امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر کے حل میں تعاون کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان اور بھارت کے ساتھ مل کر دیکھیں گے کہ کیا کشمیر کے تنازع کا کوئی حل نکالا جاسکتا ہے۔ دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے صدر ٹرمپ کی قیادت، عالمی امن کے لیے وابستگی اور جنوبی ایشیا میں دیرپا امن کے قیام میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے ان کی انتہائی قیمتی پیشکش پر اظہار تشکر کیا ہے۔
بلاشبہ امریکی صدر کا حالیہ بیان پاکستان کی سفارتی سطح پر بڑی کامیابی ہے۔ امریکی صدر کے بیان کے بعد کشمیر کا معاملہ پھر سے عالمی توجہ کا مرکز بن گیا ہے اور اس کو اجاگر کرنا پاکستان کے لیے اہم پیشرفت ہے۔ ٹرمپ نے یقیناً سوچ سمجھ کر یہ پیشکش کی ہے اور اس بیان کے بھارتی رد عمل کا بھی انھیں خوب اندازہ ہوگا کہ مودی کشمیر کا ذکر کرنے پر جلنے لگتے ہیں، کشمیر مودی کے لیے نو گو ایریا ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ دنیا میں موجود تنازعات اور خاص طور پر مسئلہ کشمیر سمیت تمام مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، وہ معاملات حل کرنے کی غیر معمولی مہارت رکھتے ہیں، اگر سنجیدگی سے دیکھا جائے تو ٹرمپ نے کوئی دیو مالائی گفتگو نہیں کی، وہ سیاست کے امکانات کے وسیع تر تناظر میں بات کررہے ہیں۔
جنوبی ایشیا میں امن و استحکام مسئلہ کشمیر کے حل سے جڑا ہوا ہے، خطے کو جس مسئلے نے فلیش پوائنٹ بنایا ہے وہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی اندوہناک صورتحال ہے، علاقائی سیاست، عسکری حرکیات اور ایٹمی صلاحیت کے حامل پڑوسیوں کے مابین امن، معمول کے تعلقات کی بحالی، سفارت گری اور تجارت ممکن ہی نہیں جب تک عالمی قوتیں کشمیر کا مسئلہ حل کرنے پر راضی نہیں ہو جاتیں۔ خطے کے اس درد کی دوا ان ہی بالا دست طاقتوں کے پاس ہے جنھوں نے اپنے مفادات کی جنگ میں کشمیر کو فراموش کیا ہے مگر اس بار معاملہ کچھ اور ہے۔
بھارتی وزیر اعظم مودی کے تمام بیانات جو انڈس واٹر ٹریٹی کے بارے میں ہیں یہ بات بالکل واضح کرتے ہیں کہ ہندوستان اس معاہدے کو ہر صورت ختم کرنا چاہتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ موجودہ سیز فائر جس کے لیے ہندوستان کے محکمہ خارجہ نے ’’ سیز فائر یا جنگ بندی‘‘ کا لفظ ابھی تک استعمال نہیں کیا ہے۔ یہ سیز فائر کسی بڑے طوفان کے آنے سے پہلے چھا جانیوالی خاموشی کی سی صورتحال کا غماز ہے۔ پاکستان کسی بھی صورت یہ نہیں چاہے گا کہ انڈس واٹر ٹریٹی کو ہندوستان یکطرفہ طور پہ توڑ دے یا اس کے تحت پاکستان کے خلاف دریائی پانی کی دہشت گردی کرتا رہے۔
ہندوستان اس تمام 22 اپریل و ما بعد کی صورتحال کو سیاسی طور پر انڈس واٹر ٹریٹی کو ختم کرنے کے لیے استعمال کر نا چاہتا ہے، وہ سندھ طاس معاہدے کا از سر نو جائزہ لینے کے نام پر سیاسی طور پر پاکستان کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے۔ 1949 پاکستان انڈیا جنگ بندی معاہدہ اقوام متحدہ، تاشقند معاہدہ 1966 روس، رن آف کچھ بین الاقوامی ثالثی 1968، 2002میں محاذ آرائی کو کنٹرول کرنے میں امریکی کردار، شملہ معاہدے 1972کے دستخط کرانے میں روس اور امریکا کی جانب سے دباؤ۔
یہ تمام چند مثالیں ہیں کہ انڈیا اور پاکستان اپنے معاملات کو کسی بھی صورت نہیں سنبھال سکتے۔ آج اس انڈیا پاکستان محاذ آرائی کو ختم کرانے میں امریکا، سعودی عرب، یو اے ای، قطر، ایران، آذربائیجان، برطانیہ و چائنہ اور دیگر دوست ملکوں کی کوششیں اس جانب اشارہ کرتی ہیں کہ اگر انڈس واٹر ٹریٹی پر 10 مئی کا یہ سیز فائر ختم ہو جاتا ہے تو ان قوتوں کو ایک بار پھر آگے آنا پڑے گا اور پاکستان اور انڈیا کو مذاکرات کی ٹیبل پر آمنے سامنے بٹھانا ہوگا۔
ہندوستان کے مسلسل پاکستان کے اندر ڈرون اور میزائل حملوں نے پاکستان کو مجبور کر دیا کہ وہ ہندوستان کے آپریشن سیندور کے جواب میں اپنا آپریشن بنیان مرصوص شروع کرے۔ یہ آپریشن علی الصبح 10 مئی کو شروع ہوا اور دوپہر ہونے تک ہندوستان کی فوجی و ٹیکنالوجی برتری کے سارے بتوں کو زمین بوس کر چکا تھا۔ پاکستان کی شدید فوجی کارروائی نے بھارتی قیادت کو مجبور کر دیا کہ وہ امریکی قیادت سے رابطہ کر کے جنگی صورتحال کو روکنے کے لیے بات کرے۔
اگرچہ سعودی، ایرانی، اماراتی اور قطری سفارت کار اور کچھ مغربی ملکوں کے ساتھ ساتھ چین و برطانیہ کے سفارت کار بھی پاکستان انڈیا کے درمیان اس فوجی کشیدگی کو کم کرانے کی کوششوں میں یکم مئی کے بعد سے مصروف تھے، لیکن انڈیا کے میڈیا کے قائم کردہ طاقت کے گھمنڈ اور مودی حکومت کی سیاسی سوچ نے اس بات چیت کو اور ثالثی کی کوششوں کو ہندوستان کے فیصلہ سازوں کی سوچ سے کافی دور رکھا ہوا تھا۔ آپریشن بنیان مرصوص شروع ہونے کے چند گھنٹوں میں بھارتی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امریکی صدر ٹرمپ، نائب صدر جے ڈی وینس اور سیکریٹری خارجہ امور مارکو روبیو نے درمیان میں کود کر دونوں ملکوں کو فائر بندی پر رضامند کیا۔
اس پس منظر میں پاکستان کی فوجی اور سفارتی برتری اور پاکستان کے سرکاری وغیرہ سرکاری میڈیا اور پاکستانی قوم کے پرامن زمانے سے زیادہ جنگ کے دوران پرامن و متحد رہنا واضح کرتا ہے کہ پاکستان کی صرف ایک دن میں چند گھنٹوں کی مربوط اور مضبوط فوجی کارروائی نے پاکستان کو بین الاقوامی طور پر مضبوط اقوام میں دوبارہ لا کھڑا کیا ہے۔
اگرچہ ابھی اس کے معاشی اثرات کا پاکستان کی معیشت پر سامنے آنا باقی ہے لیکن اصل بات جو حکومت پاکستان کو بہت ہی زیادہ سنجیدگی سے لینا چاہیے وہ اس تمام کشیدگی کا سیاسی پہلو ہے۔ آج اس قومی ایمرجنسی کے وقت میں فوری طور پر طے ہو گیا ہے کہ چینی اسلحہ اور فوجی ساز و سامان مغرب اور امریکا سے کہیں اعلیٰ درجے کا ہے، پاکستان کی فضائیہ دنیا کی سب سے اعلیٰ تربیت یافتہ فورس ہے۔
پاکستان کا سفارت کاری کا شعبہ برد بار، سمجھدار اور کسی بھی صورت ہندوستان سے کمزور نہیں ہے۔ پاکستان کا میڈیا کچھ کمزوریوں کے باوجود سنجیدہ اور حقیقت پر مبنی رپورٹنگ ایسے مشکل حالات میں بھی کر سکتا ہے۔ معاشی مشکلات کے باوجود قوم ایک ہے۔ لیکن اگر کچھ طے نہیں ہوتا نظر آرہا ہے تو وہ اس کشیدگی کے سیاسی مضمرات اور اثرات ہیں۔ ابھی تک اس بات کا تعین نہیں ہو سکا کہ سیز فائر کو کہاں تک لے جایا جا سکتا ہے۔
بین الاقوامی برادری کا نقطہ نظر تنازعہ کی رفتار اور ممکنہ حل کے لیے اہم مضمرات کا حامل ہو سکتا ہے۔ اب فیصلہ عالمی قوتیں کریں گی دنیا کو امن کا گہوارہ بنانا ہے یا سب اصول بالائے طاق رکھنا ہے اگر اقوام عالم نے انصاف کا دامن نہ تھاما تو پھر مشکلات میں اضافہ ہوگا۔جوہری ہتھیاروں کی موجودگی اور ان کے استعمال کی صلاحیت عالمی سلامتی کے لیے مستقل خطرہ ہے۔
دہشت گرد تنظیمیں عالمی استحکام اور سلامتی کے لیے مسلسل خطرہ ہیں۔ معاشی عدم استحکام اور عدم مساوات سماجی بدامنی اور تنازعات میں حصہ ڈال سکتے ہیں۔ عالمی ادارے اور بین الاقوامی تعاون تنازعات کو کم کرنے اور مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ سفارتی کوششیں تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرسکتی ہیں اور تناؤ کو کم کرسکتی ہیں۔ اقوام کے درمیان اقتصادی باہمی انحصار تعاون کو فروغ دے سکتا ہے اور تصادم کے امکانات کو کم کر سکتا ہے۔ تکنیکی ترقی مواصلات، تعاون، اور تنازعات کے حل کو بہتر بنا سکتی ہے۔
جنگ کا پھیلنا اکثر غیر متوقع ہوتا ہے، اور غیر متوقع واقعات کشیدگی کو بڑھا سکتے ہیں۔ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ بظاہر معمولی واقعات بھی بڑے تنازعات کو جنم دے سکتے ہیں۔ اقوام کے درمیان موجودہ تناؤ، خاص طور پر جوہری صلاحیتوں کے حامل، تنازعات کے خطرے کو بڑھاتے ہیں۔ دنیا چیلنجوں سے نمٹنے اور امن کو فروغ دینے کے لیے بھی اقدامات کر رہی ہے۔
جنگ کا امکان موجود ہے، لیکن یقین کے ساتھ اس کی پیش گوئی کرنا ناممکن ہے۔ جاری سفارتی کوششیں، بین الاقوامی تعاون، اور امن کے عزم سے تنازعات کے خطرے کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ امریکا کو اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ مسئلہ کشمیر کی گیند تاریخ اور لمحہ موجود کی عالمی سیاست کے کورٹ میں ہے۔ مسئلہ کشمیر کے ممکنہ حل کو ٹرمپ کی کوششوں سے نتھی کر کے بڑی پیش رفت کی ہے ان کی معروضات میں غور و فکر کا کافی سامان موجود ہے۔
حالیہ دنوں میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی بڑھی ہے، تاہم نئی امریکی انتظامیہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے سنجیدہ ہے، خطے میں استحکام کے لیے جوہری ممالک کے درمیان معاملات حل ہونے چاہئیں۔ کشمیر شعلہ جوالہ بن چکا ہے، مودی حکومت کی سیکولر ازم برہنہ ہے، کشمیر امریکی نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ٹیسٹ کیس ہے، ثالثی ناگزیر ہے۔ا1ھ