یونیورسٹی روڈ کراچی کی اہم سڑک ہے جس پر 84 انچ پائپ لائن اچانک پھٹ گئی ایک کلو میٹر تک کا علاقہ زیر آب آگیا اور پینے کا پانی گلیوں سے گھروں میں داخل ہو گیا جس سے سیلابی صورت حال پیدا ہوگئی اور شہریوں کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا اور واٹر کارپوریشن نے یہ کہہ کر ذمے داری پوری کردی کہ مرمتی کام 96 گھنٹوں میں مکمل ہو سکے گا۔
واٹر لائن پھٹنے سے نصف شہر کو پانی کی فراہمی بند رہی اور واٹر کارپوریشن کے عملے نے وال بند کرنے میں دیر کی اور کئی گھنٹوں تک پانی کا رساؤ جاری رہا۔ جامعہ کراچی کے قریب پھٹنے والی 84 انچ قطر کی لائن سائفن 19 پھٹی اور شہر میں پہلے سے موجود پانی کا بحران مزید شدید ہو گیا مگر واٹر کارپوریشن کرے گی کچھ نہیں۔
حق پرست ارکان اسمبلی نے 84 انچ پائپ لائن پھٹنے کو قابل تشویش قرار دے کر سندھ حکومت سے لائن پھٹنے کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ بی آر ٹی منصوبے میں غفلت کے باعث آئے روز پانی کی لائنیں پھٹتی رہتی ہیں۔ لائن پھٹنے سے لاکھوں گیلن پانی کراچی میں ضایع ہو گیا جہاں پہلے ہی پانی کا شدید بحران ہے اور سخت گرمی میں لوگ پانی کی قلت کا پہلے سے ہی شکار ہیں جن کی مشکلات مزید بڑھ گئیں کراچی لاوارث ہے کوئی ذمے داری لینے کو تیار نہیں کراچی واٹر کارپوریشن کے افسران کی تمام توجہ کمائی اور مراعات کے حصول پر مرکوز ہے اور یہ افسران اپنی ذمے داریاں محسوس ہی نہیں کرتے، واٹر کارپوریشن نے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ پانی احتیاط سے استعمال کریں کیونکہ لائن پھٹنے سے پانی کی فراہمی متاثر ہوگی۔
لوگ پانی کا ذخیرہ کر لیں پانی کا بحران کئی روز جاری رہ سکتا ہے۔ ترجمان واٹر کارپوریشن نے شہریوں کو یہ نہیں بتایا کہ جب پانی کی فراہمی ہوگی ہی نہیں تو وہ ذخیرہ کیسے کر لیں، اور سخت گرمی میں پانی کیسے احتیاط سے استعمال کریں۔ واٹر کارپوریشن نے دھابیجی پمپنگ اسٹیشن کے دس پمپ بھی فوری طور پر اسی وجہ سے بند کر دیے ہیں۔حق پرست ارکان اسمبلی ہی نہیں بلکہ واٹر کارپوریشن کے اعلیٰ افسروں اور اس کے چیئرمین میئر کراچی سے شہری یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ کراچی میں آئے دن پانی کی لائنیں پھٹتی ہی کیوں ہیں جس سے لاکھوں گیلن پانی ضایع ہو جاتا ہے جو پانی شہریوں کو ملنا چاہیے وہ سڑکیں زیر آب کر دیتا ہے اور گلیوں سے بہتا ہوا گھروں تک میں آ کر ان کے نقصان کا سبب بن جاتا ہے مگر گھروں کے کنکشن میں پانی نہیں ہوتا۔
شہر کے مختلف علاقوں میں قلت آب کے خلاف مظاہرے معمول بنے ہوئے ہیں۔ مشتعل شہری احتجاج کرتے رہتے ہیں، خواتین اور بچے بالٹیاں اٹھا کر شہر میں پانی کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں مگر جہاں لائنیں ہیں وہاں لائنوں میں پانی نہیں آتا اور سخت گرمی میں لوگ ایک طرف پانی کے لیے ترس رہے ہیں اور تیز رفتار واٹر ٹینکروں کی زد میں آئے روز کچلے بھی جا رہے ہیں۔
واٹر کارپوریشن شہریوں کو پانی نہیں دیتا مگر واٹر بل نہ صرف باقاعدگی سے آتے ہیں اور ہر سال بلوں کی رقم بڑھائی بھی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ پانی آئے نہ آئے مگر شہری بل باقاعدہ ادا کریں۔ کراچی پاکستان کا واحد شہر ہے جہاں ہائیڈرنٹس ہیں جہاں سے ہزاروں واٹر ٹینکروں کو واٹر کارپوریشن پانی فراہم کرتی ہے جس میں سرکاری واٹر ٹینکر بھی شامل ہیں۔ واٹر کارپوریشن اپنے ٹینکروں سے بااثر افراد کو مفت اور باقی کو کم قیمت پر ٹینکروں سے پانی فراہم کرتی ہے اور ہزاروں پرائیویٹ ٹینکر واٹر مافیا کی ملکیت ہیں جو شہر میں من مانے نرخوں پر پانی فروخت کرتے ہیں جب کہ سرکاری ٹینکروں سے وقت ضرورت پانی فراہم نہیں کیا جاتا۔
کراچی میں دیگر مافیاز کی طرح پانی کی بھی بڑی اہم، بااثر مافیا ہے جو سرکاری سرپرستی، سیاسی اثر و رسوخ اور ارکان اسمبلی کی پشت پناہی کی وجہ سے نہایت طاقتور اور اتنی مضبوط ہے کہ آج تک اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا اور روزانہ کروڑوں روپے کے پانی کی فروخت اسی مافیا کی کمائی کا ذریعہ ہے جس میں واٹر کارپوریشن بھی مکمل طور ملوث ہے جس میں افسران تو کیا معمولی وال مین بھی ملوث ہیں اور واٹر کارپوریشن کے افسروں نے اپنے پرائیویٹ بیٹر بھی پال رکھے ہیں جو لوگوں سے فراہمی آب کی مرمت و درستگی کے نام پر ہزاروں روپے وصول کرکے سڑکیں کھدواتے ہیں اور علاقہ پولیس بھی ان سے رقم وصول کرتی ہے۔
2008 کے بعد پی پی کی سندھ حکومت نے بلدیہ عظمیٰ سمیت سب کچھ اپنے کنٹرول میں لے لیا اور کمائی کے نئے دروازے بھی کھول دیے جس کے بعد فراہمی آب کے مسائل بڑھے پانی نایاب ہو کر کھلے عام فروخت ہونے لگا اور کمائی کا بڑا ذریعہ بنا ہوا ہے۔