ بیرون ملک پاکستان کی کس قدر بے عزتی کروا رہے ہیں یہ۔سوال تو جناب اٹھتے ہی رہتے ہیں لیکن ان تمام سوالوں کے جوابات حاصل کرکے آپ نے کیا کرنا ہے۔ بات تو ہے کام کی جو ہمارے یہاں اب کرنے والوں کی عادت سی بگڑتی جا رہی ہے۔

کام کے نام سے ہی جمائیاں آنے لگتی ہیں اور طبیعت پر افسردگی سی چھا جاتی ہے لیکن خیر سے اس دن چہرے کی رونق دیکھنے کے قابل ہوتی ہے جب تنخواہیں بٹنے کی صدا آتی ہے۔ کس قدر اذیت ناک بات ہے کہ ہم سب غیر ذمے داری ، نااہلی اور تساہل سے کام کرنے کو شان سمجھتے ہوئے اپنی تنخواہوں پر پورا حق جماتے ہیں بلکہ ابھی بھی گلے شکوے تو ابلتے ہی ہیں۔

مہنگائی کے رونے روز بہ روز بلند ہوتے جا رہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی لوٹ مار کی کہانیاں اور وارداتیں بھی نمودار ہوتی چلی جا رہی ہیں۔

رمضان المبارک کا مقدس مہینہ شروع ہوتا ہے تو شیطان کی بندش ہو جاتی ہے مگر سچ بتائیے کہ سڑکوں پر چلتے پھرتے آپ کو شیطان کے بھائی بندوں کی سی حرکتیں نظر نہیں آتیں۔ہر موڑ ہر ناکے پر متعدد لوگ آپ کی تلاشی کے ساتھ۔ سوال تو اٹھتے ہی ہیں کہ آخر رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں اس قسم کی حرکات کیوں عام ہو جاتی ہیں؟ تو جواب دھیما دھیما سا ابھرتا ہے کہ جناب! عید بھی تو منانی ہے، بچوں کے لیے۔ دراصل عید کے دو تین دنوں کی خوشی کے لیے رمضان بھر کے تیس روزوں کو پس پشت ڈال کر رشوت ستانی کے عذاب ڈبل کرکے حاصل کرنے کی جستجو ہوتی ہے۔

شیطان کو پھر بھی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے کہ کرپشن تو خون کی طرح رگ رگ میں دوڑ رہی ہے تو جناب! رمضان المبارک میں شیطان کی بندش۔ڈونلڈ ٹرمپ سے یاد آیا کہ موصوف جب اقتدار میں آئے تھے تو اپنے پڑوسیوں کو بھی نہ بخشا تھا اور گن گن پیار محبت اور سختی سے بدلے تو لیے تھے لیکن اب حال یہ ہے کہ ان کی اپنی اہلیہ نے بھی ان سے کٹی کر لی ہے۔

حضرت عمرؓ کا دور خلافت آج بھی یاد کیا جاتا ہے اور اس کی مثالیں دی جاتی ہیں کیونکہ آپؓ اسلام لانے سے قبل کفار میں ایک بڑے جی دار، طاقت ور شخص کے روپ میں ایک ہیبت رکھتے تھے، پھر لوگوں نے دیکھا کہ آپؓ نے اپنی جرأت اور بہادری کو اپنے دور حکومت میں اس طرح جوڑا کہ آپؓ کے انتقال کے بعد دور دراز علاقوں میں بھی اس کے اثرات دیکھے گئے جب ایک جنگل میں چرواہے کی بھیڑیں ڈر گئیں اور وہ کہہ اٹھا تھا کہ لگتا ہے کہ اب عمرؓ نہ رہے، ورنہ میری بھیڑیں اس طرح خوف زدہ نہ ہوتیں۔ بچپن میں اپنے استادوں سے سنا یہ واقعہ اب بھی ذہن میں محفوظ ہے۔

حضرت عمرؓ کا بنایا ہوا قانون آج بھی دنیا بھر میں موجود ہے۔ آپؓ نے عہدیداروں کے اختیارات اور فرائض میں جس طرح کا عہد رکھا تھا وہ اگر ہم آج کل کے زمانے میں رائج کرنے کے بارے میں سوچ بھی لیں تو سوال تو اٹھتے ہیں۔

مثلاً اس زمانے میں عہد کی ایک شق تھی کہ ترکی گھوڑے پر سواری نہیں کرے گا گویا آج کے زمانے کی کروڑوں روپے کی بڑی شان دار گاڑیاں ، جناب سیکیورٹی کے مسائل، باریک کپڑے نہیں پہنے گا۔ آج کل تو برانڈز کا دور ہے عہدے کی بھی تو شان ہوتی ہے لوگ کیا کہیں گے اور بیرون ملک کے سفارتی تقاضے وزرا وغیرہ وغیرہ۔ چھنا ہوا آٹا نہیں کھائے گا، صحت کے تقاضے دیکھنے پڑتے ہیں ویسے بھی کولیسٹرول کے مسائل اب کیا کرسکتے ہیں سرکاری شیف تو بس۔ دروازوں پر دربان نہیں رکھے گا، کمال کرتے ہیں جناب! گارڈز کے بغیر گزارا کیسے ہو پائے گا ذرا سوچیے تو۔حاجت مندوں کے لیے اس کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہے گا۔

جناب! اس کے بھی طریقے ہیں بلکہ مفید طریقے ہیں بات کو سمجھیے ہم مسائل کو یوں ہی تو نہیں لوٹاتے آپ بات سمجھ رہے ہیں ناں۔ اس بات کو سمجھاتے ہوئے اگر ہاتھ پر دباؤ زیادہ بڑھے تو سمجھ جائیے اور کم ہو تو بھی سمجھ جائیے جب کہ دوسرے ذمے داران یہ دروازے الیکشن کے دنوں میں کچھ اس طرح وا کرتے ہیں کہ کواڑوں میں تیل ٹپکاتے ہیں پتا نہیں پھر کب موقع ملے، اور کون جانتا ہے حاجت مندوں کو اپنے خاص لوگوں سے کہہ کر سب سیٹ کروا دیتے ہیں بس تصاویر واضح آنی چاہئیں۔ رپورٹنگ اچھی ہونی چاہیے آج کل سوشل میڈیا نے دماغ خراب کر رکھا ہے ہر جگہ گھس جاتے ہیں ان کا خیال رکھنا ہے۔

سوال تو اٹھتے ہیں البتہ ڈونلڈ ٹرمپ! یقین نہ تھا کہ جانے کے بعد بھی تم اتنے کمال کے نکلو گے، تم نے بہت سے لوگوں کے شانوں سے بلاوجہ کا بوجھ ہلکا کردیا کہ اس حمام میں تو سوال تو اٹھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔