ترقی نے ہمیں ای میل، میسیج اور فوری رسائی تو دی، مگر وہ خامشی چرا لی جو کسی سادہ سے لفافے میں لپٹی ہوتی تھی۔ خط صرف پیغام نہیں ہوتا تھا، وہ تہذیب تھا، خوشبو تھا، اور محبت کی ایک مکمل زبان۔
صرف ایک خط لکھنے میں کئی دن، کئی سوچیں اور کئی دھڑکنیں صرف ہوتی تھیں۔
ہم خط لکھنے سے پہلے قلم کو سنوارتے، کاغذ کا انتخاب کرتے، اور کئی بار جملے مٹاتے، نئے لکھتے کہ کہیں دل کی بات غلط نہ اتر جائے۔ لفافے کو چومنا، اسے سونگھنا، بار بار پڑھنا، اور کسی خاص لفظ پر رک جانا... یہ سب خط پڑھنے کے وہ تجربے تھے جو صرف محسوس کیے جا سکتے تھے، بیان نہیں۔
پہلے خط کے اوپر شاعری ہوا کرتی تھی، کسی کونے میں دل بنا ہوتا، کہیں دو پھول، کہیں محبوب کا نام۔ اور کہیں بس ایک خاموشی جو بہت کچھ کہہ جاتی۔ اور وہ لمحے جب ہم لفافے کو سونگھتے تھے... اس میں صرف الفاظ نہیں، دعائیں، جذبات اور محبت کی خوشبو ہوتی تھی۔ خط ایک پیغام نہیں، ایک مکمل تہذیب تھا۔ ایک ایسا تعلق جو صرف تحریر سے نہیں، احساسات سے بندھا ہوتا تھا۔
جب میں گیارہویں جماعت میں تھا، نانی کے گھر کے قریب ایک چھت پر ایک لڑکی نظر آتی تھی۔ اس کا گھر کچھ فاصلے پر تھا، اور وہ مجھے کبھی دیکھتی نہیں تھی، یا شاید میں ہی یہ سمجھتا رہا۔ اس بے خبری نے دل کو بے چین کردیا۔ تنگ آکر میں نے زندگی کا پہلا خط لکھا۔ اپنا نام نہیں لکھا، ہمت ہی نہ ہوئی۔ بس اتنا لکھا کہ میں فلاں ماموں کا بھانجا ہوں اور چاہتا ہوں کہ آپ مجھے پہچان لیں، صرف دیکھ لیں۔ اس خط کو میں نے احتیاط سے ایک چھوٹے پتھر میں لپیٹا، اور اس کے گھر کی عقبی گلی میں جا کر چھت کی طرف اچھال دیا۔ دل دھڑک رہا تھا جیسے کسی جرم کا ارتکاب کررہا ہوں۔ اور جب تک اس نے چھت سے کوئی اشارہ نہیں کیا، میرا دل جیسے مٹھی میں بند رہا۔ اور پھر جب وہ اشارہ آیا ... شاید ایک پل کےلیے ... دل نے جیسے سکون کا سانس لیا، اور میں خود کو کائنات کا سب سے خوش نصیب انسان سمجھ بیٹھا۔
کئی دن بعد اس کا جواب آیا ... اسی طرح، خاموشی سے، چھت کے راستے۔ اور جب میں نے وہ خط پڑھا، تو میری دنیا ایک لمحے کو تھم گئی۔ اس خط کو میں نے سینے سے لگایا، بار بار پڑھا، اور تکیے کے نیچے رکھ کر سویا۔ شاید وہ پہلی رات تھی جب نیند اتنی میٹھی آئی، جیسے کوئی خواب پورا ہوگیا ہو۔
آج کا دور بدل چکا ہے۔ ای میل، واٹس ایپ، فیس بک، انسٹاگرام، اور اب تو اے آئی چیٹ بوٹس بھی آگئے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ: کیا ان سب میں وہی جذبہ، وہی تڑپ، وہی تھرتھراہٹ ہے جو خط لکھنے یا پڑھنے میں ہوا کرتی تھی؟
آج کوئی کسی کو میسیج کرتا ہے، ’ٹِک بلیو‘ ہوجاتی ہے، ’سین‘ ہوجاتا ہے، اور جواب بھی آجاتا ہے ... لیکن اس میں نہ وہ انتظار ہے، نہ دل کی دھڑکن کا اتار چڑھاؤ۔
’پوسٹ مین آیا‘ کہنے کی خوشی، گلی میں دوڑنے کی چاہت، وہ ’جلدی سے لفافہ کھولو‘ کا لمحہ ... یہ سب کہاں چلا گیا؟
ہمیں بتایا جارہا ہے کہ اگلی نسل واٹس ایپ کو یاد کرے گی جیسے ہم خط کو کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے ایسا ہو، لیکن وہ خوشبو؟ وہ تہذیب؟ کیا اسے ڈیجیٹل دنیا کبھی لوٹا سکے گی؟
خط میں احساس لکھا جاتا تھا، آج کل جذبات forward کیے جاتے ہیں۔ خط کو چھو کر محسوس کیا جاتا تھا، آج اسکرین چھوئی جاتی ہے۔ لفظ دل سے نکلتے تھے، آج کی بورڈ سے ٹپکتے ہیں۔ آج نہ وہ انتظار کی لذت ہے، نہ وہ صفحے پر مچلتے لفظ، نہ وہ پگھلتے دل کی روانی۔ اب تو نہ وہ چاندنی رات ہے، نہ تکیے کے نیچے رکھے خط کی خوشی، نہ ہی محبوب کی تحریر کو بار بار پڑھنے والا وقت۔
کبھی خط صرف پڑھا نہیں جاتا تھا، سنا جاتا تھا۔ آنکھیں لفظوں میں ڈوب جاتی تھیں، دل تحریر کے ساتھ دھڑکنے لگتا تھا۔ شاعری صرف اشعار میں نہیں، خط کے ایک ایک لفظ میں موجود ہوتی تھی۔ آج خط نہیں آتے، اور اگر آتے بھی ہیں تو ان میں نہ شاعری ہوتی ہے، نہ خوشبو، نہ وہ دل۔
اب جب کہ خط کا زمانہ نہیں رہا، تو نہ خط پر گانے بنتے ہیں، نہ ہی شاعری لکھی جاتی ہے۔ موبائل، ای میل اور چیٹ نے وہ جذبات چھین لیے ہیں جو کسی سادہ سے لفافے میں بند ہوتے تھے۔ کتنے ہی نغمے اور فلمی گانے آج بھی سماعت پر دستک دیتے ہیں جن میں ’’خط‘‘ ہی محبت کا وسیلہ ہے۔ ذیل میں ہم ان مشہور گانوں کی فہرست پیش کر رہے ہیں جو ’’خط‘‘ کے گرد گھومتے ہیں۔ آپ پڑھیں اور سر دھنیں کہ کیسے کیسے نایاب شاہکار ہمارے شاعروں نے تخلیق کیے تھے:
’’یہ میرا پریم پتر پڑھ کر‘‘ (فلم: سنگم 1964)
’’لکھے جو خط تجھے‘‘ (فلم: کنیادان 1968)
’’پھول تمہیں بھیجا ہے خط میں‘‘ (فلم: سرسوتی چندرا 1968)
’’چھٹی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے‘‘ (فلم: دوستی 1971)
’’تمہارے خط میں لکھا وہ سلام کس کا تھا‘‘ (پرائیوٹ البم غلام علی 1977)
’’تیرے خوشبو میں بسے خط میں جلاتا کیسے‘‘ (فلم: ارتھ 1982)
’’ہم نے صنم کو خط لکھا‘‘ (فلم: شکتی 1982)
’’چھٹی آئی ہے، آئی ہے‘‘ (فلم: نام 1986)
’’کبوتر جا جا کبوتر جا جا‘‘ (فلم: میں نے پیار کیا 1989)
’’خط لکھنا ہے پر سوچتی ہوں‘‘ (فلم :کھیل 1992)
’’پیار کے کاغذ پہ‘‘ (فلم: جگر 1992)
’’خط میں نے تیرے نام لکھا‘‘ (فلم: بے خودی 1992)
’’سندیسے آتے ہیں، ہمیں تڑپاتے ہیں‘‘ (فلم: بارڈر 1997)
’’پھول میں بھیجوں‘‘ (فلم: سلمیٰ پہ دل آگیا 1997)
’’قصہ ہم لکھیں گے دل بے قرار کا‘‘ (فلم: ڈولی سجا کے رکھنا 1998)
’’چٹھی نہ کوئی سندیس‘‘ (فلم: دشمن 1998)
’’وہ خط کے پرزے جلا رہا تھا‘‘ (جگجیت سنگھ: 1999)
’’پہلی پہلی بار محبت کی ہے‘‘ (فلم: صرف تم 1999)
’’میرے محبوب کا آ یا ہے محبت نامہ‘‘ (ناہید اختر)
’’اس خط کو میری آخری تحریر سمجھنا‘‘ (نورجہاں)
اور درجنوں نایاب شاہکار جن میں خط جذبات کا مرکزی استعارہ بن جاتا تھا۔ آج کل لوگ کہتے ہیں ’’میسیج کردیا ہے‘‘، ’’ڈی ایم کردیا ہے‘‘۔ لیکن اس میں وہ خوشبو، وہ تڑپ، وہ شاعری کہاں جو ایک خط میں ہوا کرتی تھی؟ شاید اسی لیے اب نہ کوئی خط لکھتا ہے، نہ ہی کوئی ایسا گانا بنتا ہے جس پر زمانہ سر دھن سکے۔
آج کے بچے شاید حیران ہوں کہ محبت کبھی لفافے میں آتی تھی، اور اس پر ڈاک کا ٹکٹ لگتا تھا۔ لیکن ہمارے جیسے لوگ جانتے ہیں کہ وہ ڈاک کا ٹکٹ دل کا یقین ہوا کرتا تھا۔ خط ایک زمانہ تھا، جو اب صرف یادوں میں ہے۔ اور یہ تحریر صرف ’’خط‘‘ کا نوحہ نہیں، ایک مکمل تہذیب، ایک مکمل دور کے بچھڑنے کا نوحہ ہے۔ اور اب...
جب کبھی دل بے وجہ اداس ہوتا ہے، تو جی چاہتا ہے کوئی پرانا صندوق کھولا جائے، جس میں برسوں پرانے لفافے، ذرا مڑے تڑے کاغذ، اور مدھم ہوچکی روشنائی میں لپٹے کچھ جذبے نکلیں۔ کوئی پرانا خط ہاتھ میں ہو، جس پر کسی اپنے کے لمس کی پرچھائیں ہو۔ ایسا خط جسے پڑھتے ہوئے آنکھیں بند کر کے ہم اُس وقت میں واپس چلے جائیں جب لفظوں میں محبت تھی، دعاؤں میں خوشبو تھی، اور خاموشی بھی گفتگو کرتی تھی۔
شاید اب کوئی خط نہ آئے،
شاید ہم خود بھی کبھی خط نہ لکھیں،
لیکن یادوں کی پوٹلی میں،
کسی پرانی رات کی تنہائی میں،
لفظوں کا ایک خط ضرور ہوتا ہے
جو ہم دل میں بار بار پڑھتے ہیں...
بے آواز، بے توقیر، مگر بے حد عزیز۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔