حقوق العباد اتنا بڑا موضوع ہے، کہ اس پر جتنا لکھا جائے کم ہے، مگر افسوس جب ہوتا ہے، جب اس حوالے سے اچھا خاصا شعور رکھنے والی خواتین بھی اس مسئلے پر توجہ دینے کے بہ جائے خود اس کی بڑی مجرم بن رہی ہوتی ہیں۔ کبھی فون پر گھنٹوں غیبت کر کے، تو کبھی کسی مسئلے پر انصاف کو پائمال کرکے، تو کہیں صلہ رحمی ترک کرکے اس کو سبوتاژ کردیتی ہیں، حالاں کہ یہ وہ عمل ہے کہ جس کی معافی بندے ہی کو دینی ہوتی ہے، اللہ نے کہا ہے کہ وہ اِسے معاف نہیں کرے گا، جب تک بندہ معاف نہ کرے۔
صلہ رحمی کرنا، دوسروں کے کام آنا، بیمار کی عیادت کرنا، بچوں سے شفقت کرنا، محبت کرنا، کسی کے ساتھ حسن سلوک کرنا، یہ سب حقوق العباد ہے۔ مگر افسوس ہمیں یہ سب نبھانا نہیں آتا۔ ہم بس دوسروں کو دبانے کے لیے، ان پر حاوی ہونے کے لیے کرتے ہیں۔ ’جوائنٹ فیملی سسٹم‘ یا مشترکہ خاندانی نظام جو کہ بر صغیر میں ایک روایتی طرز حیات ہے۔ اس کا تعلق ہماری معاشرت سے ہے، مذہب میں اس کا کوئی تصور نہیں، بلکہ ہمیں سب کے الگ الگ گھروں کا ذکر ملتا ہے۔ اس جوائنٹ فیملی سسٹم میں بظاہر ایک دوسرے سے پیار محبت کا پیغام دیا جاتا ہے، مگر حقوق العباد کی جتنی تلفی اس سسٹم میں کی جاتی ہے، شاید ہی کہیں ہو۔ ساتھ رہنے والوں سے امتیازی سلوک، دُہرا معیار، یہاں تک کہ بد سلوکی اور ان کی نجی زندگی تک میں مداخلت اور اس پر خوب بات کی جاتی ہے۔ موازنے کی اس جنگ میں ہمیں یہ خیال بھی نہیں رہتا کہ ہر بات میں کس قدر جھوٹ اور غلط بیانی سے کام لیا جا رہا ہے۔ جھوٹ کی یہ عادت اتنی پختہ ہو جاتی ہے کہ ہر بات میں پھر عادتاً جھوٹ بولا جاتا ہے، بات میں مرچ مسالا لگانے یا بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کو غلط بیانی کر دی جاتی ہے۔ یہ سب بھی حقوق العباد کے خلاف ہے۔ زبان سے کہنا اخلاقی برائی نہیں، بلکہ وہ رویہ بھی جو آپ کسی کے ساتھ اپنے موڈ خراب کر کے کریں، جس سے اپنا ذہنی سکون بھی خراب ہو اور دوسرے کا بھی۔ عبادات پر اتنا توجہ اور یک سوئی اختیار کرنا رمضان کے روزوں کے علاوہ نفلی روزہ کا اہتمام، نماز کی پابندی یہ یقیناً ایک اچھی بات ہے، سبھی کی خواہش ہوتی ہے کہ اُسے اللہ تعالی سے لو لگانے کی توفیق دے، مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ جتنا خیال حقوق اللہ کا کر رہے ہیں اتنا اس کے بندوں کا کر لیں، جو اپنے بندوں سے 70 ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے۔
ہمارے اردگرد کچھ ایسے زہریلے لوگ بھی ہوتے ہیں، جو حسد و کینے کا پیکر ہوتے ہیں، جیسے انھیں اپنے دکھ سے زیادہ کسی کے سکھ سے مسئلہ ہوتا ہے۔ان سے ہماری کام یابی ہضم نہیں ہوتی۔ ان کی یہ ’بیماری‘ اتنی بڑھتی ہے کہ یہ احساس کم تَری اور احساس محرومی میں بدل جاتی ہے، مگر ان کو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ سب کو سب کچھ نہیں ملتا، کسی کو کچھ مل گیا تو کسی کو کچھ اور۔ یعنی جو چیز آپ کے پاس ہے، شاید وہ کسی اور کو نہیں ملا۔ ویسے بھی کسی کی کام یابی سے حسد کرنا ایک خطرناک اخلاقی برائی ہے۔ یہ کسی بھی طرح نیک شعار نہیں ہے۔کسی کی پیٹھ پیچھے برائی کرنا، اس کے پورے دن کے معمولات زندگی کی خبر رکھنا اور اُسے دوسروں تک پہنچانا ایک بہت بھیانک غیبت ہے۔ افسوس، غیبت کرنے والے سے زیادہ غیبت سننے والا بھی ذہنی پس ماندگی کا شکار ہوتا ہے۔ اسی خراب ذہینیت ہی مخاطب کو مزید شے دیتی ہے کہ وہ غیبت کے میدان میں آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔
آج کی تیز رفتار زندگی میں جہاں بے تحاشامصروفیت کے باوجود بھی ہم ایسی غیبت والی گفتگو سے باز نہیں رہتے۔ یہ ہمارے لیے روز کے اہم فرض کے طور پر موجود رہتا ہے۔ پھر جہاں آمنا سامنا ہو رہا ہے، وہاں طنزیہ نگاہیں، تنقیدی فقرے اور انداز آپ کے من پر گہرے گھاؤ لگاتا ہے، یعنی ایسے لوگوں کا پاس سے گزر جانا اور ایک مجلس میں موجودگی بھی تکلیف کا باعث ہوجاتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ’مشترکہ خاندانی نظام‘ میں ایسے کردار بہت مہلک ثابت ہوتے ہیںاور پھر اپنے چھوٹوں کے لیے ہر لمحے کی پریشانی بن جاتے ہیں، یعنی گھر کا وہ کونہ جہاں آپ کو سکون ملنا چاہیے، وہی آپ کے لیے ٹینشن کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ پھر یہ سب کردار اللہ سے لو لگانے والے ہوتے ہیں، لیکن اللہ کے بندوں اور اپنے قرابت داروں اور مشترکہ خاندانی نظام کے افراد کے ساتھ اچھے نہیں ہوتے۔ آخر وہ محسوس کیوں نہیں کرتے کہ ان کی موجودگی سے لوگ پریشان کیوں ہونے لگے ہیں، وہ کیوں نہیں چاہتے کہ لوگ انھیں دل سے اچھا سمجھیں، دل سے مسکرا کر بات کریں اور جواباً وہ بھی ایک مسکراہٹ وصول کریں اور دل میں حسد کی آگ کی جگہ محبت اور اپنائیت کا سکون محسوس کریں۔
انسان کا مزاج مجلسی ہے، وہ ایک دوسرے سے مل کر، بات چیت کرکے خوش ہوتا ہے، لیکن ایسے حاسد لوگوں کی قربت تکلیف دہ اور ان سے دوری راحت پہنچاتی ہے، کیوں کہ کبھی ہم چاہ کر بھی ان سے فاصلہ نہیں رکھ پاتے، یہ ہماری زندگیوں کی مجبوری بن چکا ہوتا ہے۔ لیکن ایسے لوگوں کو خود سوچنا چاہیے کہ وہ کیوں اپنے وجود سے کسی کے لیے اذیت کا باعث بن رہے ہیں، وہ کیوں ایسی شخصیت نہیں بنتیں کہ لوگ ان کے گرویدہ ہوں اور ان کی کمی کو محسوس کریں، نہ کہ ان کے چلے جانے پر سُکھ کا سانس لیں۔