مجوزہ آئینی ترمیم کےاہم نکات 56 کے بجائے 24 میں ترامیم ہوں گی

مجوزہ ڈرافٹ میں سپریم کورٹ کے 5 یا 9 رکنی آئینی بینچ کے قیام سمیت دیگر تجاویز شامل ہیں


ویب ڈیسک October 17, 2024
فوٹو: فائل

وزارت قانون نے 26ویں آئینی ترمیم کا مسودہ تیار کرلیا جس کے مطابق حکومت اب 56 کی جگہ 24 ترامیم کرے گی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیر قانون کے تیار کردہ ڈرافٹ کے مطابق حکومت نے آئین کے آرٹیکل 48 کی شق 4 میں ترمیم کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کے تحت صدر مملکت ، کابینہ اور وزیر اعظم کی طرف منظور کردہ مشورہ کو کسی عدالت یا ٹربیونل اور کہیں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔

مسودے کے مطابق حکومت آئینی ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کرے گی جس کے تحت پارٹی سربراہ کی ہدایت کے خلاف ووٹ گنا جائے گا، پارٹی سربراہ اُس کے بعد کارروائی کا اختیار کرسکتا ہے۔

آرٹیکل 111 میں ترمیم کی کی تجویز ہے، جس کے تحت ایڈوکیٹ جنرل کے ساتھ ایڈوائزر بھی قانونی معاملات صوبائی اسمبلی میں بات کرسکے گا۔ حکومت نے ججز تقرری کے حوالے سے آرٹیکل 175 اے میں ترمیم کا فیصلہ کیا ہے۔ مسودے کے مطابق جوڈیشل کمیشن صرف تقرری کرتا تھا، اب ہائیکورٹ کے ججز کی کارکردگی جائزہ لے سکے گا۔

اس کے علاوہ سپریم کورٹ میں ججز کی تقرری میں بھی ترمیم کی تجویز کی گئی ہے، جس کے تحت سپریم کورٹ کے ججز کی تعیناتی میں چار اسمبلی ارکان کمیٹی کے ممبرز ہونگے، جس میں سے دو حکومت اور دو اپوزیشن ارکان ہوں گے۔

حکومت کی طرف ایک سینیٹر اور ایک ایم این اے کا نام وزیر اعظم تجویز کیا جائے گا اپوزیشن کی طرف سے دو نام اپوزیشن لیڈر تجویز کرے گا۔ چیف جسٹس کی تعیناتی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کرے گی، خصوصی کمیٹی کے 8 ارکان قومی اسمبلی اور چار ارکان سینیٹ ہونگے۔ کُل 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی چیف جسٹس کا تقرر کرے گی۔

تجویز کے مطابق اب سینئر ترین جج چیف جسٹس نہیں بنے گا بلکہ تین موسٹ سینئر ججز میں کسی ایک کا انتخاب ہوگا۔ چیف جسٹس کی تعیناتی کے حوالے سے کمیٹی کا ان کیمرہ اجلاس ہوا۔

ترمیم میں تجویز کی گئی ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ چیف جسٹس کی تعنیاتی کے لئے پہلے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اور موسٹ سینئر جج ملکر چُنتے تھے، ترمیم کے بعد ان دونوں کے ساتھ ایک سینئر وکیل 15سال تجربہ ایک وفاقی وزیر میمبر ہوگا، جو وزیر اعظم کا نامزد کردہ ہوگا۔

حکومت نے آرٹیکل 184میں ترمیم کی تجویز بھی رکھی ہے جس کے تحت چیف جسٹس سے سوموٹو نوٹس کا اختیار ختم ہوجائے گا اور چیف جسٹس پیٹیشن کے متعلق ہی نوٹس جاری کرسکے گا۔

اس کے علاوہ آرٹیکل 179 میں بھی ترمیم کی تجویز ہے جس کے تحت چیف جسٹس کی مدت تین سال ہوگی، چیف جسٹس 65 سال عمر ہوتے ہی مدت سے پہلے ریٹائر ہوجائیں گے، اگرچہ 60 سال کی عمر میں چیف جسٹس بن گئے تو تین سال کے بعد عہدے ریٹائر ہونا ہوگا۔

اسی طرح حکومت نے آئین میں نیا آرٹیکل 191 اے شامل کرنے کی تجویز بھی شامل کی ہے، جس کے تحت سپریم کوٹ میں آئینی بینچ بنائی جائے گی اور ان کے ججز کی تقرری جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کرے گا۔ آئینی بینچ میں تمام صوبوں سے برابر ججز تعینات کئے جائیں گے، ترمیم کے بعد آئینی مقدمات آئینی بینچ کو منتقل ہوجائیں گے جبکہ تمام آئینی مقدمات آئینی بینچ سنے گی۔

حکومت کی جانب سے آرٹیکل 199 میں ترمیم کی تجویز بھی سامنے آئی ہے جس کے تحت عدلیہ استدعا سے زیادہ کسی آئینی معاملے پر حکم یا تشریح نہیں کرسکے گی۔ اسی طرح آریٹکل 209 میں ترمیم کی تجویز کے مطابق سپریم جوڈیشل کاؤنسل کی تشکیل میں چیف جسٹس سپریم کورٹ، دو سینئر موسٹ ججز اور دو ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ممبر ہونگے۔

حکومت کی جانب سے آرٹیکل 215 میں ترمیم کی تجویز سامنے آئی ہے جس کے تحت چیف الیکشن کمشنر مدت ختم ہونے 90 دن عہدے پر رہ سکتے ہیں جبکہ نیا چیف چیف الیکشن کمشنر تعینات ہوگا۔

آئین کے فورتھ شیڈول، کنٹومنٹ کو لوکل ٹیکسز لینے کا اختیار دینے کی تجویز بھی مسودے میں شامل ہے۔

 

18 ویں آئینی ترمیم کو مکمل بحال اور 19ویں آئینی ترمیم کو مکمل ختم کرنے کی تجویز بھی ڈرافٹ میں شامل ہے۔

مجوزہ ڈرافٹ میں شامل ایک تجویز کے مطابق وزیراعظم اور وفاقی کابینہ کی صدر کو بھیجی گئی ایڈوائس چیلنج نہیں ہوسکے گی اور کسی ادارے عدالت یا اتھارٹی کو صدر کو بھیجی گئی ایڈوائس پر تحقیقات یا کارروائی کا اختیار نہیں ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔